(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زكريا، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "الحلال بين والحرام بين، وبينهما متشابهات، لا يعلمها كثير من الناس فمن اتقى الشبهات، استبرا لعرضه ودينه، ومن وقع في الشبهات، وقع في الحرام، كالراعي يرعى حول الحمى فيوشك ان يواقعه، وإن لكل ملك حمى، الا وإن حمى الله محارمه، الا وإن في الجسد مضغة، إذا صلحت، صلح الجسد كله، وإذا فسدت، فسد الجسد كله، الا وهي القلب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُتَشَابِهَاتٌ، لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ، اسْتَبْرَأَ لِعِرْضِهِ وَدِينِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ، وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى فَيُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں (اس کی حلت و حرمت سے سب لوگ واقف نہیں) ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے (حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی مشتبہ چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا، اور جو کوئی مشتبہ کام میں پڑا وہ حرام میں پڑ جائے گا، اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو (شاہی محفوظ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے تو قریب ہے کہ کبھی وہ اس چراگاہ کے اندر گھس جائے (اور شاہی مجرم قرار پائے) سنو، ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے، اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں (پس ان سے بچو) سن لو، بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوگا سارا بدن درست ہوگا، اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا (آدمی) کا دل ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2573]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 52]، [مسلم 1599]، [أبوداؤد 3329]، [ترمذي 1205]، [نسائي 4465]، [ابن ماجه 3984]، [ابن حبان 721]، [الحميدي 943]
وضاحت: (تشریح حدیث 2566) اس حدیث کی عظمت پر علماء کا اتفاق ہے، اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدار ہے، دین سے متعلق ارشاداتِ نبوی کے یہ چند کلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں، شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو، فضولیات سے بچو، اور نیّت کے مطابق عمل کرو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے اعمال میں سے ہے، اور معلوم ہوا کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے، اسی کے ہاتھ میں عمل ارادے کی لگام ہے۔ جب تک قلب صحیح، جسم صحیح، دل بیمار ہوا تو سارا جسم ہی بیمار ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حلال اور حرام تو واضح ہیں لیکن کچھ امور کچھ لوگوں پر مشتبہ ہو سکتے ہیں، اس لئے ان مشتبہ امور سے بچنا لازم ہے، اللہ نہ کرے کہ کوئی چوک کر ان مشتبہ امور کے ذریعہ حرام میں پڑ جائے۔ اس کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی بہترین مثال چراگاہ سے دی۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: « ﴿الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ .....﴾[آل عمران: 7] »”جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کی تلاش میں رہتے ہیں .....۔ “ اس حدیث میں خرید و فروخت اور تجارت کرنے والوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیار کریں جو واضح طور پر حلال ہوں، اور مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں، یہی اس حدیث کا محل الشاہد ہے۔ والله اعلم۔
ابوحوراء سعدی نے کہا: میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پو چھا: آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز یاد ہے؟ فرمایا: ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا جو مجھے معلوم نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ”چھوڑ دے اس چیز کو جس میں شبہ ہے اس چیز کی طرف جس میں شبہ نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2574]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2518]، [نسائي 5747]، [أبويعلی 6762]، [ابن حبان 722]، [موارد الظمآن 512]۔ ابوالجوزاء يا ابوالحوراء کا نام ربيعہ بن شیبان ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2567) یعنی جس طرح محرمات کو چھوڑ دیا جن میں شک و شبہ نہیں ایسے ہی شبہ والی چیز کو چھوڑ دے، اور شک کو چھوڑ کر وہ کر جس میں شک و شبہ نہ ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن الزبير ابي عبد السلام، عن ايوب بن عبد الله بن مكرز الفهري، عن وابصة بن معبد الاسدي: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لوابصة:"جئت تسال عن البر والإثم؟". قال: قلت: نعم. قال: فجمع اصابعه فضرب بها صدره، وقال: "استفت نفسك. استفت قلبك يا وابصة ثلاثا البر ما اطمانت إليه النفس واطمان إليه القلب، والإثم ما حاك في النفس وتردد في الصدر، وإن افتاك الناس وافتوك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ أَبِي عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مِكْرَزٍ الْفِهْرِيِّ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْأَسَدِيِّ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِوَابِصَةَ:"جِئْتَ تَسْأَلُ عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ؟". قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَجَمَعَ أَصَابِعَهُ فَضَرَبَ بِهَا صَدْرَهُ، وَقَالَ: "اسْتَفْتِ نَفْسَكَ. اسْتَفْتِ قَلْبَكَ يَا وَابِصَةُ ثَلَاثًا الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَاطْمَأَنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ، وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ".
سیدنا وابصہ بن معبد اسدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وابصہ سے فرمایا: ”تم نیکی و بدی کی بابت پوچھنے آئے ہو؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں جمع کر کے (مٹھی باندھ کر) ان کے سینے پر ماری اور فرمایا: ”اپنے نفس اور اپنے دل سے پوچھو، نیکی وہ ہے جس پر نفس مطمئن ہو اور دل میں کوئی کھٹک نہ ہو، اور گناہ وہ ہے جو نفس میں کھٹکے اور دل میں وہ متردد ہو، گرچہ لوگ تمہیں (اس کے جواز کا) فتویٰ دے دیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه. الزبير أبو عبد السلام لم يسمع من أيوب، [مكتبه الشامله نمبر: 2575]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے لیکن حدیث بشواہد صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2553]، [أحمد 228/4]، [أبويعلی 1586]، [مجمع الزوائد 824-825]۔ مسلم شریف میں صرف اثم کی تعریف مذکور ہے «والإثم ما حاك... الخ» ۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2568) اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ نیکی وہ ہے جس پر دل مطمئن ہو، اور کسی کا ڈر یا خوف اس کے کرنے میں نہ ہو، اسی طرح گناه و برائی یہ ہے کہ اس کے کرنے میں دل میں کھٹک پیدا ہو۔ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ انسانی فطرت اگر برے ماحول اور صحبتِ بد کی وجہ سے مسخ نہ ہوگئی ہو تو انسان کی صحیح بات کی طرف رہنمائی کرتی اور برائیوں سے روکتی ہے۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور نبیٔ صادق ہونے کی دلیل ہے کہ سوال سے پہلے ہی سمجھ لیا کہ کیا پوچھنا چاہتے ہیں، نیز یہ کہ انسان کا دل سب سے بڑا مفتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کو ایمان کے نور سے منور رکھے تاکہ وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا رہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه. الزبير أبو عبد السلام لم يسمع من أيوب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، اخبرنا علي بن زيد، عن ابي حرة الرقاشي، عن عمه، قال: كنت آخذا بزمام ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم في اوسط ايام التشريق اذود الناس عنه، فقال: "الا إن كل ربا في الجاهلية موضوع، الا وإن الله قد قضى ان اول ربا يوضع ربا عباس بن عبد المطلب، لكم رءوس اموالكم لا تظلمون ولا تظلمون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي حُرَّةَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: كُنْتُ آخِذًا بِزِمَامِ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَوْسَطِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ أَذُودُ النَّاسَ عَنْهُ، فَقَالَ: "أَلَا إِنَّ كُلَّ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، أَلَا وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ قَضَى أَنَّ أَوَّلَ رِبًا يُوضَعُ رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ".
ابوحرة رقاشی نے اپنے چچا سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں: میں ایامِ تشریق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہٹا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”سنو لوگو! جاہلیت کا ہر قسم کا سود لغو اور معاف ہے۔ سنو! بیشک الله تعالیٰ نے فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ پہلا سود عباس بن عبدالمطلب کا معاف کیا جاتا ہے۔ تمہارے لئے تمہارے اصل مال ہیں (یعنی اصل مال لے لو) نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2576]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن صحیح شواہد کے پیشِ نظر حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3334]، [ترمذي 3087]، [ابن ماجه 3055]، [أبويعلی 1569]، [مجمع الزوائد 5692، 6660]
وضاحت: (تشریح حدیث 2569) زمانۂ جاہلیت میں سود کا لین دین کیا جاتا تھا جس کو الله تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حرام قرار دے دیا۔ انسان اگر کسی کو قرض دے تو اپنا اصل مال اس سے واپس لے، اس کے ساتھ سود نہ لے کیوں کہ سود حرام ہے۔ اس کی تفصیل آگے احادیث میں آ رہی ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾[البقرة: 278] »”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ “ اور یہ آخری آیات میں سے ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں نازل ہوئی۔ اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً﴾[آل عمران: 130] »”اے مومنو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ۔ “
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح أبو قيس هو: عبد الرحمن بن مروان، [مكتبه الشامله نمبر: 2577]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1597]، [أبوداؤد 3333]، [ترمذي 1206]، [ابن ماجه 2277]، [أبويعلی 4981]۔ ابوقیس کا نام عبدالرحمٰن بن مروان ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2570) ربا اردو زبان میں سود کو کہتے ہیں، یعنی اصل مال سے زیادہ لینا جو معروف و مشہور ہے، اور «آكِلَ الرِّبَا» میں سود لینے اور دینے والا دونوں شامل ہیں۔ یہاں «آكِلَ الرِّبَا» سے مراد سودخور اور «مُؤْكِلَهُ» سے مراد سود دینے والا ہے۔ اس حدیث سے سود لینے اور دینے کی حرمت ثابت ہوئی جس پر تمام علماء کا اجماع ہے، اور یہ نصِ قرآنی سے حرام ہے جس کا ذکر پچھلی حدیث کی شرح میں کیا جا چکا ہے۔ یہ ایسی لعنت ہے جس میں دنیا بھر کے بہت سے لوگ گرفتار اور مبتلا ہیں، اس لعنت سے بچنے اور چھٹکارا پانے کے لئے ہر مسلمان کو کوشش اور دعا کرنی چاہے، الله تعالیٰ ہم کو اس سے محفوظ رکھے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح أبو قيس هو: عبد الرحمن بن مروان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے مال کہاں سے حاصل کیا ہے؟ حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وابن أبي ذئب هو: محمد بن عبد الرحمن، [مكتبه الشامله نمبر: 2578]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2083]، [نسائي 4466]، [ابن حبان 6726]، [دلائل النبوة للبيهقي 264/6]، [شرح السنة 2032]
وضاحت: (تشریح حدیث 2571) یعنی انسان کو ہر طرح سے پیسہ جوڑنے کی فکر ہوگی کہ کہیں سے بھی مل جائے، اور کسی طرح بھی ملے، خواہ شرعاً وہ جائز ہو یا ناجائز۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جو سود نہ کھائے گا اس پر بھی سود کا غبار پڑ جائے گا۔ آج کے دور میں یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہو رہی ہے، اور یہ بلا عام ہوگئی ہے۔ بینک کے معاملات کے بنا چارہ نہیں، سود نہ بھی لیں تو غبار تو پہنچ رہا ہے۔ العیاذ باللہ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وابن أبي ذئب هو: محمد بن عبد الرحمن
(حديث مرفوع) اخبرنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن عمارة بن عمير، عن عمته، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن احق ما ياكل الرجل من اطيب كسبه، وإن ولده من اطيب كسبه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَمَّتِهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَحَقَّ مَا يَأْكُلُ الرَّجُلُ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِهِ، وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِهِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بہتر تو یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور آدمی کی اولاد اس کی بہترین کمائی ہے۔“ (ابن ماجہ میں ہے سو تم ان کے مال سے کھاؤ۔)
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2579]» اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3528]، [ترمذي 1358]، [نسائي 4461]، [ابن ماجه 2290]، [ابن حبان 4259]، [موارد الظمآن 1091]
وضاحت: (تشریح حدیث 2572) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کے مال میں ضرورت کے مطابق تصرف کر سکتا ہے، اگر ماں باپ بیٹے کا مال اڑا بھی دیں تو بھی بیٹے کو لازم ہے کہ ماں باپ سے مقابلہ نہ کرے، اور نہ ان سے سخت کلامی کرے۔ اس وقت کو یاد کرے جب ماں باپ نے محبت سے پالا پوسا، پیشاب پائخانہ دھویا، کھلایا پلایا، لکھایا پڑھایا۔ یہ سب احسانات ایسے ہیں کہ اگر ماں باپ کے کام میں بیٹے کا چمڑہ بھی آئے تو ان کا احسان ادا نہ ہو سکے، اور یہ سمجھ لے کہ ماں باپ ہی کی رضا مندی پر اس کی نجات منحصر ہے۔ اگر ماں باپ ناراض ہوئے تو دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی، تجربہ سے معلوم ہوا کہ جن لڑکوں نے ماں باپ کو راضی رکھا ان کو بڑی برکت حاصل ہوئی، اور انہوں نے چین سے زندگی بسر کی، اور جنہوں نے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کی وہ ہمیشہ دنیا میں جلتے اور کڑھتے ہی رہے۔ اگر ماں باپ بیٹے کا روپیہ اڑا دیں تو کمالِ خوشی کرنا چاہیے کہ ہماری یہ قسمت کہاں تھی کہ ہمارا روپیہ ماں باپ کے کام آوے، یا روپیہ اپنے موقع پر صرف ہو، اور ماں باپ سے یوں کہنا چاہیے کہ روپیہ تو کیا میرا بدن، میری جان بھی آپ ہی کی ہے، آپ اگر چاہیں تو مجھ کو بھی بازار میں بیچ لیں، میں آپ کا غلام ہوں، یہی سعادت مندی اور راہِ نجات ہے، اور فلاح و کامرانی ہے۔ (وحیدی)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عبد الله هو: ابن عثمان بن خثيم عن إسماعيل بن رفاعة، عن ابيه، عن جده، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى البقيع، فقال:"يا معشر التجار!"حتى إذا اشرابوا. قال: "التجار يحشرون يوم القيامة فجارا، إلا من اتقى الله، وبر، وصدق". قال ابو محمد: كان ابو نعيم، يقول: عبيد الله بن رفاعة، وإنما هو: إسماعيل بن عبيد بن رفاعة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ: ابْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبَقِيعِ، فَقَالَ:"يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ!"حَتَّى إِذَا اشْرَأَبُّوا. قَالَ: "التُّجَّارُ يُحْشَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا، إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ، وَبَرَّ، وَصَدَقَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: كَانَ أَبُو نُعَيْمٍ، يَقُولُ: عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ رِفَاعَةَ، وَإِنَّمَا هُوَ: إِسْمَاعِيل بْنُ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ.
اسماعیل بن عبيد بن رفاعہ نے اپنے والد سے انہوں نے ان کے دادا (رفاعہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی طرف تشریف لے گئے، فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت!“، جب وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجار قیامت کے دن فجار کی صورت میں لائے جائیں گے سوائے اس تاجر کے جو الله تعالیٰ سے ڈرا، نیکی اور سچائی اختیار کی۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابونعیم کہتے تھے: عبیداللہ بن رفاعہ حالانکہ وہ اسماعیل بن عبید بن رفاعہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2580]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 4910]، [طبراني 44/5، 4540]، [تهذيب الآثار مسند على 93]، [شعب الايمان للبيهقي 4849]
وضاحت: (تشریح حدیث 2573) اس حدیث میں ایسے تاجروں کے لئے وعیدِ شدید ہے جو ہر حلال و حرام طریقے سے جھوٹ سچ بول کر اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کا حشر فساق و فجار اور گنہگاروں کے ساتھ ہوگا، اور جو تقویٰ و پرہیزگاری، ایمان داری و سچائی سے تجارت کرے وہ قیامت کے دن اچھے لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ یہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے تین نہایت زرین بنیادی اصول بیان کئے ہیں، اور وہ ہے: پرہیز گاری، سچائی، اور امانت داری، جو بھی ان اصولوں کو اپنائے گا اس کی تجارت میں دوسروں کو اعتماد، بھروسہ اور اطمینان ہوگا، اور دن دونی رات چوگنی برکتیں نازل ہوں گی۔ بھوپال میں ایک بزرگ کو دیکھا جو مونگ پھلی کا بڑا سا تھیلا لٹکائے بازار سے نکلتے اور آواز لگاتے: ٹھنڈی مونگ پھلی نہ ہاتھ جلائے نہ منہ، کوئی کوئی خراب بھی نکل جائے۔ یقین جانئے سچی بات پر لوگ خوب خوب ان سے مونگ پھلی خریدتے اور بہت جلدی ان کا تھیلا خالی ہو جایا کرتا تھا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا قبيصة، اخبرنا سفيان، عن ابي حمزة، عن الحسن، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "التاجر الصدوق الامين مع النبيين والصديقين والشهداء". قال عبد الله: لا علم لي به إن الحسن سمع من ابي سعيد، وقال: ابو حمزة هذا، هو صاحب إبراهيم، وهو: ميمون الاعور.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا عِلْمَ لِي بِهِ إِنَّ الْحَسَنَ سَمِعَ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَقَالَ: أَبُو حَمْزَةَ هَذَا، هُوَ صَاحِبُ إِبْرَاهِيمَ، وَهُوَ: مَيْمُونٌ الْأَعْوَرُ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچا، امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین (سچے لوگ) اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں کہ حسن نے یہ حدیث سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے سنی یا نہیں، اور فرمایا کہ سند میں جو ابوحمزہ ہیں وہ ابراہیم کے شاگرد میمون الاعور ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه؛ الحسن لم يسمع أبا سعيد الخدري. وأبو حمزة هو: عبد الله بن جابر، [مكتبه الشامله نمبر: 2581]» اس روایت کی سند حسن اور سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 1209]، [ابن ماجه 2139]، [شرح السنة للبغوي 2025]، [دارقطني 7/3]، [الحاكم 6/2] و [الطبراني فى الأوسط 7390]
وضاحت: (تشریح حدیث 2574) تجارت کے ساتھ سچائی و امانت داری بہت مشکل ہے اگر تاجر اور سوداگر جھوٹ بولتے ہیں، تو جو تاجر سچا، امانت دار، متقی اور پرہیزگار ہوگا اس کو انبیاء، صدیقین و شہداء کی مصاحبت ملے گی، اور وہ آخرت میں بلند پایہ لوگوں کے ساتھ ہوں گے، اور جو جھوٹے، فریبی، دھوکے باز ہوں گے ان کا حشر فساق و فجار کے ساتھ ہوگا۔ «كما مر آنفا.»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه؛ الحسن لم يسمع أبا سعيد الخدري. وأبو حمزة هو: عبد الله بن جابر
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد، حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن جرير بن عبد الله، قال:"بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:"بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھنے، زکاة دینے، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2582]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 57]، [مسلم 56]، [أبويعلی 7503]، [ابن حبان 4545]، [الحميدي 813]
وضاحت: (تشریح حدیث 2575) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھنا، اور صاحبِ نصاب ہونے پر زکاة دینا، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنا، ہر مسلمان کے واجبات میں سے ہے، خصوصاً بيع و شراء کے معاملے میں خرید و فروخت کے وقت اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ خیر خواہی کا ثبوت دینا چاہیے، دھوکے اور فریب سے ناجائز تجارت نہیں کرنی چاہیے۔ اس حدیث کو کتاب البیوع میں ذکر کرنے کا یہی مقصد ہے۔ اس سے امام دارمی رحمہ اللہ کی بصیرت اور فہمِ فقہ پر روشنی پڑتی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه