یزید بن جاریہ کے دونوں بیٹوں عبدالرحمٰن و مجمع سے مروی ہے کہ سیدہ خنساء بنت جذام رضی اللہ عنہا کا ان کے باپ نے نکاح کر دیا وہ ثیبہ تھیں اور انہوں نے اس نکاح کو پسند نہ کیا، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح فسخ کر دیا۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2227 سے 2229) ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ باپ اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی نہیں کر سکتا، اور اگر بیٹی کی پسند کے خلاف باپ نکاح کر بھی دے تو لڑکی کی طلب پر وہ نکاح فسخ کرا دیا جائے گا خواہ وہ لڑکی ثیبہ ہو یا باکرہ، اور امام احمد و امام ابوداؤد رحمہما اللہ وغیرہ کی روایات میں ذکر ہے کہ ایک باپ نے اپنی باکرہ لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کر دیا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اختیار دیا، چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھے اور چاہے تو فسخ کرا دے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہی اشارہ دیا ہے لیکن پہلی حدیث میں ثیبہ کا ذکر ہے اس لئے بعض علماء نے کہا صرف ثیبہ کا نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ احادیث میں ثیبہ اور باکرہ دونوں کا ذکر آیا ہے۔ والله اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح، [مكتبه الشامله نمبر: 2238]» اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5138]، [أحمد 328/6، وغيرهما]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في النكاح