(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن سليمان بن موسى، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "ايما امراة نكحت بغير إذن وليها، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فإن اشتجروا، قال ابو عاصم، وقال مرة: فإن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي له، فإن اصابها، فلها المهر بما استحل من فرجها". قال ابو عاصم: املاه علي سنة ست واربعين ومائة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ نُكِحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ اشْتَجَرُوا، قَالَ أَبُو عَاصِمٍ، وَقَالَ مَرَّةً: فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ، فَإِنْ أَصَابَهَا، فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا". قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: أَمْلَاهُ عَلَيَّ سَنَةَ سِتٍّ وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةٍ.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، پھر اگر ولی لڑ پڑیں (ایک کہے فلاں سے نکاح کرو دوسرا کہے فلاں سے) تو بادشاہ اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو، پس اگر مرد نے ایسی (بنا ولی کی اجازت والی) عورت سے جماع کیا تو اس کے لئے مہر ہے (یعنی اس کو مہر دینا ہو گا) یہ اس کے بدلے میں کہ اس مرد نے عورت کی شرم گاہ کو حلال کر لیا“، ابوعاصم نے کہا: مجھے یہ حدیث سن 146 ہجری میں املا کرائی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2230]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2083]، [ترمذي 1102]، [ابن ماجه 1879]، [أبويعلی 2507]، [ابن حبان 4075]، [موارد الظمآن 1248]، [الحميدي 230]
وضاحت: (تشریح احادیث 2218 سے 2221) ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، اس حدیث کو تیس کے قریب صحابہ نے روایت کیا ہے جس کے بعض طرق صحیح اور بعض کے ضعیف ہیں، جمہور علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ سول میرج وغیرہ سب اس میں داخل ہیں (یعنی ایسا نکاح صحیح نہیں) اور ولی سے مراد باپ ہے، باپ کی غیر موجودگی میں دادا، پھر بھائی، پھر چچا ہے یا عصبہ میں سے جو سببی طور پر سب سے قریب ہو، اس کے بعد سببی رشتے دار، پھر اس کے عصبی رشتے دار، ذوی الارحام اولیا نہیں بن سکتے۔ اگر کسی کے دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کو ہوگی، اگر کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو حدیث میں صاف وارد ہے کہ سربراہِ مملکت اس کا ولی ہے، اور اگر دونوں ولی برابر حیثیت کے ہوں اور ان میں اختلاف ہو جائے تو ایسی صورت میں حاکمِ وقت ولی ہوگا۔ اسی طرح جب اولیاء میں شدید اختلاف ہو جائے جو نکاح میں مانع بن جائے تو پھر ایسی صورت میں ان اولیاء کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوگی اور ان کا حقِ ولایت ساقط ہو جائے گا اور یہ استحقاق حاکمِ وقت کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: «فَإِنْ تَشَاجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ.» اور حنفیہ ولی کی شرط کے قائل نہیں، وہ نکاح کو بیع پر قیاس کرتے ہیں اور اس حدیث کی تضعیف و تاویل کرتے ہیں جو درست نہیں، نصِ صریح کے مقابلہ میں قیاس جائز ہی نہیں، نیز تخریجِ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کو ضعیف کہہ کر رد کرنا صحیح نہیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ذوی الارحام نانا، ماموں وغیرہ بھی ولی ہو سکتے ہیں یہ بھی صحیح نہیں۔ حجۃ اللہ البالغہ میں ہے کہ نکاح میں ولی کی شرط اس لئے رکھی گئی کہ عورت اگر اپنا نکاح آپ کر لے تو اس میں ایک طرح کی بے شرمی ہے۔ دوسرے یہ کہ نکاح میں شہرت چاہیے وہ اسی سے ہوگی جبکہ عورت کے ولی حاضر رہیں۔ تیسرے یہ کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے تو احتمال ہے کہ برے آدمی یا غیر کفو کے ساتھ نکاح کر لے جو بعد میں مشکلات کا سبب بنے۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کنواری یتیم لڑکی سے اس کی شادی کے بارے میں پوچھا جائے گا، اگر خاموش رہے تو اس نے گویا اجازت دیدی، اور اگر انکار کر دے تو مجبور نہ کی جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2231]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد: كتاب النكاح، باب فى الاستئمار]، [نسائي 3267]، [أبويعلی 7327]، [ابن حبان 4085]، [موارد الظمآن 1238]
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، حدثني يحيى، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تنكح الثيب حتى تستامر، ولا تنكح البكر حتى تستاذن، وإذنها الصموت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَإِذْنُهَا الصُّمُوتُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مثيب عورت کا نکاح اس کے بلا مشورے کے نہ کیا جائے، اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بنا نہ کیا جائے، اور اس کا چپ رہنا اس کی اجازت ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2232]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5136]، [مسلم 1419]، [ترمذي 1107]، [نسائي 3272]، [أبويعلی 6019]، [ابن حبان 4079]، [موارد الظمآن 1239]
وضاحت: (تشریح احادیث 2221 سے 2223) «ثَيْب»: شادی شدہ شوہر دیدہ عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر وفات پا گیا ہو، یا اسے طلاق ہو گئی ہو، ایسی عورت کو ایم بھی کہتے ہیں اور ثیب بھی، اور بکر سے مراد باکره یعنی کنواری لڑکی جس نے اب تک شادی نہ کی ہو۔ اس حدیث میں «تستأمر» اور «تستأذن» کا لفظ وارد ہوا ہے۔ «حَتّٰي تُسْتَأْمَرَ» یعنی ثیب کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ کر لیا جائے، یعنی بالصراحہ اس سے معلوم کیا جائے، اور یہ اجازت و اذن لفظی ہونی چاہیے، اس میں خاموشی ناکافی رہے گی، اسی طرح یتیمہ سے مشورہ کیا جائے گا لیکن باکرہ کی طرح اس کا خاموش رہنا اس کی اجازت مانا جائے گا اور تستأذن کا مطلب بھی اجازت طلب کرنا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «ايم» شوہر دیدہ عورت اپنے (دوبارہ نکاح کے بارے میں) اپنے ولی سے زیادہ اپنے بارے میں حق رکھتی ہے، اور کنواری عورت سے مشورہ کیا جائے گا اس کے نفس (شادی) کے بارے میں، اور اس کا چپ رہنا اس کی اجازت ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2234]» اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1421]، [أبوداؤد 2098، 2100]، [نسائي 3220]، [ابن ماجه 2189]، [ابن حبان 4084]، [الحميدي 527]، [سعيد بن منصور 556]، [الطحاوي شرح معاني الآثار 11/3 و 366/4]
وضاحت: (تشریح احادیث 2223 سے 2225) یعنی ثیبہ عورت کا حجاب کھل جاتا ہے شادی کے بعد، اب اگر دوسری بار اس کی شادی کرنی ہے تو اس سے مشورہ کیا جائے گا اور وہ صراحت سے نکاح کی اجازت دے تو اس کا نکاح کیا جائے گا ورنہ نہیں، ولی بھی اس کو مجبور نہیں کر سکتا، لیکن کنواری لڑکی صراحت سے شرماتی ہے اس لئے اس کا چپ رہنا ہی اس کی اجازت مانی جائے گی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر دیدہ عورت ولی سے زیادہ اپنے معاملے کی مختار ہے، اور کنواری لڑکی سے اس کے نکاح کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور اس کا چپ رہنا ہی اس کا اقرار ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2236]» اس حدیث کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ دیکھئے: رقم: (2225)۔ مزید دیکھئے: [أحمد 274/1]، [شرح معاني الآثار 11/3]
وضاحت: (تشریح احادیث 2225 سے 2227) شادی کی جانے والی لڑکی دو حال سے خالی نہیں: یا کنواری یا ثیبہ، پھر ہر ایک کی دو قسمیں ہیں: جوان بالغہ ہوگی یا نابالغہ، اہلِ حدیث کے نزدیک ہر صورت میں لڑکی کو اختیار ہے چاہے تو قبول کرے یا انکار کر دے، نیز یہ کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اس کا باپ کرا سکتا ہے اور کم سنی میں عورت کا نکاح کر دینا درست ہے، لیکن بلوغت کے بعد اس کو خیار حاصل ہوگا جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کم سنی میں کر دیا تھا۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے اور اسلام نے اس عورت کو جس کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا، اسے پستی سے نکال کر بلندی پر پہنچایا، اس کی اہمیت کو دوبالا کیا، عورت کو شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو دور اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت نہ تھی، سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے تھے نکاح کر دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیده (ثیبہ) سے مشورہ ضرور کیا جائے، اور کنواری سے اس کی رضا حاصل کی جائے، اور ثیبہ کا اس کی رضا و مشورہ کے بغیر نکاح کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ ثیبہ کے بارے میں ولی کا کوئی اختیار نہیں یعنی ولی شوہر دیدہ عورت کو کسی سے نکاح کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔ مزید تفصیل آگے ملاحظہ کیجئے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى بن سعيد، انه سمع القاسم بن محمد: انه سمع عبد الرحمن بن يزيد، ومجمع بن يزيد الانصاريين، حدثاه: ان رجلا منهم من الانصار يدعى خذاما انكح بنتا له فكرهت نكاح ابيها، فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فرد عنها نكاح ابيها"، فنكحت ابا لبابة بن عبد المنذر فذكر يحيى: انه بلغه انها كانت ثيبا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ: أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، وَمُجَمِّعَ بْنَ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّيْنِ، حَدَّثَاهُ: أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ مِنَ الْأَنْصَارِ يُدْعَى خِذَامًا أَنْكَحَ بِنْتًا لَهُ فَكَرِهَتْ نِكَاحَ أَبِيهَا، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَرَدَّ عَنْهَا نِكَاحَ أَبِيهَا"، فَنَكَحَتْ أَبَا لُبَابَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ فَذَكَرَ يَحْيَى: أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّهَا كَانَتْ ثَيِّبًا.
عبدالرحمٰن بن یزید اور مجمع بن یزید دونوں انصاری بھائیوں نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے جن کو خذام کہا جاتا تھا اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا جس کو اس نے پسند نہ کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کا (کرایا ہوا) نکاح فسخ کرا دیا اور اس عورت نے ابولبابہ بن عبدالمنذر سے نکاح کر لیا۔ یحییٰ بن سعید نے کہا: ان کو خبر لگی ہے کہ یہ عورت ثیبہ تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2237]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5138]، [أبوداؤد 2101]، [نسائي 3273]، [ابن ماجه 1873]، [أحمد 328/6]، [سعيد بن منصور 576]
یزید بن جاریہ کے دونوں بیٹوں عبدالرحمٰن و مجمع سے مروی ہے کہ سیدہ خنساء بنت جذام رضی اللہ عنہا کا ان کے باپ نے نکاح کر دیا وہ ثیبہ تھیں اور انہوں نے اس نکاح کو پسند نہ کیا، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح فسخ کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2238]» اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5138]، [أحمد 328/6، وغيرهما]
وضاحت: (تشریح احادیث 2227 سے 2229) ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ باپ اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی نہیں کر سکتا، اور اگر بیٹی کی پسند کے خلاف باپ نکاح کر بھی دے تو لڑکی کی طلب پر وہ نکاح فسخ کرا دیا جائے گا خواہ وہ لڑکی ثیبہ ہو یا باکرہ، اور امام احمد و امام ابوداؤد رحمہما اللہ وغیرہ کی روایات میں ذکر ہے کہ ایک باپ نے اپنی باکرہ لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کر دیا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اختیار دیا، چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھے اور چاہے تو فسخ کرا دے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہی اشارہ دیا ہے لیکن پہلی حدیث میں ثیبہ کا ذکر ہے اس لئے بعض علماء نے کہا صرف ثیبہ کا نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ احادیث میں ثیبہ اور باکرہ دونوں کا ذکر آیا ہے۔ والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا سعيد، عن قتادة، عن الحسن، عن عقبة بن عامر او سمرة بن جندب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "ايما امراة زوجها وليان لها، فهي للاول منهما، وايما رجل باع بيعا من رجلين، فهو للاول منهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَوْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَهَا وَلِيَّانِ لَهَا، فَهِيَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ، فَهُوَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا".
سیدنا عقبہ بن عامر یا سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت کا نکاح دو ولی کر دیں (ایک ایک شخص سے اور دوسرا دوسرے شخص سے) تو وہ عورت اس کو ملے گی جس سے پہلے نکاح ہوا، اور جو شخص ایک چیز دو آدمیوں کے ہاتھ بیچے تو جس کے ہاتھ پہلے بیچی ہے اسی کو ملے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف الحسن لم يسمع من سمرة، [مكتبه الشامله نمبر: 2239]» یہ حدیث سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہو یا سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے دونوں حالتوں میں ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2088]، [ترمذي 1110]، [نسائي 4696]، [ابن ماجه 2190، 2191، مقتصر على الطرف الثاني]، [طبراني 203/7، 6842]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف الحسن لم يسمع من سمرة