(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا هشام الدستوائي، عن يحيى، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث، عن عيسى بن طلحة قال: دخلنا على معاوية فنادى المنادي، فقال: "الله اكبر، الله اكبر، فقال معاوية: الله اكبر، الله اكبر، قال: اشهد ان لا إله إلا الله، قال: وانا اشهد ان لا إله إلا الله، قال: اشهد ان محمدا رسول الله، قال: وانا اشهد ان محمدا رسول الله". قال يحيى: واخبرني بعض اصحابنا، انه لما قال: حي على الصلاة، قال:"لا حول ولا قوة إلا بالله"، ثم قال معاوية: هكذا سمعت نبيكم يقول هذا..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى مُعَاوِيَةَ فَنَادَى الْمُنَادِي، فَقَالَ: "اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: وَأَنَا أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ". قَالَ يَحْيَى: وَأَخْبَرَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا، أَنَّهُ لَمَّا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ:"لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، ثُمَّ قَالَ مُعَاوِيَةُ: هَكَذَا سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ يَقُولُ هَذَا..
عیسی بن طلحہ نے کہا: ہم سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو موذن نے اذان دیتے ہوئے کہا: «الله أكبر الله أكبر»، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا: «الله أكبر الله أكبر»، موذن نے کہا: «أشهد أن لا إله إلا الله» تو انہوں نے کہا: «و أنا أشهد أن لا إله إلا الله»، موذن نے کہا: «أشهد أن محمدا رسول الله» تو انہوں نے بھی جواب میں کہا: «و أنا أشهد أن محمدا رسول الله» ۔ راوی حدیث یحییٰ نے کہا: ہمارے بعض ساتھیوں نے بتایا کہ جب موذن نے «حي على الصلاة» کہا تو انہوں نے «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا، پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح (موذن کے جواب میں) کہتے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1238]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 612،613]، [مسند أبى يعلی 7365]، [صحيح ابن حبان 1684]
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، حدثنا محمد بن عمرو، عن ابيه، عن جده، ان معاوية سمع المؤذن قال:"الله اكبر، الله اكبر، فقال معاوية: "الله اكبر، الله اكبر، فقال المؤذن: اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله. فقال معاوية: اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله. فقال المؤذن: اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، فقال معاوية: اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، فقال المؤذن: حي على الصلاة، حي على الصلاة، فقال: لا حول ولا قوة إلا بالله. فقال المؤذن: حي على الفلاح، حي على الفلاح. فقال: لا حول ولا قوة إلا بالله. فقال المؤذن: الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله. فقال: الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله. ثم قال: هكذا فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ قَالَ:"اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: "اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ الْمُؤَذِّنُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَقَالَ الْمُؤَذِّنُ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ الْمُؤَذِّنُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ. فَقَالَ الْمُؤَذِّنُ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ. فَقَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ. فَقَالَ الْمُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
محمد بن عمرو اپنے والد سے، وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے موذن کو کہتے سنا: «الله أكبر الله أكبر» تو کہا: «الله أكبر الله أكبر»، موذن نے کہا: «أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله» تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا: «أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله»، موذن نے کہا: «أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله» تو انھوں نے بھی جواباً ایسے ہی کہا: «أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله» موذن نے کہا: «حي على الصلاة، حي على الصلاة» تو انھوں نے اس کے جواب میں «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا، موذن نے کہا: «حي على الفلاح، حي على الفلاح» تو انہوں نے کہا: «لا حول ولا قوة إلا با الله»، موذن نے کہا: «الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» تو انہوں نے بھی «الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» کہا، پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح (موذن کے جواب میں) فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو فإن حديثه لا يرقى إلى درجة الصحة، [مكتبه الشامله نمبر: 1239]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 612]، [مسند أبى يعلی 7365]، [ابن حبان 1684]
وضاحت: (تشریح احادیث 1234 سے 1237) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ اذان کے جواب میں جو مؤذن کہے ویسے ہی کہنا چاہئے، صرف «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» کے جواب میں «لا حول ولا قوة الا باللّٰه» کہا جائے گا، اور فجر کی اذن میں «الصلاة خير من النوم» کے جواب میں «الصلاة خير من النوم» ہی کہا جائے گا، یہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے جیسا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا۔ نیز یہ کہ ا قامت کے جواب میں بھی ایسے ہی کہا جائے گا کیونکہ «إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْ مِثْلَ مَا يَقُوْلُ» میں اقامت بھی داخل ہے۔ سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ایسا ہی کرتے تھے۔ والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو فإن حديثه لا يرقى إلى درجة الصحة
(حديث مرفوع) اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، عن يحيى، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: "إذا نودي بالصلاة، ادبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع الاذان، فإذا قضي الاذان، اقبل، وإذا ثوب، ادبر، فإذا قضي التثويب، اقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه، فيقول: اذكر كذا وكذا، لما لم يكن يذكر قبل ذلك". قال ابو محمد: ثوب: يعني: اقيم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "إِذَا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ، أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ لَهُ ضُرَاطٌ حَتَّى لَا يَسْمَعَ الْأَذَانَ، فَإِذَا قُضِيَ الْأَذَانُ، أَقْبَلَ، وَإِذَا ثُوِّبَ، أَدْبَرَ، فَإِذَا قُضِيَ التَّثْوِيبُ، أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطِرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ، فَيَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا وَكَذَا، لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ قَبْلَ ذَلِكَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: ثُوِّبَ: يَعْنِي: أُقِيمَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے، جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے، جب اقامت (تکبیر) ہوتی ہے تو بھاگ جاتا ہے اور جب اقامت ختم ہوتی ہے لوٹ آتا ہے تاکہ نمازی کے دل میں وسوسہ ڈالے، کہتا ہے فلاں بات یاد کرو، فلاں بات یاد کرو جو بات کہ اس کو اس سے قبل یاد نہ آئی تھی۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس حدیث میں «ثوُبَ» سے مراد: «أقيم»، یعنی اقامت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1240]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 608]، [مسلم 389]، [أبويعلی 5958]، [ابن حبان 16، 1662]
وضاحت: (تشریح حدیث 1237) اس حدیث سے اذان کی فضیلت معلوم ہوئی، نیز یہ کہ اذان و اقامت سے شیطان بھاگ جاتا ہے اور اس کا کام نماز میں وسوسے ڈالنا ہے، اور اذان و اقامت سننے والے کو جو مؤذن کہے ویسے ہی کہنا چاہئے اور «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» کے جواب میں «لا حول ولا قوة إلا باللّٰه» کہنا سنّت ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، انبانا شعيب، عن الزهري، اخبرني انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم "خرج حين زاغت الشمس، فصلى بهم صلاة الظهر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَنْبأَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "خَرَجَ حِينَ زَاغَتْ الشَّمْسُ، فَصَلَّى بِهِمْ صَلَاةَ الظُّهْرِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لاتے اور انہیں اس وقت ظہر کی نماز پڑھاتے تھے جب سورج ڈھل جاتا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی شدید ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیوں کہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ میرے نزدیک اس وقت کی بات ہو گی جب گرمی اذیت ناک ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1243]» عبدالله بن صالح کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 536]، [مسلم 615، و أصحاب السنن الأربعة] و [أبويعلی 5871]، [ابن حبان 1504]
وضاحت: (تشریح حدیث 1240) اس حدیث میں شدید گرمی کے وقت نمازِ ظہر کچھ تاخیر سے پڑھنے کا حکم ہے، نہ کہ اتنی تاخیر کی جائے کہ عصر کی نماز کا وقت آجائے جب کہ بعض لوگ ظہر کی نماز ایک مثل سایہ ہونے پر پڑھتے ہیں، لیکن احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہے اور جمہور علماء کا یہی قول ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح ولكن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن ابن ابي ذئب، عن الزهري، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "يصلي العصر، ثم يذهب الذاهب إلى العوالي فياتيها والشمس مرتفعة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يُصَلِّي الْعَصْرَ، ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي فَيَأْتِيهَا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھ لیتے تو جانے والا مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا تو وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1244]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 550]، [مسلم 621، والأربعة]، و [أبويعلی 3593]، [ابن حبان 1618]
وضاحت: (تشریح حدیث 1241) عوالی ان دیہات کو کہا گیا ہے جو مدینہ کے اطراف میں واقع تھے، اور چار یا پانچ یا آٹھ میل کی دوری پر واقع تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی شدت باقی رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عصر پڑھ لیتے تھے، اس لئے غروبِ آفتاب سے ٹھوڑا پہلے عصر کی نماز پڑھنا خلافِ سنّت ہے، اسی طرح فجر کی نماز بھی سورج طلوع ہونے سے تھوڑا سا ہی پہلے پڑھنا خلافِ سنّت ہے، اور جو لوگ دیر سے نماز پڑھتے ہیں یا غیر وقت میں فرض نماز ادا کرتے ہیں ان کے لئے شدید وعید ہے۔ دیکھئے: حاشیہ حدیث رقم (1258)، (1261)۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز سورج غروب ہوتے وقت پڑھتے تھے جب سورج کا اوپری کنارہ غروب ہو جاتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1245]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھے: [بخاري 561]، [مسلم 636، نحوه] و [أبوداؤد 417، مثله] و [ترمذي 164] و [ابن ماجه 688] و [ابن حبان 1523]
وضاحت: (تشریح حدیث 1242) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مغرب کی نماز غروبِ آفتاب کے بعد فوراً پڑھ لینی چاہے، یہ ہی مغرب کی نماز کا اوّل وقت ہے۔
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت اس وقت تک بہتری میں رہے گی جب تک مغرب میں ستاروں کے گھنے ہو جانے کا انتظار نہ کرے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عمرو بن إبراهيم العبادي قال أحمد: ((يروي عن قتادة أحاديث مناكير يخالف. وقد روى عباد بن العوام عنه حديثا منكرا))، [مكتبه الشامله نمبر: 1246]» یہ سند عمرو بن ابراہیم کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دوسری صحیح سند سے بھی یہ حدیث موجود ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [أبوداؤد 418]، [ابن ماجه 689]، [بيهقي 448/1] و [الحاكم 190/1، 506]
وضاحت: (تشریح حدیث 1243) یعنی مغرب کی نماز میں عدم تاخیر بہتری کا سبب ہے اور مغرب میں اتنی دیر نہ کی جائے کہ ستارے چمکنے لگیں اور گھنے ہو جائیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عمرو بن إبراهيم العبادي قال أحمد: ((يروي عن قتادة أحاديث مناكير يخالف. وقد روى عباد بن العوام عنه حديثا منكرا))
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حماد، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن بشير بن ثابت، عن حبيب بن سالم، عن النعمان بن بشير، قال: والله إني لاعلم الناس بوقت هذه الصلاة يعني: صلاة العشاء، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "يصليها لسقوط القمر لثالثة". قال يحيى: املاه علينا من كتابه عن بشير بن ثابت.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّاسِ بِوَقْتِ هَذِهِ الصَّلَاةِ يَعْنِي: صَلَاةَ الْعِشَاءِ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُصَلِّيهَا لِسُقُوطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَةٍ". قَالَ يَحْيَى: أَمْلاهُ عَلَيْنَا مِنْ كِتَابِهِ عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ.
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں سب لوگوں سے زیادہ اس نماز کے وقت کا علم رکھتا ہوں (یعنی عشاء کی نماز کا وقت)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت (عشاء کی نماز) پڑھتے تھے جب کہ تیسری رات کا چاند ڈوبتا ہے۔ یحییٰ نے کہا: امام دارمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب سے بشیر بن ثابت کے طریق سے املا کرایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1247]» یہ حدیث صحیح ہے۔ ابوعوانہ الوضاح اور ابوبشر: جعفر بن ابی وحشیہ ہیں۔ دیکھئے: [أحمد 274/4]، [أبوداؤد 418]، [ترمذي 165]، [نسائي 529]
وضاحت: (تشریح حدیث 1244) یعنی اوّل وقت میں غیابِ شفق کے بعد فوراً آپ عشاء کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔