ضحاک بن قیس فہری نے کہا: ہم نے سیدنا نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہما سے پوچھا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن اس سورہ کے علاوہ جس میں جمعہ کا ذکر ہے اور کون سی سورہ پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ: آپ اس کے ساتھ «هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ» پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1608]» اس روایت کی سند صحیح ہے، تخریج اوپر ذکر کی جا چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [الموطأ: كتاب الجمعة 21] و [ابن خزيمه 1846]
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ (کی نماز) میں «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» اور «هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ» پڑھتے تھے، اور جب کبھی عید اور جمعہ جمع ہو جاتے تو دونوں نمازوں میں بھی یہ سورتیں پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1609]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 887/63]، [ابن خزيمه 1845]، [ابن حبان 2807]
وضاحت: (تشریح احادیث 1604 سے 1607) ان احادیث سے جمعہ کی نماز میں سورة الاعلی اور سورة الغاشیہ و سورة الجمعہ کا پڑھنا ثابت ہوا۔ دوسری روایاتِ صحیحہ میں سورة الجمعہ کے ساتھ سورة المنافقون کا پڑھنا سیدنا علی و سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے۔ ان سورتوں کا جمعہ اور عیدین کی نماز میں پڑھنا سنّت ہے، دوسری سورتیں اور آیات بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن مخلد بن حسين، عن هشام، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، قال: التقيت انا وكعب، فجعلت احدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجعل يحدثني عن التوراة، حتى اتينا على ذكر يوم الجمعة. فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"إن فيها لساعة لا يوافقها عبد مسلم يصلي يسال الله فيها خيرا، إلا اعطاه إياه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: الْتَقَيْتُ أَنَا وَكَعْبٌ، فَجَعَلْتُ أُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَعَلَ يُحَدِّثُنِي عَنْ التَّوْرَاةِ، حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ذِكْرِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ. فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"إِنَّ فِيهَا لَسَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا خَيْرًا، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کعب الاحبار رحمہ اللہ سے ملاقات کی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بتانے لگا، اور وہ توراۃ کے بارے میں مجھے بتانے لگے، یہاں تک کہ جب جمعہ کے دن کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بھلائی مانگے تو اللہ تعالیٰ وہ چیز اس کو عطا فرما دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1610]» اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید سے صحیح اورمتفق علیہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [بخاري 935]، [مسلم 852]، [نسائي 1431]، [ابن ماجه 1137]، [أبويعلی 6055]، [ابن حبان 2772]، [الحميدي 1016]
وضاحت: (تشریح حدیث 1607) جمعہ کے دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ مسلم بندہ اسے پا لے تو اس کی اچھی مراد پوری ہو جائے، بعض روایات میں ہے کہ وہ نماز میں مانگے اور بعض روایات میں قائم یصلی کا لفظ نہیں ہے بلکہ عام دعا کا ذکر ہے، یصلی والی روایت سے یہ ثابت ہوا کہ نماز میں خاص طور پر سجدے میں کوئی بھی دعا کی جا سکتی ہے، جمعہ کا دن ہو اور وہ گھڑی مسلمان کو مل جائے تو سعادت ہی سعادت ہے۔ علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون سا وقت ہے جس میں قبولیتِ دعا کا امکان زیادہ ہے، فتح الباری وغیرہ میں تقریباً 45 اقوال مذکور ہیں، بعض روایات میں ہے کہ وہ ساعت اس وقت ہے جب امام نمازِ جمعہ شروع کرتا ہے، بعض روایات میں وہ وقت عصر سے مغرب تک کا ہے، اور بہت سے علماء نے اسی کو ترجیح دی ہے، چنانچہ اللہ کے بعض نیک بندے، جوان و بوڑھے یہاں سعودی عرب میں عصر کی نماز سے لے کر مغرب تک بیٹھے تلاوت، ذکر و اذکار، استغفار و توبہ اور مناجات کرتے رہتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر کی لکڑیوں پر کہتے سنا کہ لوگ جمعہ کے چھوڑ دینے سے باز آ جائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1611]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 865]، [نسائي 1369]، [ابن ماجه 794]، [شرح السنة 1054]، [أبويعلی 5742]، [ابن حبان 2785، وغيرهم]
سیدنا ابوجعد ضمری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سستی سے جمعہ چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1612]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1052]، [ترمذي 500]، [نسائي 1367]، [ابن ماجه 1125]، [أبويعلی 1600]، [ابن حبان 258]، [موارد الظمآن 55، 62، 554]
وضاحت: (تشریح احادیث 1608 سے 1610) «طَبَعَ اللّٰهُ عَلَىٰ قَلْبِهِ» کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ اس کے دل کو خیر و ہدایت قبول کرنے سے روک دے گا۔ اس حدیث میں ایک جمعہ چھوڑنے کی یہ سزا ہے کہ الله تعالیٰ دل پر مہر لگا دیتا ہے، اکثر روایات میں تین جمعہ چھوڑ دینے پر یہ سزا مذکور ہے۔ «ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِيْنَ» کا مطلب یہ ہے کہ اس پر غفلت چھا جائے گی اور عبادت کا ذوق و شوق اس کے دل سے جاتا رہے گا۔ بعض علماء نے کہا اس کے دل میں نفاق آجائے گا (جو تین جمعہ چھوڑ دے) اور ایمان کا نور جاتا رہے گا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو دن کو روزہ رکھے اور رات بھر عبادت کرے لیکن جمعہ اور جماعت میں شریک نہ ہو؟ انہوں نے کہا: وہ جہنمی ہے، تین بار یہی جواب دیا، جمعہ فرضِ عین ہے اور اس کا پڑھنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، اللہ کا مقبول بندہ وہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنّت نہ چھوٹے، بھلا فرض کو کوئی چھوڑ دے وہ مقبول کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ تو (مردود) ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا الحسين بن علي، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، عن ابي الاشعث الصنعاني، عن اوس بن اوس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن افضل ايامكم يوم الجمعة: فيه خلق آدم، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فاكثروا علي من الصلاة فيه، فإن صلاتكم معروضة علي". قال رجل: يا رسول الله، كيف تعرض صلاتنا عليك وقد ارمت؟ يعني: بليت. قال:"إن الله حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبياء"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ أَفْضَلَ أَيَّامِكُمْ يَوْمُ الْجُمُعَةِ: فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ". قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ؟ يَعْنِي: بَلِيتَ. قَالَ:"إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ"..
سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے ایام میں سب سے اچھا دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن صور ہو گا اور لوگ بےہوش ہو جائیں گے، سو تم اس دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجو اس لئے کہ تمہارا درود میرے اوپر پیش کیا جا تا ہے“، ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود کس طرح آپ پر پیش کیا جاوے گا، آپ تو مٹی ہو چکے ہوں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے اجسام کو کھانا حرام کر دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1613]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1047]، [نسائي 1373]، [ابن ماجه 1085]، [ابن حبان 910]، [موارد الظمآن 550]
وضاحت: (تشریح حدیث 1610) اس حدیث سے جمعہ کے دن کی فضیلت ثابت ہوئی اور معلوم ہوا کہ قیامت اسی دن آئے گی، نیز جمعہ کے دن خصوصی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر امتیوں کے درود و سلام کو پیش کیا جاتا ہے، اس لئے حکم ہوا کہ زیادہ سے زیادہ اس دن میں درود پڑھا جائے، اور درود کے لئے وہی الفاظ استعمال کئے جائیں جو احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں، سب سے بہتر نماز میں پڑھی جانے والی درود ہے، یا پھر کہے: «اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ عَلَىٰ عَبْدِكَ وَرَسُوْلِكَ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِيْن» ۔ اور «الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰه» کہنا، یا سب نمازیوں کا ایک ساتھ مل کر اس طرح کے نعرے لگانا یہ سب بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے جو جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔ «(أعاذنا اللّٰه وإياكم منه)» ۔ رہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بعد الممات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیاء اور شہداء باحیات ہیں اس میں شک نہیں لیکن ان کی یہ حیات کیسی ہے اس کا کسی کو علم نہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ﴾[البقرة: 154] »”وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی اس زندگی کو نہیں سمجھ سکتے۔ “ اس لئے اتنا اعتقاد ہونا چاہیے کہ الله تعالیٰ اور اس کے رسول کا فرمان درست ہے لیکن ہمیں شعور و ادراک اور سمجھ نہیں آ سکتی کہ ان کی یہ حیات کیسی ہے۔ دنیاوی حیات کی طرح وہ ہر وقت سنتے، دیکھتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم"كان يصلي بعد الجمعة ركعتين في بيته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعت (سنت) پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1614]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 937]، [مسلم 882]، [أبوداؤد 1252]، [نسائي 872]
سالم نے اپنے والد سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1615]» اس روایت کی سند بھی صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [أبويعلی 5435]
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من كان منكم مصليا بعد الجمعة، فليصل بعدها اربعا". قال ابو محمد: اصلي بعد الجمعة ركعتين او اربعا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُصَلِّيًا بَعْدَ الْجُمُعَةِ، فَلْيُصَلِّ بَعْدَهَا أَرْبَعًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ أَوْ أَرْبَعًا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو کوئی بھی جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے وہ چار رکعت نماز (سنت) پڑھے۔“ امام دارمی ابومحمد رحمہ اللہ نے فرمایا: میں جمعہ کے بعد دو رکعت یا چار رکعت (سنت) پڑھتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1616]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 881]، [أبوداؤد 1131]، [ترمذي 523]، [نسائي 1425]، [ابن ماجه 1132]، [ابن حبان 2477]، [مسند الحميدي 1006]
وضاحت: (تشریح احادیث 1611 سے 1614) یعنی قولِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کبھی چار اور فعل کے مطابق کبھی دو رکعت سنّت پڑھتا ہوں، بعض علماء نے کہا کہ گھر میں جمعہ کے بعد دو رکعت اور مسجد میں چار رکعت پڑھنا سنّت ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
سیدنا خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک نماز اور بڑھا دی ہے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، اس کا وقت عشاء اور طلوعِ فجر کے درمیان ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1617]» اس روایت کی سند میں کلام ہے، لیکن مجموع طرق سے حسن کے درجے تک پہنچ سکتی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1418]، [ترمذي 452]، [ابن ماجه 1168]، [شرح معاني الآثار 430/1]، [المعجم الكبير للطبراني 4136]، [دارقطني 30/2، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1614) ابوداؤد و ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ جو نماز سرخ اونٹوں سے بہتر ہے وہ نماز وتر ہے۔ اس سے قیام اللیل یا وتر کی اہمیت ثابت ہوئی۔