سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کتاب الاستئذان کے بارے میں
1. باب الاِسْتِئْذَانِ ثَلاَثٌ:
1. تین مرتبہ اجازت لینے کا بیان
حدیث نمبر: 2665
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا داود، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري: ان ابا موسى الاشعري استاذن على عمر ثلاث مرات , فلم يؤذن له , فرجع , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "إذا استاذن المستاذن ثلاث مرات: فإن اذن له وإلا، فليرجع"، فقال: لتاتين بمن يشهد معك، او لافعلن، ولافعلن. قال ابو سعيد: فاتانا وانا في قوم من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، وهو فزع من وعيد عمر إياه، فقام علينا، فقال: انشد الله منكم رجلا سمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا شهد لي به. قال: فرفعت راسي، فقلت: اخبره اني معك على هذا. وقال ذاك آخرون، فسري عن ابي موسى.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ , فَرَجَعَ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "إِذَا اسْتَأْذَنَ الْمُسْتَأْذِنُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: فَإِنْ أُذِنَ لَهُ وَإِلَّا، فَلْيَرْجِعْ"، فَقَالَ: لَتَأْتِيَنَّ بِمَنْ يَشْهَدُ مَعَكَ، أَوْ لَأَفْعَلَنَّ، وَلَأَفْعَلَنَّ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَتَانَا وَأَنَا فِي قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، وَهُوَ فَزِعٌ مِنْ وَعِيدِ عُمَرَ إِيَّاهُ، فَقَامَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: أَنْشُدُ اللَّهَ مِنْكُمْ رَجُلًا سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا شَهِدَ لِي بِهِ. قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَقُلْتُ: أَخْبِرْهُ أَنِّي مَعَكَ عَلَى هَذَا. وَقَالَ ذَاكَ آخَرُونَ، فَسُرِّيَ عَنْ أَبِي مُوسَى.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس داخل ہونے کی اجازت مانگی لیکن انہیں اجازت نہ ملی، چنانچہ وہ واپس ہوگئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم واپس کیوں چلے گئے؟ عرض کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اجازت طلب کرنے والا داخلے کی تین بار اجازت مانگے، اگر اجازت مل جائے تو داخل ہو جائے ورنہ واپس لوٹ جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کو اس بات پر گواہ لانا ہوگا ورنہ میں تمہارے ساتھ بہت برا سلوک کروں گا۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور میں بھی اس جماعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ مسجد میں موجود تھا۔ سیدنا ابوموسیٰ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی انہیں تنبیہ کی وجہ سے بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: کہ میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کسی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے، سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سر اٹھایا اور کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتا دو کہ میں نے بھی تمہارے ساتھ یہ سنا ہے اور دیگر صحابہ کرام نے بھی ان کی تائید کی، چنانچہ یہ سن کر سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ خوش ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح أبو النعمان هو: محمد بن الفضل وداود هو: ابن أبي هند وأبو نضرة هو: المنذر بن مالك، [مكتبه الشامله نمبر: 2671]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابونعمان کا نام محمد بن الفصل ہے، اور داؤد: ابن ابی ہند ہیں، اور ابونضرۃ کا نام منذر بن کعب ہے، اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6245]، [مسلم 2153]، [أبوداؤد 5180]، [ترمذي 2690]، [ابن ماجه 3706]، [أبويعلی 981]، [ابن حبان 5806]، [الحميدي 751]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2664)
اس حدیث میں آدابِ ملاقات و استیذان کا بہترین اصول بیان کیا گیا ہے۔
کسی بھی گھر، مکتب، آفس وغیرہ میں داخل ہونے سے پہلے تین بار اجازت طلب کرنی چاہیے۔
طریقہ خواہ کیسا ہی ہو، اگر صاحبِ خانہ اجازت دے تو داخل ہو جائے ورنہ واپس لوٹ جائے، بغیر اجازت اندر گھسنا درست نہیں، کیونکہ ہر آدمی کے ساتھ اسرار و حالات ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی کی دخل اندازی پسند نہ کرے گا، اور جو لوگ ہر وقت گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں ان کو ہر وقت نہیں، ہاں فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت جب قیلولے کا وقت ہوتا ہے، اور بعد نمازِ عشاء ضرور اجازت لینی چاہیے، جیسا کہ آیتِ شریفہ: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ .....﴾ [النور: 58] » میں ذکر ہے۔
ترجمہ: اے مومنو! تم سے تمہارے مملوک غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں اپنے آنے کی تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے، نمازِ فجر سے پہلے، ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار کر رکھتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد .....۔

اس حدیث میں امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا رعب و دبدبہ، بصیرت اور روایت و قبولِ حدیث میں شدتِ احتیاط ثابت ہوتا ہے تاکہ ہر کوئی رسولِ ہدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بھی بات کو منسوب کرنے میں احتیاط سے کام لے۔
اس میں نہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی عدالت میں شک و شبہ کی گنجائش ہے اور نہ خبر واحد کے قبول کرنے سے انکار ہے، جیسا کہ علمائے کرام نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح أبو النعمان هو: محمد بن الفضل وداود هو: ابن أبي هند وأبو نضرة هو: المنذر بن مالك
2. باب كَيْفَ الاِسْتِئْذَانُ:
2. اجازت طلب کرنے کے طریقے کا بیان
حدیث نمبر: 2666
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن محمد بن المنكدر، قال: سمعت جابر بن عبد الله، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فضربت بابه، فقال: "من ذا؟". فقلت: انا. قال:"انا؟ انا؟!"فكره ذاك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبْتُ بَابَهُ، فَقَالَ: "مَنْ ذَا؟". فَقُلْتُ: أَنَا. قَالَ:"أَنَا؟ أَنَا؟!"فَكَرِهَ ذَاكَ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: میں ہوں، فرمایا: میں، میں یعنی اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2672]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6250]، [مسلم 2155]، [أبوداؤد 5187]، [ترمذي 2711]، [ابن ماجه 3709]، [ابن حبان 5808]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2665)
«أَنَا أَنَا» یا میں میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا جواب نہیں تھا۔
انہیں کہنا چاہیے تھا کہ میں جابر ہوں، نام نہیں بتایا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میں میں کو ناپسند فرمایا۔
ہم نے اس دور کے محدث و مفتی سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ الله کو دیکھا اور سنا تھا، ٹیلیفون پر کوئی پوچھتا آپ کون ہیں تو بلا تردد کہتے: میں عبدالعزيز ابن باز ہوں، نہ آپ کے چہرے پر شکن آتی اور نہ ہی کبھی ناگواری دیکھنے میں آتی۔
بعض لوگ اپنا اسم گرامی بتانا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
3. باب في النَّهْيِ أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلاً:
3. رات میں اپنے گھر میں داخل ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 2667
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، قال: سمعت محارب بن دثار يذكر، عن جابر بن عبد الله، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يطرق الرجل اهله ليلا، او يخونهم، او يلتمس عثراتهم". قال سفيان: قوله: او يخونهم، او يلتمس عثراتهم، ما ادري: شيء. قاله محارب: او شيء هو في الحديث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَارِبَ بْنَ دِثَارٍ يَذْكُرُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا، أَوْ يُخَوِّنَهُمْ، أَوْ يَلْتَمِسَ عَثَرَاتِهِمْ". قَالَ سُفْيَانُ: قَوْلُهُ: أَوْ يُخَوِّنَهُمْ، أَوْ يَلْتَمِسَ عَثَرَاتِهِمْ، مَا أَدْرِي: شَيْءٌ. قَالَهُ مُحَارِبٌ: أَوْ شَيْءٌ هُوَ فِي الْحَدِيثِ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اس سے کہ کوئی آدمی رات میں اپنے گھر میں آئے گھر والوں کی خیانت یا چوری پکڑنے کو، یا ان کا قصور ڈھونڈنے کو۔
سفیان نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ «يخونهم» اور «يلتمس عثراتهم» یہ محارب نے اپنی طرف سے کہا یا یہ حدیث کے الفاظ ہیں؟

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2673]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5243]، [مسلم 184/715]، [أبوداؤد 2778]، [ترمذي 2712]، [أبويعلی 1843]، [ابن حبان 2713]، [الحميدي 1334]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2666)
اس حدیث میں شوہر کو بدگمانی اور ٹوہ لگانے سے روکا گیا ہے، حالانکہ زوجین ایک دوسرے کی طبیعت و مزاج اور عادت سے بھی واقف ہوتے ہیں پھر بھی اچانک رات میں آ دھمکنے سے روکا گیا ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے بیوی ایسی حالت میں ہو جو شوہر کو ناگوار گذرے۔
دوسرے یہ کہ اطلاع دے کر گھر آنے میں یہ حکمت ہے کہ دن میں عورت بناؤ سنگھار، صفائی ستھرائی کر لے جس سے شوہر کو راحت ملے نہ کہ دل شکنی ہو، اور بہت کی حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے رات میں اچانک گھر میں آنے سے روکا گیا ہے۔
ہاں گھر والوں کو رات میں آنے کا علم ہو تو کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
4. باب في إِفْشَاءِ السَّلاَمِ:
4. سلام کو عام کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2668
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن عوف، عن زرارة بن اوفى، عن عبد الله بن سلام، قال: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، استشرفه الناس، فقالوا: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: فخرجت فيمن خرج، فلما رايت وجهه، عرفت ان وجهه ليس بوجه كذاب. فكان اول ما سمعته , يقول:"يا ايها الناس، افشوا السلام، واطعموا الطعام، وصلوا الارحام، وصلوا والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، اسْتَشْرَفَهُ النَّاسُ، فَقَالُوا: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيمَنْ خَرَجَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ وَجْهَهُ، عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ. فَكَانَ أَوَّلَ مَا سَمِعْتُهُ , يَقُولُ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ".
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لا رہے تھے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ تک رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو لوگ باہر نکل کر آئے۔ میں ان میں تھا اور جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا تو (دل میں) کہا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا، اس وقت سب سے پہلی بات جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی یہ تھی: لوگو! سلام پھیلاؤ (یعنی آپس میں بھی سلام کیا کرو)، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، اور جب لوگ سوتے ہوں تو تم نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2674]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2485]، [ابن ماجه 1334]، [ابن سني فى عمل اليوم و الليلة 215]، [شرح السنة 40/4] و [الحاكم 13/3]، [أبويعلی 108/11، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2667)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افشاءِ اسلام، کھانا کھلانے، صلہ رحمی، اور رات میں نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ یہ اعمال جنّت میں لے جانے والے ہیں، آپس میں محبت پیدا کرتے اور مخلوق کا ناطہ خالق سے جوڑتے ہیں۔
الله تعالیٰ سب کو ان اعمالِ صالحہ کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
5. باب في حَقِّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ:
5. مسلمان کے مسلمان پر حق کا بیان
حدیث نمبر: 2669
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "للمسلم على المسلم ست: يسلم عليه إذا لقيه ويشمته إذا عطس، ويعوده إذا مرض، ويجيبه إذا دعاه، ويشهده إذا توفي، ويحب له ما يحب لنفسه، وينصح له بالغيب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا تُوُفِّيَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ، وَيَنْصَحُ لَهُ بِالْغَيْبِ".
امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں: جب ملے تو اسے سلام کرے، جب اسے چھینک آئے تو جواب دے (یعنی چھینکنے والا الحمد للہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہے)، بیمار ہو جائے تو اس کی بیمار پرسی کرے، جب اسے دعوت دے تو قبول کر لے، جب فوت ہو جائے تو (تجہیز و تکفین و تدفین میں) حاضری دے۔ جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لئے پسند کرے اور اس کی غیر حاضری میں اس کی خیر خواہی کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن الحارث هو: ابن عبد الله الأعور، [مكتبه الشامله نمبر: 2675]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2736]، [ابن ماجه 1433]، [أبويعلی 435، وغيرهم وله شاهد عند مسلم 2162]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2668)
سلام کرنا، چھینک آنے پر جو الحمد للہ کہے اسے جواب دینا، بیمار پرسی کرنا، دعوت قبول کرنا، جنازے میں شریک ہونا، جو اپنے لئے پسند کرے وہی اس کے لئے پسند کرنا، اور پیٹھ پیچھے اس کے ساتھ بھلائی کرنا، یہ تمام حسنِ اخلاق اور اعمالِ صالحہ ہیں، جن پر سب کو عمل کرنا چاہیے۔
آج کے دور میں پیٹھ پیچھے بھلائی کرنا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔
اکثر مسلمان ایک دوسرے کی غیبت اور عیب جوئی کرتے ہیں جو بہت بڑا گناہ ہے۔
الله تعالیٰ سب کو ہدایت دے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن الحارث هو: ابن عبد الله الأعور
6. باب في تَسْلِيمِ الرَّاكِبِ عَلَى الْمَاشِي:
6. سوار کا پیدل چلنے والے کو سلام کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2670
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، اخبرنا ابو هانئ الخولاني: ان ابا علي الجنبي حدثه , عن فضالة بن عبيد، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "يسلم الراكب على الماشي، والقائم على القاعد، والقليل على الكثير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ: أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ الْجَنْبِيَّ حَدَّثَهُ , عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْقَائِمُ عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ".
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل چلنے والے کو، اور کھڑا شخص بیٹھے ہوئے کو، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو هانئ هو: حميد بن هانئ وأبو علي هو: عمرو بن مالك، [مكتبه الشامله نمبر: 2676]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2705]، [ابن حبان 497]، [موارد الظمآن 1936]۔ ابوہانی کا نام حمید بن ہانی، اور ابوعلی کا نام عمرو بن مالک ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2669)
یہ سلام کرنے کے درجے اور مراتب ہیں۔
اس میں کسی آدمی کے رتبے اور مرتبے کا اعتبار نہ ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو هانئ هو: حميد بن هانئ وأبو علي هو: عمرو بن مالك
7. باب في رَدِّ السَّلاَمِ عَلَى أَهْلِ الْكِتَابِ:
7. اہل کتاب کے سلام کا جواب دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2671
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن اليهود إذا سلم احدهم، فإنما يقول: السام عليك. قل: عليك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُهُمْ، فَإِنَّمَا يَقُولُ: السَّامُ عَلَيْكَ. قُلْ: عَلَيْكَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں میں سے کوئی جب سلام کرتا ہے تو کہتا ہے «السام عليك» تمہیں موت آئے (سو) تم جواب میں کہو: «عليك» یعنی تمہارے ہی اوپر موت پڑے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في كتاب السلام، [مكتبه الشامله نمبر: 2677]»
اس روایت کی سند بہت قوی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6257]، [مسلم 2164]، [أبوداؤد 5206]، [ابن حبان 502]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2670)
[بخاري شريف 6256] میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: السام علیکم (تمہیں موت آ ئے)، میں سمجھ گئی اور میں نے جواب دیا: علیکم السام واللعنتہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! صبر سے کام لو کیونکہ الله تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔
میں نے عرض کیا: آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا تھا؟ فرمایا: میں نے ان کا جواب دے دیا تھا کہ علیکم اور تمہیں بھی۔
یعنی جو تم نے کہا وہی تمہیں بھی نصیب ہوا۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ کوئی غیر مسلم اس طرح کہے تو اس کا جواب علیک یا علیکم سے دینا چاہیے کہ تمہارے لئے بھی وہی جس کے تم مستحق ہو یا جو تم ہمارے لئے چاہتے ہو۔
علماء نے کہا ہے کہ علیکم کہنا وعلیکم سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے، اور السام واللعنتہ کہنے سے روکا اس لئے کہ اس میں سخت کلامی اور خشونت ہے، والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في كتاب السلام
8. باب في التَّسْلِيمِ عَلَى الصِّبْيَانِ:
8. بچوں کو سلام کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2672
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن سيار، قال: كنت امشي مع ثابت البناني، فمر بصبيان، فسلم عليهم، وحدث ثابت انه كان مع انس فمر بصبيان فسلم عليهم، وحدث انس:"انه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم فمر بصبيان، فسلم عليهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَيَّارٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، فَمَرَّ بِصِبْيَانٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، وَحَدَّثَ ثَابِتٌ أَنَّهُ كَانَ مَعَ أَنَسٍ فَمَرَّ بِصِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، وَحَدَّثَ أَنَسٌ:"أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ بِصِبْيَانٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ".
سیار نے کہا: میں ثابت البنانی کے ہمراہ چل رہا تھا، وہ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے، پھر حدیث بیان کی کہ وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے، اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ بچوں کے پاس سے گذرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2678]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6247]، [مسلم 2168]، [أبوداؤد 5202]، [ترمذي 2696]، [ابن ماجه 3700]، [أحمد 183/3]، [أبويعلی 3799]، [شرح السنة 3305]، [عمل اليوم و الليلة لابن السني 226]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2671)
بچوں کو سلام کرنے میں تواضع جھلکتی ہے، اور اس میں ان کی دلجوئی کا اہتمام اور ان کے لئے سلامتی کی دعا ہے۔
اس کے علاوہ ان پر سلام کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔
اس لئے بچوں کو سلام کرنا سنّت اور اسوۂ پیغمبر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
9. باب في التَّسْلِيمِ عَلَى النِّسَاءِ:
9. عورتوں کو سلام کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2673
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، عن شعيب بن ابي حمزة، عن ابن ابي حسين، حدثني شهر، عن اسماء بنت يزيد بن السكن إحدى نساء بني عبد الاشهل"انها بينا هي في نسوة مر عليهن النبي صلى الله عليه وسلم فسلم عليهن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، حَدَّثَنِي شَهْرٌ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ إِحْدَى نِسَاءِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ"أَنَّهَا بَيْنَا هِيَ فِي نِسْوَةٍ مَرَّ عَلَيْهِنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِنَّ".
بنوعبدالاشہل کی ایک خاتون سیدہ اسماء بنت یزید بن سکن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ کچھ عورتوں کے ساتھ تھیں جن کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو انہیں سلام کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2679]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5204]، [ترمذي 2698]، [ابن ماجه 3701]، [أحمد 452/6]، [الأدب المفرد 1047]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2672)
اس حدیث سے اجنبی مرد کا اجنبی عورتوں سے سلام کرنا ثابت ہوا۔
علمائے کرام نے کہا: اگر فتنے کا ڈر نہ ہو تو مرد عورت کو اور عورت مرد کو سلام کرسکتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہی صحیح ہے، صحابہ کرام بھی ازواجِ مطہرات کو سلام کیا کرتے تھے۔
ہاں! اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
سلام کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ جواب دینے میں کوئی حرج ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
10. باب إِذَا قُرِئَ عَلَى الرَّجُلِ السَّلاَمُ كَيْفَ يَرُدُّ:
10. جب کسی کو سلام کیا جائے تو جواب کس طرح دے؟
حدیث نمبر: 2674
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، عن شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، قال: حدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن: ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا عائش هذا جبريل يقرا عليك السلام". قالت: وعليه السلام ورحمة الله وبركاته. قالت: وهو يرى ما لا ارى.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا عَائِشُ هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ". قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكاتُهُ. قَالَتْ: وَهُوَ يَرَى مَا لَا أَرَى.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مبارکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے عائش! یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
انہوں نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دیکھ رہے تھے جو میں نہ دیکھتی تھی (یعنی جبریل علیہ السلام کو)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2680]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6249]، [مسلم 2447/91]، [أبوداؤد 5232]، [ترمذي 2693]، [نسائي 3958]، [ابن ماجه 3696]، [أبويعلی 4781]، [ابن حبان 7098]، [الحميدي 279]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2673)
اس حدیث سے کسی اجنبی کا اجنبی عورت کو سلام کرنا اور عورت کا اسے جواب دینا ثابت ہوا، نیز یہ کہ اس کا جواب وعلیکم السلام نہیں بلکہ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سے دینا چاہیے۔
اس حدیث سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ روح القدس انہیں سلام کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک اور لطف و کرم بھی معلوم ہوا، اور یہ کہ لاڈ و پیار میں شوہر اپنی بیوی کا نام بدل کر کسی پیارے نام سے پکار سکتا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائش! عائشہ نہیں کہا، « ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ [الأحزاب: 21] » ترجمہ: یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں عمدہ نمونہ موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.