سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ سچا وہ خواب ہے جو سحر کے وقت دیکھا جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2192]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، اس کو [ترمذي 2275]، [أبويعلی 1357]، اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 6041]
وضاحت: (تشریح حدیث 2182) سحر رات کا آخری چھٹا حصہ ہے جو صبحِ صادق سے پہلے ہوتا ہے، اور یہ وقت نزولِ باری تعالیٰ، نزولِ رحمت و برکات اور عبادت و مناجات کا ہوتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے نیک و صالح بندوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے، اس وقت میں ایسی تاثیر ہے کہ نائمین بھی مستفید ہوتے ہیں اور ان کے خواب سچے ہوتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ بیان کرو خواب کو مگر عالم اور خیر خواہ سے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2193]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2281، وغيره]، ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2183) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنا خواب جاہل، بے وقوف، نادان اور عداوت رکھنے والے سے نہ کہنا چاہیے۔ [ترمذي 2280] میں ہے کہ انسان کا خواب مانند پرندے کے ہے جب تک اس کی تعبیر نہ پوچھے، اور جب کوئی اس خواب کو بیان کر دے تو جیسی تعبیر کی جائے ویسا ہی وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا جب تک خواب بیان نہ کیا جائے وہ واقع نہیں ہوتا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
سیدنا ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خواب ایک پرندے کے پاؤں پر ہے (اور وہیں رہتا ہے) جب تک کہ اس کی تعبیر نہ دی جائے، پھر جہاں تعبیر دی اور وہ واقع ہوا۔“ یعنی جس طرح پرندے کے پاؤں کو حرکت ہوئی اور یہ اس کے پاؤں سے گر جاتی ہے، اسی طرح خواب کی تعبیر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2194]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5020]، [ترمذي 2278]، [ابن ماجه 3914]، [ابن حبان 6049]، [موارد الظمآن 1795]
وضاحت: (تشریح حدیث 2184) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر ایرے غیرے سے خواب کی تعبیر نہیں پوچھنی چاہیے، مبادا وه باعثِ تکلیف بات کہے اور وہ اسی طرح آ پڑے، خواب جیسا کہ گذر چکا ہے اچھے ہمدرد اور تعبیر کا علم رکھنے والے شخص کو ہی بتانا چاہیے جو رای سلیم اور فہمِ مستقیم رکھتا ہو۔ علم تعبیرِ الرؤیا الله تعالیٰ کسی کسی کو عطا فرماتا ہے، نادان دوست سے تعبیر پوچھنے کا ایک واقعہ والد محترم (حفظہ اللہ) نے نقل کیا کہ کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت گر گئے ہیں، تعبیر پوچھی تو کسی نے کہا: بادشاہ سلامت کے سارے عزیز و اقارب فوت ہو جائیں گے، بادشاہ کو غصہ آیا اور اس شخص کوقتل کروا دیا، دوسرے سے تعبیر پوچھی، وہ کچھ چالاک تھا۔ اس نے کہا: آپ لمبی عمر پائیں گے اور سب کے بعد میں وفات پائیں گے۔ بات وہی ہے لیکن اس طرزِ کلام سے بادشاہ خوش ہوا، انعام سے نوازا۔ آگے 2200 پر اس کی مثال آ رہی ہے۔ والله اعلم۔
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا محمد بن المبارك، حدثني الوليد بن مسلم، حدثني ابن جابر، عن خالد بن اللجلاج، وساله مكحول ان يحدثه قال: سمعت عبد الرحمن بن عائش يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "رايت ربي في احسن صورة، قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ فقلت: انت اعلم يا رب، قال: فوضع كفه بين كتفي، فوجدت بردها بين ثديي، فعلمت ما في السموات والارض، وتلا: وكذلك نري إبراهيم ملكوت السموات والارض وليكون من الموقنين سورة الانعام آية 75".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسَلْمِ، حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، وَسَأَلَهُ مَكْحُولٌ أَنْ يُحَدِّثَهُ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَائِشٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "رَأَيْتُ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ فَقُلْتُ: أَنْتَ أَعْلَمُ يَا رَبِّ، قَالَ: فَوَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَتَلَا: وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ سورة الأنعام آية 75".
عبدالرحمٰن بن عائش کہتے ہیں: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں نے اپنے رب کو اچھی سے اچھی صورت میں دیکھا: رب العالمین نے کہا: ملا اعلی (آسمانی فرشتے) کس چیز کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اے میرے رب! تو ہی زیادہ علم والا ہے۔ فرمایا: پس رب نے اپنے ہاتھ کو میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے تک محسوس کی اور مجھے زمین و آسمان کا علم ہو گیا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَكَذَلِكَ نُرِي ....﴾ الخ»[انعام: 75/6]
تخریج الحدیث: «هذا من أحاديث الصفات التي علينا أن نؤمن بها ونجريها على ظاهرها من غير تمثيل أو تشبيه أو تأويل. إسناده صحيح إذا ثبتت صحبة عبد الرحمن بن عائش، [مكتبه الشامله نمبر: 2195]» اس حدیث میں عبدالرحمٰن بن عائش کے بارے میں شدید اختلاف ہے کہ انہیں صحبتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت ملی یا نہیں؟ اس لئے اس کی صحت میں نظر ہے۔ حوالہ دیکھے: [السنة لابن أبى عاصم 388، 467]، [العلل المتناهية لابن الجوزي 11]، [الشريعة للآجري، ص: 433]، [الأسماء و الصفات، ص: 398]، [الحاكم 520/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 2185) اس حدیث کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس سے رب ذوالجلال کا انبیاء کے لئے خواب میں تجلی فرمانا ثابت ہوگا، ہر ایرے غیرے کے لئے نہیں، اور علم سے مراد یہ ہے کہ اس وقت عالمِ ملکوت و عالمِ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس کا علم ہوگیا، یہ نہیں کہ قیامت تک کا علمِ غیب حاصل ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی وہی بات معلوم ہوتی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی و الہام سے بتا دی جاتی تھی، ورنہ اس آیت: « ﴿قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللّٰهُ﴾[النمل: 65] » ترجمہ: ”کہہ دو زمین و آسمان میں کوئی بھی اللہ کے سوا علمِ غیب نہیں جانتا۔ “ کا بطلان لازم آئے گا، اسی طرح: « ﴿وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ﴾[المدثر: 31] » ترجمہ: ”تمہارے رب کے کتنے لشکر ہیں صرف وہی جانتا ہے۔ “ اور « ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ﴾[الأعراف: 188] » ترجمہ: ”اور اگر مجھے علمِ غیب ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا۔ “ وغیرہ آیاتِ کثیرہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلق علمِ غیب کی نفی ہوتی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: هذا من أحاديث الصفات التي علينا أن نؤمن بها ونجريها على ظاهرها من غير تمثيل أو تشبيه أو تأويل. إسناده صحيح إذا ثبتت صحبة عبد الرحمن بن عائش
(حديث مقطوع) اخبرنا نعيم بن حماد، عن عبد بن عبد الرحمن، عن قطبة، عن يوسف، عن ابن سيرين، قال:"من راى ربه في المنام، دخل الجنة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ قُطْبَةَ، عَنْ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ:"مَنْ رَأَى رَبَّهُ فِي الْمَنَامِ، دَخَلَ الْجَنَّةَ".
محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کہا: جو شخص اپنے رب کو خواب میں دیکھے وہ جنت میں جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2196]» یہ ابن سیرین رحمہ اللہ کا قول ہے، حدیث نہیں، اس لئے قابلِ حجت نہیں ہے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے تعبیر الرویا کا علم عطا فرمایا تھا۔ اس قول کو امام دارمی رحمہ اللہ کے علاوہ ابن عدی نے [الكامل 2622/7] میں ذکر کیا ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”میں ایک وقت سو رہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جا رہے ہیں، اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں، کسی کا کرتہ سینے تک ہے اور کسی کا اس سے نیچے تک پہنچا ہے، پھر میرے سامنے عمر بن الخطاب لائے گئے، ان کے بدن پر (جو) کرتا تھا (وہ اتنا لمبا کہ) وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے مراد دین ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2197]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث دوسری سند سے متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 23]، [مسلم 2390]، [ترمذي 2285]، [نسائي 5026]، [أبويعلی 1290]، [ابن حبان 6890]
وضاحت: (تشریح احادیث 2186 سے 2188) اس حدیث سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی، ان دیکھے جانے والوں میں ان کا ایمان سب سے قوی اور پختہ و زیادہ تھا، اور یہ حقیقت ہے کہ ان کے زمانے میں جو ترقی اور شان و شوکت و عروج اسلام کو حاصل ہوا وہ ظاہر و معروف ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگ دین و ایمان کے اعتبار سے مختلف کم و بیش درجات و مراتب میں ہیں اور ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس حدیث میں ایک گہری بلیغ تشبیہ ہے جو دین کو قمیص کے ساتھ دی گئی ہے، قمیص انسان کے جسم کو چھپانے والی ہے، اسی طرح دین اسے (گناہ اور) دوزخ سے چھپا لے گا، اس میں ایمان کی کمی بیشی پر بھی دلیل ہے جیسا کہ قمیص کے ساتھ دین کی تعبیر کا مفہوم ہے، جس طرح قمیص پہننے والے اس کے پہننے میں کم و بیش ہیں اسی طرح دین میں بھی لوگ کم و بیش درجات رکھتے ہیں، اس سے ایمان کی کمی و بیشی ثابت ہوئی۔ صحابہ کرام میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں اس پر اجماع ہے۔ اس حدیث سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے بھی افضل ہیں کیونکہ خواب میں دیکھے جانے والے حضرات میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے۔ (راز رحمہ اللہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو علي الحنفي، حدثنا عبد الله هو ابن عمر، عن نافع: ان ابن عمر، قال: كنت في عهد النبي صلى الله عليه وسلم وما لي مبيت إلا في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اصبح ياتونه فيقصون عليه الرؤيا، قال: فقلت: ما لي لا ارى شيئا؟ فرايت كان الناس يحشرون فيرمى بهم على ارجلهم في ركي فاخذت، فلما دنى إلى البئر، قال رجل: خذوا به ذات اليمين، فلما استيقظت، همتني رؤياي واشفقت منها، فسالت حفصة عنها، فقالت: نعم ما رايت. فقلت لها: سلي النبي صلى الله عليه وسلم، فسالته، فقال: "نعم الرجل عبد الله، لو كان يصلي من الليل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ: أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لِي مَبِيتٌ إِلَّا فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصْبَحَ يَأْتُونَهُ فَيَقُصُّونَ عَلَيْهِ الرُّؤْيَا، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لِي لَا أَرَى شَيْئًا؟ فَرَأَيْتُ كَأَنَّ النَّاسَ يُحْشَرُونَ فَيُرْمَى بِهِمْ عَلَى أَرْجُلِهِمْ فِي رَكِيٍّ فَأُخِذْتُ، فَلَمَّا دَنَى إِلَى الْبِئْرِ، قَالَ رَجُلٌ: خُذُوا بِهِ ذَاتَ الْيَمِينِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظْتُ، هَمَّتْنِي رُؤْيَايَ وَأَشْفَقْتُ مِنْهَا، فَسَأَلْتُ حَفْصَةَ عَنْهَا، فَقَالَتْ: نِعْمَ مَا رَأَيْتَ. فَقُلْتُ لَهَا: سَلِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ، فَقَالَ: "نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ، لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مسجد نبوی میں سوتا تھا کیوں کہ اس وقت میرے پاس رات گزارنے کی جگہ نہ تھی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صبح کو لوگ آتے اور اپنے اپنے خواب آپ سے بیان کرتے، میں نے اپنے دل میں سوچا کیا بات ہے مجھے کچھ خواب میں دکھائی نہیں دیتا؟ چنانچہ میں نے خواب دیکھا کہ لوگوں کو جمع کیا جارہا ہے اور ان کے پیر پکڑ کر کنویں میں ڈالا جارہا ہے، جب میں اس کنویں کے قریب پکڑ کر لایا گیا تو ایک فرشتے نے کہا: ان کو دائیں طرف لے جاؤ (یعنی جہنم کے اس گڈھے سے دور لے جاؤ)، پس جب میں نیند سے بیدار ہوا تو مجھے یہ خواب اہم لگا اور میں اس سے بہت پریشان ہوا اور (اپنی بہن ام المومنین) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے اس کو ذکر کیا تو انہوں نے کہا: تم نے بڑا اچھا خواب دیکھا ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تعبیر پوچھیں، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ بہت خوب اچھا لڑکا ہے، کاش رات میں نماز پڑھتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2198]» اس روایت کی سند حسن لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1122]، [مسلم 2479]، [ابن ماجه 3919]، [ابن حبان 7070]، [مصنف عبدالرزاق 1645]، [البيهقي 501/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 2188) صحیح بخاری میں یہ خواب دوسرے سیاق سے مروی ہے۔ اس حدیث سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ اس خواب کے بعد سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بہت کم سوتے تھے اور زیادہ تر وقت تہجد میں گزارتے تھے، قولِ پیغمبر پر عمل پیرا رہنے کی یہ اعلیٰ مثال ہے۔ اس حدیث سے قیام اللیل کی فضیلت بھی معلوم ہوئی جو باعثِ نجات اور انسان کو سعادتِ دارین و کامرانی سے ہمکنار کرتی ہے۔ «(أسأل اللّٰه التوفيق لذٰلك)» ۔ اس حدیث سے بوقتِ ضرورت جوانوں کا مسجد میں سونا بھی ثابت ہوا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی مذکورہ بالا حدیث کے بعد مروی ہے کہ: میں جب سو جاتا تو صبح صادق سے پہلے بیدار نہ ہوتا۔ نافع نے کہا (پھر اس کے بعد): سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رات بھر نماز پڑھتے رہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2199]» اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن الصلت، حدثنا ابن المبارك، عن يونس، عن الزهري، عن حمزة بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "بينا انا نائم، إذ اتيت بقدح من لبن فشربت منه، حتى إني لارى الري في ظفري او قال: في اظفاري، ثم ناولت فضله عمر"، فقالوا: يا رسول الله، ما اولته؟ قال:"العلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ أُتِيتُ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ، حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ فِي ظُفْرِي أَوْ قَالَ: فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ نَاوَلْتُ فَضْلَهُ عُمَرَ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَوَّلْتَهُ؟ قَالَ:"الْعِلْمَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس وقت کہ میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس ایک دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اس سے خوب دودھ پیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا سیرابی و تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے، پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ (سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) کو دے دیا۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ فرمایا: ”علم اس کی تعبیر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2200]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 82]، [مسلم 2391]، [ترمذي 2284]، [ابن حبان 6878]
وضاحت: (تشریح احادیث 2189 سے 2191) اس حدیث سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمِ خواب و عالم بیداری ہر حال میں علمِ نبوت سے سرفراز کیا، معلوم ہوا دودھ کا خواب میں دیکھنا اور پینا باعثِ برکت ہے، دیکھنے والے کو باذن اللہ علم و حکمت و آگہی نصیب ہوگی۔
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، اخبرنا الوليد، حدثنا ابن جابر، حدثني محمد بن قيس، حدثني بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "اللبن الفطرة، والسفينة نجاة، والجمل حزن، والخضرة الجنة، والمراة خير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قَيْسٍ، حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "اللَّبَنُ الْفِطْرَةُ، وَالسَّفِينَةُ نَجَاةٌ، وَالْجَمَلُ حُزْنٌ، وَالْخُضْرَةُ الْجَنَّةُ، وَالْمَرْأَةُ خَيْرٌ".
محمد بن قیس نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے مجھ سے بیان کیا کہ دودھ کی تعبیر فطرت ہے، کشتی نجات، اور اونٹ حزن و ملال، سبز ہریالی جنت اور عورت خیر کی علامت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2201]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [معجم شيوخ للموصلي 324]، اور یہ بعض صحابہ کی رائے ہے۔