(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، قال: سمعت محارب بن دثار يذكر، عن جابر بن عبد الله، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يطرق الرجل اهله ليلا، او يخونهم، او يلتمس عثراتهم". قال سفيان: قوله: او يخونهم، او يلتمس عثراتهم، ما ادري: شيء. قاله محارب: او شيء هو في الحديث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَارِبَ بْنَ دِثَارٍ يَذْكُرُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا، أَوْ يُخَوِّنَهُمْ، أَوْ يَلْتَمِسَ عَثَرَاتِهِمْ". قَالَ سُفْيَانُ: قَوْلُهُ: أَوْ يُخَوِّنَهُمْ، أَوْ يَلْتَمِسَ عَثَرَاتِهِمْ، مَا أَدْرِي: شَيْءٌ. قَالَهُ مُحَارِبٌ: أَوْ شَيْءٌ هُوَ فِي الْحَدِيثِ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اس سے کہ کوئی آدمی رات میں اپنے گھر میں آئے گھر والوں کی خیانت یا چوری پکڑنے کو، یا ان کا قصور ڈھونڈنے کو۔ سفیان نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ «يخونهم» اور «يلتمس عثراتهم» یہ محارب نے اپنی طرف سے کہا یا یہ حدیث کے الفاظ ہیں؟
وضاحت: (تشریح حدیث 2666) اس حدیث میں شوہر کو بدگمانی اور ٹوہ لگانے سے روکا گیا ہے، حالانکہ زوجین ایک دوسرے کی طبیعت و مزاج اور عادت سے بھی واقف ہوتے ہیں پھر بھی اچانک رات میں آ دھمکنے سے روکا گیا ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے بیوی ایسی حالت میں ہو جو شوہر کو ناگوار گذرے۔ دوسرے یہ کہ اطلاع دے کر گھر آنے میں یہ حکمت ہے کہ دن میں عورت بناؤ سنگھار، صفائی ستھرائی کر لے جس سے شوہر کو راحت ملے نہ کہ دل شکنی ہو، اور بہت کی حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے رات میں اچانک گھر میں آنے سے روکا گیا ہے۔ ہاں گھر والوں کو رات میں آنے کا علم ہو تو کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2673]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5243]، [مسلم 184/715]، [أبوداؤد 2778]، [ترمذي 2712]، [أبويعلی 1843]، [ابن حبان 2713]، [الحميدي 1334]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه