اس سند سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حسب سابق روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1896]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أحمد 46/6، 139]، [ابن ابي شيبه 32/4]، [عبدالرزاق 8961]، [الحاكم 459/1]، [البيهقي 145/5]
وضاحت: (تشریح احادیث 1890 سے 1892) ان احادیث و روایات سے معلوم ہوا کہ طواف، سعی، اور رمی کے دوران ذکر الٰہی میں مشغول رہنا چاہیے، جیسا کہ نماز کے لئے قرآن پاک میں آیا: « ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾[طه: 14] » لہٰذا ان اعمال و ارکانِ حج میں فالتو باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے اور وقتِ ضرورت بات کی جا سکتی ہے جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۔ واللہ اعلم۔
بلال بن حارث نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا حج کا فسخ کرنا صرف ہمارے لئے ہے یا ہمارے بعد آنے والے اور لوگوں کے لئے بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ ہمارے لئے خاص ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قال الإمام أحمد: ((ليس إسناده بالمعروف)). وهو حديث منكر، [مكتبه الشامله نمبر: 1897]» اس روایت کی سند میں کلام ہے۔ دیکھئے: [أحمد 469/3]، [طبراني 1138]، [الحاكم 517/3]، [أبوداؤد 1808]، [نسائي 3790]، [ابن ماجه 2994]
وضاحت: (تشریح حدیث 1892) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فسخِ حج کا حکم قیامت تک لئے ہے، مذکورہ بالا حدیث کو انہوں نے منکر کہا ہے اور یہ صحابیٔ جلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مخالف ہے جس کو تقریباً 11 صحابۂ کرام نے روایت کیا ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ یہ ہمارے لئے خاص ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حج فسخ کر کے پہلے عمرہ کرنا پھر حج کا احرام باندھنا یہ امر خاص مسلمانوں کے لئے ہے کیونکہ مشرکین اشہر الحج میں عمرہ کرنے کو برا جانتے تھے، ائمۂ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک حج کا فسخ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، لہٰذا جو حاجی جس نیّت سے احرام باندھے اسے پورا کرے۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ کا قول راجح ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قال الإمام أحمد: ((ليس إسناده بالمعروف)). وهو حديث منكر
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "هذه عمرة استمتعنا بها، فمن لم يكن معه هدي فليحل الحل كله، فقد دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "هَذِهِ عُمْرَةٌ اسْتَمْتَعْنَا بِهَا، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ الْحِلَّ كُلَّهُ، فَقَدْ دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ جس کا ہم نے فائدہ اٹھایا ہے، جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ حلال ہو جائے (یعنی احرام کھول دے) اس کے لئے ساری چیزیں حلال ہو گئیں، اور عمرہ قیامت تک حج میں داخل ہو گیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1898]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1241]، [أبوداؤد 1790]، [نسائي 2814]، [أحمد 236/1، 341]
وضاحت: (تشریح حدیث 1893) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اشہر الحج میں عمرہ کیا جا سکتا ہے چاہے حج کرنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو، اس حدیث سے مشرکینِ مکہ کا رد ہو گیا جو اشہر الحج میں عمرہ کرنا برا سمجھتے تھے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، حدثنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز، عن ربيع بن سبرة، ان اباه حدثه: انهم ساروا مع النبي صلى الله عليه وسلم حتى بلغوا عسفان، فقال له رجل من بني مدلج يقال له مالك بن سراقة او سراقة بن مالك: اقض لنا قضاء قوم ولدوا اليوم. قال:"إن الله قد ادخل عليكم في حجكم هذا عمرة، فإذا انتم قدمتم فمن تطوف بالبيت وبالصفا والمروة، فقد حل إلا من كان معه هدي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ: أَنَّهُمْ سَارُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغُوا عُسْفَانَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي مُدْلِجٍ يُقَالُ لَهُ مَالِكُ بْنُ سُرَاقَةَ أَوْ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ: اقْضِ لَنَا قَضَاءَ قَوْمٍ وُلِدُوا الْيَوْمَ. قَالَ:"إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدْخَلَ عَلَيْكُمْ فِي حَجِّكُمْ هَذَا عُمْرَةً، فَإِذَا أَنْتُمْ قَدِمْتُمْ فَمَنْ تَطَوَّفَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَقَدْ حَلَّ إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ".
ربیع بن سبرة سے مروی ہے ان کے والد نے بیان کیا کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے یہاں تک کہ مقام عسفان تک پہنچ گئے تو بنی مدلج کے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، جس کا نام مالک بن سراقہ یا سراقہ بن مالک تھا: اے اللہ کے رسول! آج ایسا بیان فرمایئے جیسا ان لوگوں کو سمجھاتے ہیں جو ابھی پیدا ہوئے (یعنی اس طرح کی نصیحت کیجئیے جو ہر نادان سمجھ لے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے تمہارے اس حج میں عمرہ داخل کر دیا ہے، تو تم جب مکہ آؤ اور طواف کعبہ کر لو اور صفا مروہ کی سعی کر لو تو حلال ہو جاؤ گے، سوائے اس شخص کے جو اپنے ساتھ قربانی لایا ہو، وہ حلال نہ ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1899]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1801]، [أحمد 404/3]، [أبويعلی 939]، [ابن حبان 4144]
وضاحت: (تشریح حدیث 1894) اس حدیث سے بھی حج کے مہینے میں عمرہ کرنا ثابت ہوا، اور حجِ تمتع کی فضیلت بھی، نیز یہ کہ جس نے قران کی نیّت کی ہو وہ قربانی کرنے تک حلال نہ ہوگا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا شهاب بن عباد، حدثنا داود بن عبد الرحمن، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم اعتمر اربع عمر: عمرة الحديبية، وعمرة القضاء او قال: عمرة القصاص، شك شهاب بن عباد من قابل، والثالثة من الجعرانة , والرابعة التي مع حجته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ: عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةَ الْقَضَاءِ أَوْ قَالَ: عُمْرَةَ الْقِصَاصِ، شَكَّ شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ مِنْ قَابِلٍ، وَالثَّالِثَةَ مِنْ الْجِعْرَانَةِ , وَالرَّابِعَةَ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے، پہلا عمرة (صلح) حدیبیہ کے وقت کیا، دوسرا اس کے اگلے سال عمرة القضا یا کہا کہ عمرة القصاص کے طور پر کیا، یہ شک شہاب بن عباد کو ہوا، تیسرا عمرہ جعرانۃ سے کیا اور چوتھا عمرہ اپنے حج کے ساتھ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1900]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1993]، [ترمذي 816]، [ابن ماجه 3003]، [ابن حبان 3946]، [الموارد 1018]
وضاحت: (تشریح حدیث 1895) یہ حدیث (1825) نمبر پر گزر چکی ہے، مطلب واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد چار عمرے کئے جو حقیقت میں تین ہی تھے، صلح حدیبیہ میں عمرے کی غرض سے نکلے لیکن معاہدہ ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ نہ کر سکے تھے، اگلے سال صلح و معاہدہ کے مطابق عمرہ کیا جو گویا پہلے عمرے کی قضا تھی، اس لئے عمرة القضا یا عمرة القصاص بدلے کا عمرہ کہا گیا، اور دوسرا عمرہ غزوۂ حنین کے بعد جعرانہ سے کیا تھا، چوتھا حج کے ساتھ۔ والله اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لامراة: "اعتمري في رمضان، فإن عمرة في رمضان تعدل حجة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِامْرَأَةٍ: "اعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ، فَإِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے کہا: ”رمضان میں عمرہ کرو کیونکہ رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1901]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1782]، [مسلم 1256]، [نسائي 2109]، [ابن ماجه 2994]، [ابن حبان 3700]
وضاحت: (تشریح حدیث 1896) یعنی ثواب میں رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے، اور مذکورہ خاتون انصار میں سے تھیں اور اُم سنان یا اُم سلیم ان کا نام تھا۔
سیدہ ام معقل رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد لولا عنعنة ابن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 1902]» اس روایت کی سند میں کلام ہے، لیکن حدیث کا معنی صحیح ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔ حوالہ دیکھئے: [أبوداؤد 1989]، [أحمد 405/6]
وضاحت: (تشریح حدیث 1897) اس حدیث سے رمضان میں عمرے کی فضیلت ثابت ہوئی، جس ماہِ مبارک میں نوافل کا درجہ فرائض کے برابر ہو جاتا ہے اور فرائض کا ستر گنا زیادہ ثواب ہو جاتا ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا۔ “ اس لئے رمضان میں جو بھی نیک کام کیا جائے اس کا بہت بڑا اجر ہے، صدقہ و خیرات اور عمرہ اسی فضیلت میں داخل ہیں۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد لولا عنعنة ابن إسحاق
سیدنا محرش کعبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرے کا ارادہ کیا تو جعرانہ سے نکلے اور مکہ میں رات میں داخل ہوئے، اپنا عمرہ پورا کیا پھر اسی رات میں واپس جعرانہ لوٹ آئے، گویا کہ جعرانہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات گزاری۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1903]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 935]، [نسائي 2863]، [الحميدي 886]، [معجم الصحابة لابن قانع 1052]
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیچھے بٹھا کر لے جاؤں اور انہیں تنعیم سے عمرہ کروا دوں۔ سفیان نے کہا: شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اس طرح کی اسناد پسند کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1904]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1784]، [مسلم 2928]، [ترمذي 934]، [ابن ماجه 2999]، [أحمد 406/6]، [طبراني 367]۔ اور عمرو: ابن دینار ہیں۔
حفصہ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے کہا: ”اپنی بہن یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیچھے بٹھاؤ اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ، جب وہ ٹیلوں سے اتریں تو ان سے کہنا کہ احرام باندھ لیں، بیشک یہ عمرہ قبول ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1905]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1995]، [أحمد 198/1]، [طحاوي 240/2]، [بيهقي 357/4]
وضاحت: (تشریح احادیث 1898 سے 1901) احادیث الباب سے معلوم ہوا کہ مکہ میں مقیم حاجی کو عمرے کے لئے حدودِ حرم سے باہر جانا ہوگا، اور اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے خود عمرہ کیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے حکم فرمایا کہ تنعیم سے احرام باندھ کر آ ئیں اور عمرہ کر لیں، یہ عمره ان شاء اللہ صحیح ہوگا، عمرہ کرنا باعثِ خیر و برکت ہے لیکن آج کل لوگ کثرت سے تنعیم جاجا کر عمرے لاتے ہیں یہ درست نہیں، علمائے کرام نے اس کو مکروہ کہا ہے، دور سے آنے والے حجاج کرام مدینہ سے آتے ہوئے اگر عمرہ کریں تو زیادہ بہتر ہے، یا اگر ایسا موقع نہ ملے تو ایک عمرہ مذکورہ بالا میقات سے کر سکتے ہیں۔ «(واللّٰه أعلم وعلمه أتم)» ۔