(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا وهيب، حدثنا سليمان الاسود، عن ابي المتوكل الناجي، عن ابي سعيد الخدري، ان رجلا دخل المسجد وقد صلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "الا رجل يتصدق على هذا فيصلي معه؟". قال عبد الله: يصلي صلاة العصر ويصلي المغرب ولكن يشفع.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَسْوَدُ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّي مَعَهُ؟". قَالَ عَبْد اللَّهِ: يُصَلِّي صَلَاةَ الْعَصْرِ وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ وَلَكِنْ يَشْفَعُ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کرا چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اس کو صدقہ نہیں دیتا کہ اس کے ساتھ نماز پڑھے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عصر کی نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر مغرب کی نماز دوبارہ پڑھے تو چار رکعت پڑھے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1405 سے 1407) ان احادیث سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔ جس مسجد میں جماعت ہو چکی ہے وہی نماز اسی مسجد میں جماعت سے پڑھنا درست ہے، اگر درست نہ ہوتا تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیوں فرماتے کہ کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے، یا تجارت کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے تاکہ اسے بھی جماعت کا ثواب مل جائے۔ بیہقی میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ان کے ساتھ نماز پڑھی، دوسرا مسئلہ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جماعت کے ساتھ بھی اگر نماز پڑھ لی ہے تب بھی جماعت بنانے کے لئے نماز پڑھی جا سکتی ہے، اور جو شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھ چکا ہے وہ دوبارہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ جو لوگ ایک بار جماعت ہو جانے کے بعد دوسری جماعت کرنے کے منکر ہیں ان کو اس حدیث پر غور کرنا چاہئے۔ «اَللّٰهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَهُ وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ.»”اے اللہ! حق بات کی طرف ہماری رہنمائی فرما اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق دے اور ہمیں باطل کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی توفیق دے۔ “ آمین
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1409]» اس روایت کی سند بھی صحیح ہے۔ حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 2398]، [موارد الظمآن 437]