(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن النعمان بن سالم، قال: سمعت عمرو بن اوس الثقفي يحدث، عن عنبسة بن ابي سفيان، عن ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: "ما من عبد مسلم يصلي كل يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعا، غير الفريضة، إلا له بيت في الجنة، او بني له بيت في الجنة". قالت ام حبيبة: فما برحت اصليهن بعد. وقال عمرو مثله. وقال النعمان مثله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ الثَّقَفِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي كُلَّ يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعًا، غَيْرَ الْفَرِيضَةِ، إِلَّا لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ، أَوْ بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ". قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: فَمَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ. وَقَالَ عَمْرٌو مِثْلَهُ. وَقَالَ النُّعْمَانُ مِثْلَهُ.
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: ”جو بھی مسلم بنده 12 رکعت سنت فرض نماز کے علاوہ پڑھے اس کے لئے جنت میں ایک گھر ہے“، یا فرمایا: ”اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔“ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس لئے میں برابر ان سنتوں کو پڑھتی رہتی ہوں، عمرو بن اوس اور نعمان بن سالم نے بھی اسی کے مثل کہا یعنی جب سے یہ سنا ان سنتوں کو کبھی ترک نہیں کیا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر سے پہلے چار رکعت اور نماز فجر سے پہلے دو رکعت (سنت) کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1479]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1182]، [أبوداؤد 1253]، [نسائي 1757]، [أحمد 63/6]، [الطيالسي 522 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 1475 سے 1477) مذکورہ بالا احادیث سے سننِ راتبہ کی فضیلت معلوم ہوئی، تمام وارده احادیث کے پیشِ نظر یہ معلوم ہوا کہ دو رکعت فجر سے پہلے، چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، اور دو رکعت عشاء کے بعد، یہ کل 12 رکعت ہوئیں، اس کے علاوہ بھی کچھ سنتیں ہیں جو احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں، جیسے عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت اور مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت۔ سنن راتبہ کی فضیلت یہ ہے کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ جنت میں گھر بنائے گا۔ دوسرے یہ کہ اگر فرض نماز میں کوئی کمی رہ گئی تو الله تعالیٰ ان سے اس کمی کو پوری فرما دے گا، جیسا کہ حدیث: «أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلَاةُ.» سے ثابت ہے۔ دیکھئے: حدیث نمبر (1393)۔
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دو اذانوں (اذان و اقامت) کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں کے بیچ نماز ہے، ہر دو اذانوں کے بیچ نماز ہے۔ آخر میں فرمایا: ہر دو اذانوں کے بیچ جو چاہے اس کے لئے نماز ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں کہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھی جائے؟ کہا: ہاں، میں بھی یہی کہتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1480]» اس روایت کے رواة ثقات ہیں، اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 624]، [مسلم 627، 838]، [أبوداؤد 1283]، [ترمذي 185]، [نسائي 680]، [ابن ماجه 1162]، [ابن حبان 1559، 1560]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن عمرو بن عامر، قال: سمعت انسا رضي الله عنه، قال:"كان المؤذن يؤذن لصلاة المغرب على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقوم لباب اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيبتدرون السواري حتى يخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وهم كذلك". قال: وقل ما كان يلبث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللهِ عَنْهُ، قَالَ:"كَانَ الْمُؤَذِّنُ يُؤَذِّنُ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ عَلَى عَهْدِ ِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُومُ لُبَابُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ حَتَّى يَخْرُجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ كَذَلِكَ". قَالَ: وَقَلَّ مَا كَانَ يَلْبَثُ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں موذن مغرب کی اذان دیتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیده اصحاب ستونوں کی طرف لپکتے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لاتے تو وہ (سنتیں) پڑھ رہے ہوتے۔ کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم ہی انتظار کرتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1481]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے: دیکھئے: [بخاري 503]، [مسلم 837]، [أبوداؤد 1282]، [ابن ماجه 1163]
وضاحت: (تشریح احادیث 1477 سے 1479) ان احادیث سے مغرب کی اذان کے بعد نماز سے پہلے دو رکعت سنّت پڑھنے کا ثبوت ملا اور یہی صحیح ہے، اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعد میں اس سے روک دیا گیا یا مغرب کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہے تو ان سب کی کوئی دلیل نہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن هشام، عن محمد، عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "يخفي ما يقرا فيهما، وذكرت قل يا ايها الكافرون وقل هو الله احد". قال سعيد: في ركعتي الفجر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُخْفِي مَا يَقْرَأُ فِيهِمَا، وَذَكَرَتْ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ". قَالَ سَعِيدٌ: فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان دو رکعتوں میں جو پڑھتے اسے مخفی رکھتے (یعنی آواز سے نہ پڑھتے) اور ذکر کیا کہ «﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾» اور «﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾» کی قرأت کرتے تھے۔ سعید بن عامر نے کہا: یعنی فجر کی سنتوں میں یہ پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1482]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 297/1] و [ابن حبان 2461]
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، حدثني نافع، عن ابن عمر قال: حدثتني حفصة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "يصلي سجدتين خفيفتين بعد ما يطلع الفجر". وكانت ساعة لا ادخل فيها على النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يُصَلِّي سَجْدَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَعْدَ مَا يَطْلُعُ الْفَجْرُ". وَكَانَتْ سَاعَةً لَا أَدْخُلُ فِيهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے بعد دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے تھے، اور یہ ایسی گھڑی تھی جس میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرنہیں ہوتا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1483]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 618]، [مسلم 723]، [ترمذي 433]، [نسائي 582]، [ابن ماجه 1145]، [أبويعلی 7032]، [ابن حبان 2454]، [الحميدي 290]
(حديث مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، عن حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم"إذا سكت المؤذن من اذان الصبح وبدا الصبح، صلى ركعتين خفيفتين قبل ان تقام الصلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ أَذَانِ الصُّبْحِ وَبَدَا الصُّبْحُ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تُقَامَ الصَّلَاةُ".
ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جب موذن اذان فجر سے خاموش ہوتا اور صبح صادق ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلکی سی دو رکعت جماعت کھڑی ہونے سے پہلے پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1484]» اس حدیث کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 618]، [مسلم 723]
سالم نے روایت کیا اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ کے بعد دو رکعت سنت پڑھتے تھے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ جب صبح صادق ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت سنت پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1485]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 937]، [مسلم 882]، [أبويعلی 5435]
وضاحت: (تشریح احادیث 1479 سے 1483) ان تمام روایات سے فجر کی نماز سے پہلے دو رکعت سنّت پڑھنا ثابت ہوا، نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سنتیں ہلکی پڑھتے تھے اور سورۂ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں « ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ » اور دوسری رکعت میں « ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ » پڑھتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے جب دو رکعت پڑھ لیتے تو اگر کوئی ضرورت پیش آتی تو آپ مجھ سے گفتگو کر لیتے ورنہ بنا کلام کئے ہی نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1486]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 743]، [أبوداؤد 1340]، [نسائي 1755]، [ابن ابي شيبه 249/2]، [الحميدي 175]
وضاحت: (تشریح حدیث 1483) اس حدیث سے سنتوں کے بعد جماعت سے پہلے وقتِ ضرورت کلام کرنا ثابت ہوا، نیز یہ کہ فجر کی یہ سنتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن ابن ابي ذئب، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم "يصلي ما بين العشاء إلى الفجر إحدى عشرة ركعة يسلم في كل ركعتين، يوتر بواحدة، فإذا سكت المؤذن من الاذان الاول ركع ركعتين خفيفتين، ثم اضطجع حتى ياتيه المؤذن فيخرج معه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُصَلِّي مَا بَيْنَ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُسَلِّمُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، يُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ الْأَذَانِ الْأَوَّلِ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ فَيَخْرُجُ مَعَهُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء اور فجر کی نمازوں کے درمیان گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے، ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور وتر ایک رکعت پڑھتے تھے، پھر جب موذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہوتا تو آپ ہلکی سی دو رکعت (سنت) پڑھتے، پھر پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ موذن حاضر خدمت ہوتا اور آپ اس کے ساتھ تشریف لے جاتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1487]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 626]، [مسلم 736]، [أبوداؤد 1337]، [نسائي 684]، [أبويعلی 4650]، [ابن حبان 2431 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1484) اس حدیث سے تہجد گیارہ رکعت پڑھنا اور وتر ایک رکعت پڑھنا، فجر کی سنتیں گھر میں ادا کرنا اور سنتوں کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹنا ثابت ہوا جو سنّتِ رسولِ ہدیٰ ہے۔ راقم نے شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کو ہمیشہ اس پر عمل کرتے دیکھا ہے، لہٰذا جو شخص یہ سنتیں گھر میں ادا کرے اس کو اس سنّت پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ والله اعلم۔