بلال بن حارث نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا حج کا فسخ کرنا صرف ہمارے لئے ہے یا ہمارے بعد آنے والے اور لوگوں کے لئے بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ ہمارے لئے خاص ہے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1892) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فسخِ حج کا حکم قیامت تک لئے ہے، مذکورہ بالا حدیث کو انہوں نے منکر کہا ہے اور یہ صحابیٔ جلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مخالف ہے جس کو تقریباً 11 صحابۂ کرام نے روایت کیا ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ یہ ہمارے لئے خاص ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حج فسخ کر کے پہلے عمرہ کرنا پھر حج کا احرام باندھنا یہ امر خاص مسلمانوں کے لئے ہے کیونکہ مشرکین اشہر الحج میں عمرہ کرنے کو برا جانتے تھے، ائمۂ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک حج کا فسخ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، لہٰذا جو حاجی جس نیّت سے احرام باندھے اسے پورا کرے۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ کا قول راجح ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قال الإمام أحمد: ((ليس إسناده بالمعروف)). وهو حديث منكر، [مكتبه الشامله نمبر: 1897]» اس روایت کی سند میں کلام ہے۔ دیکھئے: [أحمد 469/3]، [طبراني 1138]، [الحاكم 517/3]، [أبوداؤد 1808]، [نسائي 3790]، [ابن ماجه 2994]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قال الإمام أحمد: ((ليس إسناده بالمعروف)). وهو حديث منكر
خرج معتمرا فحال كفار قريش بينه وبين البيت فنحر هديه وحلق رأسه بالحديبية وقاضاهم على أن يعتمر العام المقبل ولا يحمل سلاحا عليهم إلا سيوفا ولا يقيم بها إلا ما أحبوا فاعتمر من العام المقبل فدخلها كما كان صالحهم فلما أن أقام بها ثلاثا أمروه أن يخرج فخرج
خرج معتمرا فحال كفار قريش بينه وبين البيت فنحر هديه وحلق رأسه بالحديبية وقاضاهم على أن يعتمر العام المقبل ولا يحمل سلاحا عليهم إلا سيوفا ولا يقيم بها إلا ما أحبوا فاعتمر من العام المقبل فدخلها كما كان صالحهم فلما أقام بها ثلاثا أمروه أن يخرج فخرج
إن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل رسول الله وأنا معه حين حالت كفار قريش بينه وبين البيت أشهدكم أني قد أوجبت عمرة فانطلق حتى أتى ذا الحليفة فلبى بالعمرة ثم قال إن خلي سبيلي قضيت عمرتي وإن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل رسول الله وأنا معه ثم تلا لقد كان لكم في رس