سالم نے روایت کیا اپنے والد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کوئی غلام خریدے اور اس کے مال کی شرط نہ لگائے تو اس مشتری کے لئے غلام کے مال میں سے کچھ نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2603]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2379]، [مسلم 1543]، [أبويعلی 5427]، [ابن حبان 4921] بخاری شریف کی روایت میں ہے: ”اگر کسی شخص نے کوئی مال والا غلام بیچا تو اس کا مال بیچنے والے کا ہوگا، ہاں اگر مشتری اس کی شرط لگائے (کہ غلام کے ساتھ اس کا مال بھی خریدتا ہوں) تب غلام کا مال مشتری کے لئے ہوگا۔“
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن ابي سعيد الخدري، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين، وعن لبستين: عن بيع المنابذة والملامسة". قال عبد الله: المنابذة: يرمي هذا إلى ذاك. ويرمي ذاك إلى هذا. قال: كان هذا في الجاهلية.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ، وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ: عَنْ بَيْعِ الْمُنَابَذَةِ وَالْمُلَامَسَةِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: الْمُنَابَذَةُ: يَرْمِي هَذَا إِلَى ذَاكَ. وَيَرْمِي ذَاكَ إِلَى هذَا. قَالَ: كَانَ هَذَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کی بیع سے اور دو قسم کے پہناوے سے اور منابذۃ و ملامسۃ سے منع فرمایا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: بیع منابذہ یہ ہے کہ بائع مشتری کی طرف اور مشتری بائع کی طرف (کپڑا وغیرہ) پھینکے، (اور اس سے بیع تمام ہو جائے) یہ دورِ جاہلیت کی خرید و فروخت تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2604]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 367]، [مسلم 1512]، [أبوداؤد 3377]، [نسائي 4524]، [ابن ماجه 2169]، [أبويعلی 976]، [ابن حبان 4976]، [الحميدي 747]
وضاحت: (تشریح احادیث 2596 سے 2598) اس حدیث میں دو بیع اور دو لباس کے پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ منابذہ یہ ہے کہ مشتری بائع کی طرف کپڑا پھینکے اور بدلے میں بائع مشتری کی طرف کپڑا پھینکے جو اس کی قیمت کے بدلے میں ہو، جب ایسا کریں تو بیع واجب ہو جائے۔ ملامسہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے کہے کہ تم نے میرا کپڑا چھو لیا، میں نے تمہارا کپڑا چھو لیا تو بیع مکمل و واجب ہو جائے گی اور اس کے بعد تمہیں فسخ کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔ بخاری و مسلم میں ان دونوں بیع کی تفسیر اسی طرح ہے کہ خریدار دن ہو یا رات دوسرے کے کپڑے کو بنا دیکھے اور الٹ پلٹ کئے ہاتھ لگا دے اور اسی پر سودا کر لے، یہ ملامسہ ہے۔ اور منابذہ یہ ہے کہ بائع اور مشتری ایک دوسرے کی جانب اپنا کپڑا پھینکیں، اور پھینکنا ہی دونوں کے درمیان بغیر دیکھے اور باہمی رضامندی کے ساتھ بیع قرار پائے، اور محض ہاتھ لگانا اور کپڑا پھینکنا ہی دیکھنے اور ملاحظہ کرنے کے قائم مقام ہو، اس کے بعد پھر کسی کو دیکھنے کا اختیار باقی نہ رہے، یا اسے ایجاب و قبول کے قائم مقام سمجھا جائے، یا مجلس کے اختیار کے لئے یہ قطعی اور حتمی ہو، ان دونوں بیعوں سے منع کیا کیونکہ ان میں دھوکہ ہے، اور یہ شرط فاسد ہے کہ دیکھنے پر کسی کو اختیار نہ ہوگا بیع کو فسخ کرنے کا، اس حدیث میں «لِبْسَتَيْنِ» سے مراد اشتمال الصماء اور احتباء ہے۔ اوّل الذکر یہ ہے کہ ایک کپڑا لے کر اس کو سارے بدن پر اس طرح سے لپیٹ لے کہ ہاتھ ہلانے اور پاؤں نکالنے کی گنجائش نہ رہے، اور اس میں بڑی تکلیف ہوتی ہے، اور کبھی کپڑا چھوٹا ہوتا ہے تو سامنے سے ستر کھل جاتا ہے، اس لئے اس سے منع کیا گیا۔ احتباء ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ شرمگاہ پر کچھ نہ ہو، کیونکہ اس طرح اوکڑو بیٹھنے سے ستر کھلا رہ جائے گا اور بے ادبی ہوتی ہے، اس لئے اس سے بھی منع کیا گیا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے والی بیع اور حصاة (کنکری) کی بیع سے منع کیا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: بیع الحصاۃ یہ ہے کہ جب کنکری پھینکے تو بیع مکمل ہوجائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2605]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1513]، [أبوداؤد 3376]، [ترمذي 1230]، [نسائي 4530]، [ابن ماجه 2194]
وضاحت: (تشریح حدیث 2598) «بِيْعِ الْحِصَاةِ» کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کنکری پھینکے اور جس چیز پر وہ کنکری گرے اس کی بیع ہو جائے۔ یہ بیع جاہلیت میں مروج تھی۔ اور «بِيْعِ الْغَرَرِ» یہ ہے کہ جس چیز کے ملنے یا نہ ملنے میں تردد ہو، جیسے مچھلی دریا میں، پرندہ ہوا میں، اس کی بیع کرے، دونوں میں دھوکہ اور احتمالات ہیں جن کے سبب یہ بیع حرام و ناجائز ہے۔ اس کی اور بھی صورتیں ہیں جو شرح بلوغ المرام للشیخ صفی الرحمٰن میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، وجعفر بن عون , عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة". ثم إن الحسن نسي هذا الحديث، ولم يقل جعفر: ثم إن الحسن نسي هذا الحديث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ , عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً". ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ نَسِيَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَلَمْ يَقُلْ جَعْفَرٌ: ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ نَسِيَ هَذَا الْحَدِيثَ.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کو جانور کے بدلے ادھار بیچنے سے منع کیا۔ پھر حسن رحمہ اللہ اس حدیث کو بھول گئے۔ اور جعفر رحمہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ حسن رحمہ اللہ اس حدیث کو بھول گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف سعيد وجعفر لم يذكرا فيمن سمع ابن أبي عروبة قديما ولكنهما توبعا من قبل من سمع منه قديما، [مكتبه الشامله نمبر: 2606]» یہ حدیث سند میں انقطاع کے سبب ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3356]، [ترمذي 1237]، [نسائي 4634]، [ابن ماجه 2270]، [أحمد 12/5]، [طبراني 205/7، 6851]، [شرح معاني الآثار للطحاوي 60/4، وغيرهم وبمجموع طرقه يتقوى الحديث، انظر شواهده فى ابن حبان 5038]
وضاحت: (تشریح حدیث 2599) اس حدیث سے ادلے بدلے میں ایک جنس کا جانور ادھار بیچنے کی ممانعت ہے، جیسے اونٹ کو اونٹ کے بدلے اور غلام کو غلام کے بدلے، لیکن اگر جنس مختلف ہو تو ادھار بھی درست ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر علماء کے نزدیک ہر طرح درست ہے، ادھار ہو یا نقد، ایک طرف زیادہ ہو تو بھی درست ہے، جیسے ایک اونٹ دو اونٹ کے بدلے، اور امام شافعی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث کا یہ معنی لیا ہے کہ دونوں طرف ادھار ہو تو یہ منع ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف سعيد وجعفر لم يذكرا فيمن سمع ابن أبي عروبة قديما ولكنهما توبعا من قبل من سمع منه قديما
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، عن مالك، قراءة عليه، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي رافع: مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: استسلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بكرا، فجاءت إبل من إبل الصدقة. قال ابو رافع: فامرني ان اقضي الرجل بكره، فقلت: لم اجد في الإبل إلا جملا خيارا رباعيا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اعطه إياه، فإن خير الناس احسنهم قضاء". قال عبد الله: هذا يقوي قول من يقول: الحيوان بالحيوان.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَالِكٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ: مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكْرًا، فَجَاءَتْ إِبِلٌ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ. قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَأَمَرَنِي أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ، فَقُلْتُ: لَمْ أَجِدْ فِي الْإِبِلِ إِلَّا جَمَلًا خِيَارًا رَبَاعِيًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَعْطِهِ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خَيْرَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً". قَالَ عَبْد اللَّهِ: هَذَا يُقَوِّي قَوْلَ مَنْ يَقُولُ: الْحَيَوَانُ بِالْحَيَوَانِ.
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان اونٹ بطورِ قرض لیا، پس جب صدقہ کے اونٹ آئے تو سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا اونٹ واپس کر دوں، میں نے عرض کیا کہ مجھے ان اونٹوں میں بہترین رباعی (چار دانت والے) اونٹ کے علاوہ اور دوسرا اونٹ نہیں ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی بہترین رباعی اونٹ اسے دے دو، بہتر ہیں وہ لوگ جو قرض کو اچھا ادا کرتے ہیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث سے ان کے قول کو تقویت ملتی ہے جو حیوان (جانور) کے بدلے جانور کی بیع کو جائز کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في البيوع، [مكتبه الشامله نمبر: 2607]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1600]، [أبوداؤد 3346]، [ترمذي 1318]، [نسائي 4631]، [ابن ماجه 2285، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2600) اس حدیث میں اچھا ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جو مال قرض لیا تھا اس سے افضل ادا کرے بناکسی شرط کے، اگر قرض سے بہتر یا زیادہ مال دیا جائے تو مستحب ہے، اور اس کا لینا درست ہے، لیکن شرط کے ساتھ درست نہیں، کیونکہ وہ سراسر سود ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جانور کا قرض لینا درست ہے۔ بہت سے ائمہ و تابعین کا یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ جائز نہیں، اور مذکورہ بالا حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في البيوع
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باہر سے شہر میں غلہ لانے والوں کو آگے جا کر نہ ملو، اور جو شخص اس (قافلے) سے جا کر ملا اور اس سے کچھ سامان خرید بھی لیا تو اس بیچنے والے مالک کو منڈی میں پہنچنے کے بعد اختیار ہے (چاہے تو سودا باقی رکھے یا منسوخ کر دے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2608]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2162]، [مسلم 1519]، [نسائي 4513]، [أبويعلی 6073]، [ابن حبان 4961]
وضاحت: (تشریح حدیث 2601) اس حدیث میں دیہات سے سامان لے کر بیچنے کی غرض سے شہر آنے والوں سے ملنے اور ان سے بے خبری کی وجہ سے سستے داموں اشیاء خریدنے کی ممانعت ہے۔ مسلمان مسلمان کا خیرخواه، ہمدرد و غمگسار ہونا چاہے، اس طرح کے عمل سے خودغرضی اور مفاد پرستی کو ہوا ملتی ہے، اور تقویت ہوتی ہے کہ اپنا مفاد سامنے رکھا جائے، اور بے خبر لوگوں کی بے خبری سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔ اور شہر آنے والے قافلوں سے ملاقات نہ کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ فروخت کرنے والا دھوکہ دہی اور ضرر رسانی سے بچ جائے، غبن اور خدع سے محفوظ ہو جائے، اور اسی طرح جو لوگ منڈی میں سامان خریدنے کے لئے آتے ہیں وہ لوگ فائدہ اور منافع حاصل کر لیتے ہیں، یہ تو معمول کا رواج ہے کہ قافلے اپنا سامان منڈی کے عام بھاؤ سے قدرے سستا فروخت کرتے ہیں۔ بہرحال اسلام نے دھوکہ دہی سے منع کیا اور قافلوں سے جا کر ملنے سے منع کیا تاکہ سیدھے سادے لوگ دھوکے میں خسارہ نہ اٹھائیں، اگر ایسی بیع و فروخت ہو بھی جائے تو مالکِ سلع کو منڈی میں پہنچنے پر اس بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار ہے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يبيع بعضكم على بيع بعض، ولا تلقوا السلع حتى يهبط بها الاسواق، ولا تناجشوا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَبِيعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا تَلَقَّوُا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ، وَلَا تَنَاجَشُوا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کسی کی خرید و فروخت میں خل اندازی نہ کرے، اور نہ قافلوں سے جا کر ملے یہاں تک کہ وہ منڈی میں پہنچ جائیں، اور خریدنے کا ارادہ نہیں تو بھاؤ نہ بڑھائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع، [مكتبه الشامله نمبر: 2609]» اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2139]، [مسلم 1412]، [أبوداؤد 3436]، [ترمذي 1292]، [نسائي 3238]، [ابن ماجه 2171]، [أبويعلی 5801]، [ابن حبان 4959]۔ اس حدیث کی کچھ شرح حدیث رقم (2586)، میں گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2602) اس حدیث میں تین امور سے منع کیا گیا ہے: (1) کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے، ہاں پہلا بائع اگر اجازت دے کہ تم اگر چاہو تو خرید سکتے ہو تو پھر کوئی حرج نہیں، یہ بیع علی بیع اخیہ میں شامل نہ ہوگی، یا پہلا بائع یا مشتری چھوڑ کر چلا جائے تو بھی بیع کرنا درست ہے، ورنہ حرام ہے، بعض لوگوں نے اس کو مسلمان کے ساتھ خاص رکھا ہے جو مناسب نہیں ہے، جمہور کے نزدیک کوئی مسلمان کسی بھی آدمی کی بیع پر بیع نہ کرے۔ (2) دوسرا مسئلہ «تلقى الركبان» یا «تلقى الجلب» کا ہے جس کی تشریح اوپر گذر چکی ہے، یعنی دیہات سے ساز و سامان لانے والوں سے سامان خریدنا، ملنا اور یہ بھی ممنوع اور ناجائز ہے، جب وہ منڈی میں آ جائیں تب ہی ان سے سامان خریدا جائے تاکہ بازار کے بھاؤ انہیں معلوم ہو جائیں۔ (3) تیسرا مسئلہ نجش کا ہے، اور وہ یہ ہے کہ سامان خریدنے کی نیت نہ ہو لیکن دام بڑھانے کی غرض سے اصل خریدار سے بڑھ کر بولی لگائیں اور بھاؤ تاؤ کریں، اس طرح محض بھاؤ بگاڑنے کے لئے بولی چڑھانا سخت گناہ ہے اور اپنے بھائی کو نقصان پہنچانا ہے، اور اس طرح دلالی کرنا حرام ہے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، بدکار و فاحشہ عورت کی اجرت و کمائی، اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: کاہن کی شیرینی سے مراد وہ اجرت ہے جو وہ غیب کی باتیں بتا کر لیتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2610]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2237]، [مسلم 1567]، [أبوداؤد 3428]، [ترمذي 1133]، [نسائي 4303]، [ابن ماجه 2159]، [ابن حبان 5157]، [الحميدي 455]
وضاحت: (تشریح حدیث 2603) اس حدیث میں «مَهْرِ الْبَغِيِّ» سے مراد وہ کمائی ہے جو زنا کاری کے عوض زانیہ عورت حاصل کرتی ہے، اسے مجازاً مہر کہا گیا۔ کاہن اس کو کہتے ہیں جو مخفی اور پوشیدہ رازوں کے جاننے اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کے متعلق پیشین گوئی کرنے کا دعویدار ہو، اور عراف، نجومی وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ «حُلْوَانِ الْكَاهِنِ» سے مراد وہ معاوضہ اور اجرت ہے جو کاہن کو اس کے عملِ کہانت کے بدلے میں دی جاتی ہے، یہ حلاوت کے لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی شیرینی و مٹھاس کے ہیں جو بلا مشقت نجومی و کاہن کو حاصل ہو جاتی ہے، اور «الْكَلْبِ» میں الف لام تعریف کا ہے جو جنسِ کلاب پر دلالت کرتا ہے، یعنی کسی بھی کتے کی قیمت دینا اور لینا جائز نہیں، خواہ وہ کتا شکار کے لئے ہو یا رکھوالی کے لئے۔ مذکورہ بالا تینوں چیز اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ناجائز ہیں، بلکہ کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی اجرت لینا اور دینا سب ہی حرام ہیں، کیونکہ کتا بذاتِ خود نجس ہونے کی بنا پرحرام ہے لہٰذا حرام چیز کی قیمت لینا بھی حرام، زنا بھی اسلام میں قطعی حرام، لہٰذا اس کی کمائی بھی حرام، پیشۂ کہانت حرام ہے تو اس کی اجرت بھی حرام ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک شکاری اور فائدے مند کتے کی بیع درست ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن عائشة، قالت: لما نزلت الآية في آخر سورة البقرة في الربا،"خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فتلاهن على الناس، ثم حرم التجارة في الخمر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتِ الْآيَةُ فِي آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا،"خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَاهُنَّ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ حَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب سورہ بقرہ کے آخر میں ”سود“ کی آیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور اس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پڑھ کر سنایا۔ پھر شراب کی تجارت کو حرام کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2611]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 459، 2226]، [مسلم 1850]، [أبوداؤد 3490]، [نسائي 4679]، [ابن ماجه 3382]، [أبويعلی 4467]
وضاحت: (تشریح حدیث 2604) «خمر»(شراب) کی تعریف، اس کا حکم اور حد کا بیان کتاب الاشربہ اور کتاب الحدود میں گذر چکا ہے، یہاں اس باب میں شراب کی تجارت کا بیان ہے، جب شراب حرام ہے تو اس کی تجارت بھی حرام ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات میں: « ﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ .....﴾[البقرة: 275-280] » اس کا ذکر ہے، یعنی تجارت و سوداگری حلال ہے لیکن سودی لین دین اور حرام چیز کی تجارت جیسے شراب و خنزیر وغیرہ حرام ہے، اور شراب کی حرمت کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے جو بہت پہلے نازل ہوئی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر عمر میں ربا کی آیات کا ذکر کرتے ہوئے پھر شراب کی حرمت کو دہرایا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي الضحى، عن مسروق، عن عائشة، قالت: لما نزلت الآيات من اواخر سورة البقرة،"خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقتراهن على الناس، ثم نهى عن التجارة في الخمر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتِ الْآيَاتُ مِنْ أَوَاخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ،"خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْتَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ نَهَى عَنِ التِّجَارَةِ فِي الْخَمْرِ".
اس سند سے بھی مثلِ سابق مروی ہے۔ ترجمہ او پر گذر چکا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2612]» اس حدیث کی تخریج او پرگذر چکی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر سابقه