سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: ”کوئی آدمی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1408]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 574]، [ترمذي 220]، [أبويعلی 1057]، [ابن حبان 2397]، [الموارد 436]
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا وهيب، حدثنا سليمان الاسود، عن ابي المتوكل الناجي، عن ابي سعيد الخدري، ان رجلا دخل المسجد وقد صلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "الا رجل يتصدق على هذا فيصلي معه؟". قال عبد الله: يصلي صلاة العصر ويصلي المغرب ولكن يشفع.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَسْوَدُ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّي مَعَهُ؟". قَالَ عَبْد اللَّهِ: يُصَلِّي صَلَاةَ الْعَصْرِ وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ وَلَكِنْ يَشْفَعُ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کرا چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اس کو صدقہ نہیں دیتا کہ اس کے ساتھ نماز پڑھے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عصر کی نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر مغرب کی نماز دوبارہ پڑھے تو چار رکعت پڑھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1409]» اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔ حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 2398]، [موارد الظمآن 437]
وضاحت: (تشریح احادیث 1405 سے 1407) ان احادیث سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔ جس مسجد میں جماعت ہو چکی ہے وہی نماز اسی مسجد میں جماعت سے پڑھنا درست ہے، اگر درست نہ ہوتا تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیوں فرماتے کہ کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے، یا تجارت کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے تاکہ اسے بھی جماعت کا ثواب مل جائے۔ بیہقی میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ان کے ساتھ نماز پڑھی، دوسرا مسئلہ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جماعت کے ساتھ بھی اگر نماز پڑھ لی ہے تب بھی جماعت بنانے کے لئے نماز پڑھی جا سکتی ہے، اور جو شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھ چکا ہے وہ دوبارہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ جو لوگ ایک بار جماعت ہو جانے کے بعد دوسری جماعت کرنے کے منکر ہیں ان کو اس حدیث پر غور کرنا چاہئے۔ «اَللّٰهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَهُ وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ.»”اے اللہ! حق بات کی طرف ہماری رہنمائی فرما اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق دے اور ہمیں باطل کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی توفیق دے۔ “ آمین
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن هشام، عن محمد، عن ابي هريرة، ان رجلا قال: يا رسول الله، ايصلي الرجل في الثوب الواحد؟ قال: "او كلكم يجد ثوبين، او لكلكم ثوبان؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُصَلِّي الرَّجُلُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ؟ قَالَ: "أَوَ كُلُّكُمْ يَجِدُ ثَوْبَيْنِ، أَوْ لِكُلِّكُمْ ثَوْبَانِ؟".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آدمی ایک کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے؟ فرمایا: ”کیا تم میں سے ہر ایک دو کپڑے پاتا ہے یا ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1410]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 358]، [مسلم 515]، [أبوداؤد 625]، [نسائي 762]، [أبويعلی 5883]، [ابن حبان 2295]، [الحميدي 966]
وضاحت: (تشریح حدیث 1407) اس حدیث میں استفہام انکاری ہے، یعنی تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے نہیں ہیں، ایک ہی کپڑا ہے تو وہ ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص بھی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر اس میں سے کچھ نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1411]» یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 359]، [مسلم 516]، [أبوداؤد 626]، [نسائي 768]، [أبويعلی 2662]، [ابن حبان 2303]، [الحميدي 994 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1408) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ایک کپڑا ہو لیکن لمبا چوڑا ہو تو کندھے پر ڈال لے تاکہ کندھے ڈھک جائیں اور ستر پوشی بھی ہو جائے اور نماز پڑھ لے، اس کی نماز صحیح ہوگی۔ اور اگر کپڑا چھوٹا ہو، ستر پوشی نہ ہو سکے تو ازار باندھ لے لنگی کی طرح اور نماز پڑھ لے، اس کی نماز بھی درست ہو گی، یہ اس صورت میں ہے جب ایک کپڑا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں تنگ حالی تھی، سب کے پاس دو کپڑے بھی نہ ہوتے تھے۔ آج الله تعالیٰ نے سب کو وسعت دی ہے اس لئے نماز کپڑے پہن کر پڑھنی چاہیے۔ « ﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾[الأعراف: 31] »”اے بنی آدم! سجده گاه آتے ہوئے زینت اختیار کرو۔ “
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: "نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبستين: ان يحتبي احدكم في الثوب الواحد ليس بين فرجه وبين السماء شيء، وعن الصماء اشتمال اليهود".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لِبْسَتَيْنِ: أَنْ يَحْتَبِيَ أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ بَيْنَ فَرْجِهِ وَبَيْنَ السَّمَاءِ شَيْءٌ، وَعَنْ الصَّمَّاءِ اشْتِمَالِ الْيَهُودِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے لباس سے منع فرمایا: ایک اس سے کہ کوئی شخص ایک کپڑے میں گوٹ مار کر اس طرح بیٹھے کہ اس کی شرمگاہ اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ ہو، دوسرے اشتمال صماء سے جو یہود کا پہناوا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1412]» اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 368، 584]، [نسائي 4529]، [ابن ماجه 3560]، [أبويعلی 6124]، [ابن حبان 2290 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1409) اشتمال صماء ایک کپڑے کو اس طرح سارے بدن پر لپیٹنا کہ ہاتھ باہر نہ نکل سکے، اور احبتاء کا معنی حدیث میں مذکور ہے۔ یہ بہت ہی بے شرمی کی بات ہے کہ آدمی برہنہ ہو کر کھلے آسمان کے نیچے آئے۔ اگر کوئی فردِ بشر موجود نہیں تو انسان کو الله تعالیٰ سے شرمانا چاہیے۔
ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خمرة پر نماز پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وسليمان هو: ابن أبي سليمان الشيباني. والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1413]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 333، 381]، [مسلم 513]، [أبوداؤد 656]، [نسائي 737]، [ابن ماجه 1028]، [أبويعلی 7090]، [الحميدي 313 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1410) «خمرة» اس چھوٹے سے ٹکڑے کو کہتے ہیں جس پر فقط سجدے کے لئے سر رکھا جا سکے، چاہے وہ ٹکڑا چٹائی کا ہو، کپڑ ے کا ہو یا چھال گھاس وغیرہ کا بنا ہو۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وسليمان هو: ابن أبي سليمان الشيباني. والحديث متفق عليه
وضاحت: (تشریح حدیث 1411) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سجدہ زمین پر یا مٹی پر کرنا شرطِ واجب نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نے خمره پر، چٹائی یا بوریے پر، بلکہ اپنے بستر پر بھی نماز پڑھی اور سجدہ کیا ہے، اس لئے سجاد، چٹائی، جائے نماز، مصلیٰ اور قالین پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن نقش و نگار مصلے وغیرہ پر نہ ہو تو زیادہ بہتر ہے، والله اعلم۔ اللہ تعالیٰ سب کو اتباعِ سنّت کی توفیق بخشے۔ آمین
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا جو ان کی حقیقی بہن تھیں سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کپڑے میں نماز پڑھتے تھے جو پہن کر صحبت کرتے تھے، کہا: ہاں، جب اس کپڑے میں نجاست نہ ہوتی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 1415]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، لیکن آنے والی روایت صحیح سند سے مروی ہے، حوالہ آگے آرہا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع
سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کپڑے میں ان سے صحبت کرتے اس میں نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں (پڑھ لیتے تھے) جب اس کپڑے میں نجاست نہ دیکھتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1416]» اس روایت کی یہ سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 366]، [نسائي 293]، [ابن ماجه 540]، [أبويعلی 7126]، [ابن حبان 2331]
وضاحت: (تشریح احادیث 1412 سے 1414) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن کپڑوں میں جماع کیا ہے اگر نجاست لگنے کا گمان نہ ہو تو ان میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ کیونکہ نماز کے شروط میں سے ہے کپڑے، بدن اور جائے نماز سب پاک ہوں۔
سعید بن یزید ازدی نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے؟ کہا: ہاں (پڑھتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1417]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 386]، [مسلم 555]، [ترمذي 400]، [نسائي 774]، [أبويعلی 2912]