سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
زکوٰۃ کے مسائل
31. باب مَا يُهْدَى لِعُمَّالِ الصَّدَقَةِ لِمَنْ هُوَ:
31. زکاۃ وصول کرنے والوں کو جو ہدیہ دیا جائے وہ کسی کے لئے ہے؟
حدیث نمبر: 1707
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو اليمان الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني عروة بن الزبير، عن ابي حميد الانصاري ثم الساعدي انه اخبره ان النبي صلى الله عليه وسلم استعمل عاملا على الصدقة، فجاءه العامل حين فرغ من عمله، فقال: يا رسول الله، هذا الذي لكم، وهذا اهدي لي. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"فهلا قعدت في بيت ابيك وامك، فنظرت ايهدى لك ام لا؟ ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم عشية بعد الصلاة على المنبر، فتشهد واثنى على الله بما هو اهله، ثم قال:"اما بعد ما بال العامل نستعمله فياتينا فيقول: هذا من عملكم وهذا اهدي لي؟! فهلا قعد في بيت ابيه وامه فينظر هل يهدى له ام لا؟ والذي نفس محمد بيده، لا يغل احدكم منها شيئا، إلا جاء يوم القيامة يحمله على عنقه: إن كان بعيرا، جاء به له رغاء، وإن كانت بقرة، جاء بها لها خوار، وإن كانت شاة، جاء بها تيعر، فقد بلغت". قال ابو حميد: ثم رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه حتى إنا لننظر إلى عفرة إبطيه. قال ابو حميد: وقد سمع ذلك معي من النبي صلى الله عليه وسلم زيد بن ثابت , فسلوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ ثُمَّ السَّاعِدِيّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ عَامِلًا عَلَى الصَّدَقَةِ، فَجَاءَهُ الْعَامِلُ حِينَ فَرَغَ مِنْ عَمَلِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الَّذِي لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَهَلَّا قَعَدْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ، فَنَظَرْتَ أَيُهْدَى لَكَ أَمْ لَا؟ ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً بَعْدَ الصَّلَاةِ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَتَشَهَّدَ وَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَّا بَعْدُ مَا بَالُ الْعَامِلِ نَسْتَعْمِلُهُ فَيَأْتِينَا فَيَقُولُ: هَذَا مِنْ عَمَلِكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي؟! فَهَلَّا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَنْظُرَ هَلْ يُهْدَى لَهُ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَغُلُّ أَحَدُكُمْ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ: إِنْ كَانَ بَعِيرًا، جَاءَ بِهِ لَهُ رُغَاءٌ، وَإِنْ كَانَتْ بَقَرَةً، جَاءَ بِهَا لَهَا خُوَارٌ، وَإِنْ كَانَتْ شَاةً، جَاءَ بِهَا تَيْعَرُ، فَقَدْ بَلَّغْتُ". قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ حَتَّى إِنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى عُفْرَةِ إِبْطَيْهِ. قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: وَقَدْ سَمِعَ ذَلِكَ مَعِي مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ , فَسَلُوهُ.
سیدنا ابوحمید انصاری ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو زکاة کی وصولی کی زمہ داری سونپی، اپنا کام پورا کر کے جب وہ تحصیلدار واپس آیا تو کہا: اے اللہ کے رسول! یہ جو کچھ ہے آپ کے لئے ہے، اور یہ میرے لئے ہدیہ کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے باپ اور ماں کے گھر میں بیٹھے رہتے اور دیکھتے کہ تمہیں ہدیہ تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ پھر شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد منبر پر کھڑے ہوئے، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر اللہ تعالیٰ کے لائق اس کی تعریف کی پھر فرمایا: امابعد، اس عامل کو کیا ہوا ہے جس کو ہم وصولی کے لئے عامل بناتے ہیں تو وہ ہمارے پاس آ کر کہتا ہے کہ یہ آپ کے عمل کا حصہ ہے اور یہ مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، وہ اپنے باپ اور ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کسی نے اس کام میں خیانت کی تو وہ اسے قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر وہ اونٹ ہو گا تو اسی کو لے کر آئے گا اور وہ آواز نکال رہا ہو گا، اور وہ خیانت اگر گائے کی ہو گی تو اس گائے کو لے کر آئے گا جو اپنی آواز نکالتی ہو گی، اور اگر وہ بکری ہو گی تو اسے لے کر آئے گا اس حال میں کہ وہ ہنہناتی آئے گی، میں نے تبلیغ کر دی (یعنی بات لوگوں تک پہنچا دی)۔ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم کو آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی، سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا کہ اس (حدیث) کو میرے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی سنا ہے، ان سے پوچھ لو۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1706)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عامل یا آفیسر کو جو ہدیہ تحفہ دیا جائے وہ بھی حکومت اور بیت المال کا ہے، اگر اس بات پر عمل ہو تو رشوت کی لعنت ہی ختم ہو جائے، نیز اس حدیث میں خیانت سے بچنے کی تعلیم ہے، چھوٹی بڑی کیسی ہی خیانت ہو قیامت کے دن خائن کے گلے پڑ جائے گی اور وہ اسے اٹھائے پھرے گا جیسی کہ حدیث میں تفصیل ہے۔
اس حدیث میں وقتِ ضرورت خطبہ دینے کا ثبوت بھی ملا، نیز یہ کہ خطبے میں پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پھر نصیحت ہونی چاہئے اور خلافِ شرع امور کی نشاندہی اور عقاب و سزا کا ذکر ہو نا چاہئے تاکہ لوگ اس خلافِ شرع فعل سے بچیں۔
نیز یہ کہ خطبے میں کسی بھی شخصیت کا نام نہیں لینا چاہئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام خطبے اسی طرح کے ہوتے تھے: «مَا بَالَ أَقْوَامٌ، مَا بَالَ فُلَانٌ» اور جیسا کہ اس حدیث میں ہے «مَا بَالَ الْعَامِلِ» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عامل کا نام نہیں لیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1711]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7174]، [مسلم 1832]، [أبوداؤد 2946]، [ابن حبان 4515]، [الحميدي 863]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.