سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صدقہ فطر نکالتے تھے اور پھر اوپر جیسا ذکر کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1706]» اس روایت کی تخریج بھی اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1701 سے 1703) صدقہ الفطر یا زكاة الفطر یا زکاة الصيام وہ صدقہ ہے جو عید الفطر کی نماز سے پہلے ہر مسلمان مرد، عورت، چھوٹے، بڑے، غلام و آزاد کی طرف سے صدقہ کیا جاتا ہے اور یہ ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کا فائدہ شریعت میں یہ بتلایا گیا کہ «طُهْرَهٌ لِلصَّائِمِ طُعْمَةٌ لِلْمَسَاكِيْنَ.» روزے دار کے روزوں میں جو خلل واقع ہوا ہو اس کا کفارہ اور عید کے دن مساکین کے لئے کھانا ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”صاحب مکس جنت میں داخل نہ ہو گا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: صاحب مکس سے مراد عشر لینے والا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 1708]» اس حدیث کی سند میں کلام ہے، ابن اسحاق مدلس ہیں اور عن سے روایت کیا ہے۔ حوالہ دیکھے: [أبوداؤد 2937]، [أبويعلی 1756]، [شرح معاني الآثار 31/2]، [معجم الطبراني 878]، [المقاصد الحسنة 1321]، [أسنى المطالب وقال: صححه ابن خزيمه و الحاكم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1703) اس حدیث میں «مكس» کے معنی ظلم و زیادتی کے ہیں اور صاحبِ مکس سے مراد وہ عامل اور زکاة وصول کرنے والا ہے جو قدرِ واجب سے زیادہ لے، یعنی (مسٹر ٹین پرسنٹ)، زکاة سو روپے واجب ہو لیکن اپنا حصہ ٹیکس لگا کر سو روپے سے زیادہ وصول کرے یہ سراسر ظلم ہے، ایسا کرنے والا جنّت میں داخل نہ ہوگا۔ گرچہ حدیث ضعیف ہے لیکن «اَلظُّلْمُ ظُلُمَاتٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق
(حديث مرفوع) اخبرنا عاصم بن يوسف، حدثنا ابو بكر، عن عاصم، عن ابي وائل، عن مسروق، عن معاذ، قال:"بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فامرني ان آخذ من الثمار ما يسقى بعلا العشر، وما سقي بالسانية، فنصف العشر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ:"بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ الثِّمَارِ مَا يُسْقَى بَعْلًا الْعُشْرَ، وَمَا سُقِيَ بِالسَّانِيَةِ، فَنِصْفَ الْعُشْرِ".
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ میں ان پھلوں میں سے (زكاة كا) عشر (دسواں حصہ) وصول کروں جو زمین کی تری سے پیدا ہوتے ہوں، اور جو اونٹوں سے سینچے جائیں اس میں سے بیسواں حصہ زکاۃ لوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1709]» اس روایت کی سند حسن ہے، اور اصل اس کی صحیحین میں ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1483]، [مسلم 981]، [نسائي 2493]، [ابن ماجه 1818]
وضاحت: (تشریح حدیث 1704) مولانا وحیدالزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: اہلِ حدیث کا مذہب یہ ہے کہ گیہوں، جَو، جوار، کھجور اور انگور میں جب ان کی مقدار پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہو تو زکاة واجب ہے، ان کے سوا دوسری چیزوں میں جیسے ترکاریاں اور میوے وغیرہ میں مطلقاً زکاۃ نہیں خواہ وہ کتنے ہی ہوں۔ قسطلانی نے کہا: میووں میں صرف کھجور اور انگور میں اور اناجوں میں سے ہر ایک اناج میں جو ذخیرہ رکھے جاتے ہیں جیسے گیہوں، جَو، جوار، مسور، ماش، باجرہ، چنا، لوبیا وغیرہ ان سب میں زکاة ہے، اور حنفیہ کے نزدیک پانچ وسق کی قید بھی نہیں ہے، قلیل ہو یا کثیر سب میں زکاة واجب ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لا کر ان کا رد کیا ہے، خلاصۂ کلام یہ کہ مذکورہ اجناس پانچ وسق پورے ہونے پر اگر بارش کے پانی، نہر وغیرہ سے سیرابی ہوئی ہے تو دسواں حصہ زکاة ہے اور کنویں سے، اونٹ یا بیل کے ذریعہ جو پانی کھیتی کو دیا گیا اس میں پانچ وسق پورے ہونے پر نصف العشر یعنی بیسواں حصہ زکوٰة ہے اور یہ دینِ رحمت کا بہت ہی عادلانہ نظام ہے جس میں خیر ہی خیر اور برکت ہی برکت ہے۔
سیدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانور سے جو زخم لگے اس کا کچھ بدلہ نہیں، کنویں میں جو گر جائے وہ بھی معاف، اور کان میں جو فوت ہو جائے اس کا خون بھی معاف، اور دفینے میں پانچواں حصہ (بیت المال کا) ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1710]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1499]، [مسلم 1710]، [أبوداؤد 3085]، [نسائي 2494]، [ابن ماجه 2509]، سنن میں صرف رکاز کا ذکر ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1705) اصح الاقوال میں رکاز وہ پرانا دفینہ ہے جو کسی کو کہیں مل جائے، اور اس میں سے بیت المال میں پانچواں حصہ دیا جائے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانور اگر کسی کو مار دے تو اس کا کوئی بدلہ نہیں، اسی طرح کوئی شخص کنویں میں گر جائے تو اس کا بھی کوئی بدلہ نہیں، اور کان میں کوئی گر کر مر جائے تو اس کا بھی کوئی بدلہ نہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو اليمان الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني عروة بن الزبير، عن ابي حميد الانصاري ثم الساعدي انه اخبره ان النبي صلى الله عليه وسلم استعمل عاملا على الصدقة، فجاءه العامل حين فرغ من عمله، فقال: يا رسول الله، هذا الذي لكم، وهذا اهدي لي. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"فهلا قعدت في بيت ابيك وامك، فنظرت ايهدى لك ام لا؟ ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم عشية بعد الصلاة على المنبر، فتشهد واثنى على الله بما هو اهله، ثم قال:"اما بعد ما بال العامل نستعمله فياتينا فيقول: هذا من عملكم وهذا اهدي لي؟! فهلا قعد في بيت ابيه وامه فينظر هل يهدى له ام لا؟ والذي نفس محمد بيده، لا يغل احدكم منها شيئا، إلا جاء يوم القيامة يحمله على عنقه: إن كان بعيرا، جاء به له رغاء، وإن كانت بقرة، جاء بها لها خوار، وإن كانت شاة، جاء بها تيعر، فقد بلغت". قال ابو حميد: ثم رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه حتى إنا لننظر إلى عفرة إبطيه. قال ابو حميد: وقد سمع ذلك معي من النبي صلى الله عليه وسلم زيد بن ثابت , فسلوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ ثُمَّ السَّاعِدِيّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ عَامِلًا عَلَى الصَّدَقَةِ، فَجَاءَهُ الْعَامِلُ حِينَ فَرَغَ مِنْ عَمَلِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الَّذِي لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَهَلَّا قَعَدْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ، فَنَظَرْتَ أَيُهْدَى لَكَ أَمْ لَا؟ ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً بَعْدَ الصَّلَاةِ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَتَشَهَّدَ وَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَّا بَعْدُ مَا بَالُ الْعَامِلِ نَسْتَعْمِلُهُ فَيَأْتِينَا فَيَقُولُ: هَذَا مِنْ عَمَلِكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي؟! فَهَلَّا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرَ هَلْ يُهْدَى لَهُ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَغُلُّ أَحَدُكُمْ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ: إِنْ كَانَ بَعِيرًا، جَاءَ بِهِ لَهُ رُغَاءٌ، وَإِنْ كَانَتْ بَقَرَةً، جَاءَ بِهَا لَهَا خُوَارٌ، وَإِنْ كَانَتْ شَاةً، جَاءَ بِهَا تَيْعَرُ، فَقَدْ بَلَّغْتُ". قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ حَتَّى إِنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى عُفْرَةِ إِبْطَيْهِ. قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: وَقَدْ سَمِعَ ذَلِكَ مَعِي مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ , فَسَلُوهُ.
سیدنا ابوحمید انصاری ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو زکاة کی وصولی کی زمہ داری سونپی، اپنا کام پورا کر کے جب وہ تحصیلدار واپس آیا تو کہا: اے اللہ کے رسول! یہ جو کچھ ہے آپ کے لئے ہے، اور یہ میرے لئے ہدیہ کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے باپ اور ماں کے گھر میں بیٹھے رہتے اور دیکھتے کہ تمہیں ہدیہ تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟“ پھر شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد منبر پر کھڑے ہوئے، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر اللہ تعالیٰ کے لائق اس کی تعریف کی پھر فرمایا: ”امابعد، اس عامل کو کیا ہوا ہے جس کو ہم وصولی کے لئے عامل بناتے ہیں تو وہ ہمارے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہ آپ کے عمل کا حصہ ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، وہ اپنے باپ اور ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کسی نے اس کام میں خیانت کی تو وہ اسے قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر وہ اونٹ ہو گا تو اسی کو لے کر آئے گا اور وہ آواز نکال رہا ہو گا، اور وہ خیانت اگر گائے کی ہو گی تو اس گائے کو لے کر آئے گا جو اپنی آواز نکالتی ہو گی، اور اگر وہ بکری ہو گی تو اسے لے کر آئے گا اس حال میں کہ وہ ہنہناتی آئے گی، میں نے تبلیغ کر دی (یعنی بات لوگوں تک پہنچا دی)۔“ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم کو آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی، سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا کہ اس (حدیث) کو میرے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی سنا ہے، ان سے پوچھ لو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1711]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7174]، [مسلم 1832]، [أبوداؤد 2946]، [ابن حبان 4515]، [الحميدي 863]
وضاحت: (تشریح حدیث 1706) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عامل یا آفیسر کو جو ہدیہ تحفہ دیا جائے وہ بھی حکومت اور بیت المال کا ہے، اگر اس بات پر عمل ہو تو رشوت کی لعنت ہی ختم ہو جائے، نیز اس حدیث میں خیانت سے بچنے کی تعلیم ہے، چھوٹی بڑی کیسی ہی خیانت ہو قیامت کے دن خائن کے گلے پڑ جائے گی اور وہ اسے اٹھائے پھرے گا جیسی کہ حدیث میں تفصیل ہے۔ اس حدیث میں وقتِ ضرورت خطبہ دینے کا ثبوت بھی ملا، نیز یہ کہ خطبے میں پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پھر نصیحت ہونی چاہئے اور خلافِ شرع امور کی نشاندہی اور عقاب و سزا کا ذکر ہو نا چاہئے تاکہ لوگ اس خلافِ شرع فعل سے بچیں۔ نیز یہ کہ خطبے میں کسی بھی شخصیت کا نام نہیں لینا چاہئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام خطبے اسی طرح کے ہوتے تھے: «مَا بَالَ أَقْوَامٌ، مَا بَالَ فُلَانٌ» اور جیسا کہ اس حدیث میں ہے «مَا بَالَ الْعَامِلِ» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عامل کا نام نہیں لیا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا هشيم، عن داود، ومجالد، عن الشعبي، عن جرير، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا جاءكم المصدق، فلا يصدرن عنكم إلا وهو راض".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ دَاوُدَ، وَمُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا جَاءَكُمْ الْمُصَدِّقُ، فَلَا يَصْدُرَنَّ عَنْكُمْ إِلَّا وَهُوَ رَاضٍ".
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زکاة وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو وہ تمہارے پاس سے راضی و خوش ہو کر لوٹے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة هشيم ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1712]» اس روایت میں ہشیم کا عنعنہ ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 989]، [أبوداؤد 1589]، [نسائي 2453]، [الحميدي 814]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة هشيم ولكن الحديث صحيح
اس سند سے بھی سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے حسب سابق حدیث روایت کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1713]» اس روایت کی سند صحیح اور تخریج اوپر ذکر کی جا چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1707 سے 1709) اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ حاکموں کی اطاعت کرو، ان کو راضی رکھو اور تکلیف نہ پہنچاؤ، کیونکہ اسی میں صلاحِ طرفین ہے۔ دینِ اسلام بڑا عادلانہ و منصفانہ نظام ہے، ایک طرف زکاة و عشر وصول کرنے والوں کو ہدیۃً تحفہ قبول کرنے سے اور اپنے لئے پرسنٹیز لگانے سے منع کیا تو دوسری طرف زکاة دینے والوں کو بھی حکم دیا کہ آفیسران اور ذمہ داران کو زبردستی کرنے پر مجبور نہ کرو اور ہنسی خوشی مسلمانوں کا حق اپنے مال میں سے انہیں دے دو تاکہ وہ بھی راضی خوشی تمہارے پاس سے واپس ہوں۔ «(سُبْحَانَ مَنْ شَرَعَ الْاَحْكَامَ)» ۔
سیدہ حواء رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کے لئے کسی بھی چیز کو ہدیہ دینا حقیر نہ سمجھے، خواہ بکری کا جلا ہوا پایہ ہی کیوں نہ ہو۔ (یا جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو)۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1709) «كراع» چوپائے یا انسان کے ٹخنے سے نیچے کے حصہ کو کہتے ہیں، صحیحین میں «ولو فرسن شاة» کا لفظ آیا ہے۔ یعنی بکری کا کھر۔ پائے پر بہت تھوڑا سا گوشت ہوتا ہے اور بہت کم قیمت کی چیز ہے، لیکن اگر کسی کے پاس یہی چیز ہو تو اس کا صدقہ کرنا حقیر نہ جانے، سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ ہونے دے، اور اگر سائل یا سائلہ مانگنے والی پڑوسن ہو تو اس کا حق بہت زیادہ ہے، اور تحفے تحائف سے محبت بڑھتی ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا ابان بن عبد الله البجلي، حدثنا عثمان بن ابي حازم، عن صخر بن العيلة، قال: اخذت عمة المغيرة بن شعبة، فقدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسال النبي صلى الله عليه وسلم عمته، فقال:"يا صخر، إن القوم إذا اسلموا، احرزوا اموالهم ودماءهم، فادفعها إليهم". وكان ماء لبني سليم، فاسلموا، فسالوه ذلك فدعاني، فقال:"يا صخر، إن القوم إذا اسلموا، احرزوا اموالهم ودماءهم، فادفعها إليهم"فدفعتها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ صَخْرِ بْنِ الْعَيْلَةِ، قَالَ: أُخِذَتْ عَمَّةُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، فَقَدِمَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّتَهُ، فَقَالَ:"يَا صَخْرُ، إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا، أَحْرَزُوا أَمْوَالَهُمْ وَدِمَاءَهُمْ، فَادْفَعْهَا إِلَيْهِمْ". وَكَانَ مَاءٌ لِبَنِي سُلَيْمٍ، فَأَسْلَمُوا، فَسَأَلُوهُ ذَلِكَ فَدَعَانِي، فَقَالَ:"يَا صَخْرُ، إِنَّ الْقَوْمَ إِذَا أَسْلَمُوا، أَحْرَزُوا أَمْوَالَهُمْ وَدِمَاءَهُمْ، فَادْفَعْهَا إِلَيْهِمْ"فَدَفَعْتُهَا.
سیدنا صخر بن عيلۃ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی پھوپھی کو گرفتار کیا اور انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماجرا پوچھا، پھر فرمایا: ”اے صخر! جب کوئی قوم مسلمان ہو جائے تو ان کی جانیں اور مال محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اس لونڈی کو انہیں لوگوں کو واپس کر دو۔“(اسی طرح) بنو سلیم کا پانی تھا اور وہ اسلام لے آئے اور درخواست کی کہ ان کا پانی انہیں کے پاس رہنے دیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: ”اے صخر! جب کوئی قوم مسلمان ہو جائے تو ان کی جانیں اور مال محفوظ ہو جاتے ہیں اس پانی کو نہیں لوٹا دو۔“ چنانچہ میں نے وہ پانی (یعنی پانی کی جگہ کو) واپس کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1715]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3067]، [معجم الطبراني 7279]، [مسند أحمد 301/4، وغيرهم]
اس سند سے بھی سیدنا صخر رضی اللہ عنہ کی حدیث مروی ہے جو ابونعیم کی مذکور بالا حدیث سے زیادہ طویل ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو داود في الخراج والإمارة، [مكتبه الشامله نمبر: 1716]» حوالہ کے لئے دیکھئے: [أبوداؤد 3087]
وضاحت: (تشریح احادیث 1710 سے 1712) امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جو اسلام لے آیا اس کا مال، اس کی جان محفوظ ہو جاتے ہیں۔ صخر نے لونڈی پکڑ لی تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کرا دیا، پانی کی جگہ پر قبضہ کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی واپس کرا دیا، یہ اسلام کی فضیلت اور مسلمان کی حرمت و تعظیم ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أخرجه أبو داود في الخراج والإمارة