(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن الزبير ابي عبد السلام، عن ايوب بن عبد الله بن مكرز الفهري، عن وابصة بن معبد الاسدي: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لوابصة:"جئت تسال عن البر والإثم؟". قال: قلت: نعم. قال: فجمع اصابعه فضرب بها صدره، وقال: "استفت نفسك. استفت قلبك يا وابصة ثلاثا البر ما اطمانت إليه النفس واطمان إليه القلب، والإثم ما حاك في النفس وتردد في الصدر، وإن افتاك الناس وافتوك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ أَبِي عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مِكْرَزٍ الْفِهْرِيِّ، عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْأَسَدِيِّ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِوَابِصَةَ:"جِئْتَ تَسْأَلُ عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ؟". قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فَجَمَعَ أَصَابِعَهُ فَضَرَبَ بِهَا صَدْرَهُ، وَقَالَ: "اسْتَفْتِ نَفْسَكَ. اسْتَفْتِ قَلْبَكَ يَا وَابِصَةُ ثَلَاثًا الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَاطْمَأَنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ، وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ".
سیدنا وابصہ بن معبد اسدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وابصہ سے فرمایا: ”تم نیکی و بدی کی بابت پوچھنے آئے ہو؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں جمع کر کے (مٹھی باندھ کر) ان کے سینے پر ماری اور فرمایا: ”اپنے نفس اور اپنے دل سے پوچھو، نیکی وہ ہے جس پر نفس مطمئن ہو اور دل میں کوئی کھٹک نہ ہو، اور گناہ وہ ہے جو نفس میں کھٹکے اور دل میں وہ متردد ہو، گرچہ لوگ تمہیں (اس کے جواز کا) فتویٰ دے دیں۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2568) اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ نیکی وہ ہے جس پر دل مطمئن ہو، اور کسی کا ڈر یا خوف اس کے کرنے میں نہ ہو، اسی طرح گناه و برائی یہ ہے کہ اس کے کرنے میں دل میں کھٹک پیدا ہو۔ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ انسانی فطرت اگر برے ماحول اور صحبتِ بد کی وجہ سے مسخ نہ ہوگئی ہو تو انسان کی صحیح بات کی طرف رہنمائی کرتی اور برائیوں سے روکتی ہے۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور نبیٔ صادق ہونے کی دلیل ہے کہ سوال سے پہلے ہی سمجھ لیا کہ کیا پوچھنا چاہتے ہیں، نیز یہ کہ انسان کا دل سب سے بڑا مفتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کو ایمان کے نور سے منور رکھے تاکہ وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا رہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه. الزبير أبو عبد السلام لم يسمع من أيوب، [مكتبه الشامله نمبر: 2575]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے لیکن حدیث بشواہد صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2553]، [أحمد 228/4]، [أبويعلی 1586]، [مجمع الزوائد 824-825]۔ مسلم شریف میں صرف اثم کی تعریف مذکور ہے «والإثم ما حاك... الخ» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه. الزبير أبو عبد السلام لم يسمع من أيوب