(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، حدثنا ابو جعفر، عن مسلم ابي المثنى، عن ابن عمر، انه قال:"كان الاذان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مثنى مثنى، والإقامة مرة، غير انه كان إذا قال: قد قامت الصلاة، قالها مرتين: فإذا سمعنا الإقامة، توضا احدنا وخرج".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ مُسْلِمٍ أَبِي الْمُثَنَّى، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ:"كَانَ الْأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثْنَى مَثْنَى، وَالْإِقَامَةُ مَرَّةً، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَالَ: قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ، قَالَهَا مَرَّتَيْنِ: فَإِذَا سَمِعْنَا الْإِقَامَةَ، تَوَضَّأَ أَحَدُنَا وَخَرَجَ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد (مبارک) میں اذان کے کلمات دو دو بار اور اقامت (کے کلمات) ایک ایک بار کہے جاتے تھے، ہاں جب قد قامت الصلاۃ پر آتے تو اس کو دو بار کہتے، لہٰذا جب ہم اقامت سنتے تو ہم میں سے (ہر) کوئی وضو کرتا اور گھر سے باہر آ جاتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1229]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 510]، [نسائي 627]، [صحيح ابن حبان 1674]، [الموارد 290]
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر:]» اس روایت کی تخریج بھی اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1225 سے 1229) ان تمام روایاتِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو بار اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہے جا ئیں گے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو ایسا ہی حکم دیا تھا، بعض روایات میں اقامت (یعنی تکبیر) کے کلمات بھی اذان کی طرح دو دو بار کہنا مروی ہے، لیکن اکہری اقامت کہنے کی روایت اصح اور متفق علیہ ہے۔ واللہ اعلم
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن همام، عن عامر الاحول، عن مكحول، عن ابن محيريز، عن ابي محذورة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "امر نحوا من عشرين رجلا فاذنوا، فاعجبه صوت ابي محذورة، فعلمه الاذان: الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، والإقامة مثنى مثنى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَمَرَ نَحْوًا مِنْ عِشْرِينَ رَجُلًا فَأَذَّنُوا، فَأَعْجَبَهُ صَوْتُ أَبِي مَحْذُورَةَ، فَعَلَّمَهُ الْأَذَانَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَه إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَالْإِقَامَةَ مَثْنَى مَثْنَى".
سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً بیس آدمیوں سے اذان کے لئے کہا، سو انہوں نے آذان دی لیکن آپ کو ابومحذورہ کی آواز پسند آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اذان سکھائی۔ «الله أكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» اور اقامت دو دو بار۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1229 سے 1231) پہلی حدیث میں اذان کے کلمات 19 ہیں، جس میں شہادتین کے کلمات چار چار بار ہیں اور یہ ہی ترجیع ہے، یعنی شہادتین کے دونوں کلمات پہلے آہستہ آواز سے دو دو مرتبہ کہے بعد میں بآوازِ بلند پھر دو دو مرتبہ شہادتین کو دہرائے۔ یہ روایت صحیح ہے اور اس طرح ترجیع کے ساتھ اذان دینا امام مالک، امام شافعی رحمہما اللہ اور جمہور علماء کے نزدیک مشروع ہے، اور اس روایت میں اقامت کے الفاظ بلا ترجیع اذان کی طرح دو دو بار کہنا بھی ثابت ہے اور یہ فعل منکر نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
ابوجحیفہ سے روایت ہے انہوں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا، کہا: میں بھی ان کے منہ کے ساتھ اذان میں اِدھر اُدھر منہ پھیرنے لگا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1234]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 634]، [مسلم 503 وغيرهما من أصحاب السنن] و [أبويعلی 887]، [ابن حبان 1268]، [الحميدي 916]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح ولكن الحديث متفق عليه
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن محمد، حدثنا عباد، عن حجاج، عن عون بن ابي جحيفة، عن ابيه، ان بلالا "ركز العنزة، ثم اذن، ووضع اصبعيه في اذنيه فرايته يدور في اذانه". قال عبد الله: حديث الثوري اصح.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ بِلَالًا "رَكَزَ الْعَنَزَةَ، ثُمَّ أَذَّنَ، وَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فَرَأَيْتُهُ يَدُورُ فِي أَذَانِهِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ أَصَحُّ.
ابوجحیفہ سے روایت کیا ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی چھڑی گاڑی، پھر اذان دی، اور اپنے دونوں کانوں میں انگلی رکھی، میں نے دیکھا کہ وہ اذان میں گھومتے ہیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: (اوپر والی) سفیان ثوری کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل حجاج وهو: ابن أرطاة ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1235]» اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 634]، و [مسلم 503]، و [مسند أبى يعلی 894]، و [موارد الظمآن 2300]
وضاحت: (تشریح احادیث 1231 سے 1233) ان احادیث سے اذان میں «حي على الصلاة» «حي على الفلاح» کہتے وقت دائیں بائیں منہ پھیرنے، اور کانوں میں انگلی ڈالنے کا ثبوت ملتا ہے جو مستحب ہے واجب نہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل حجاج وهو: ابن أرطاة ولكن الحديث متفق عليه
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو (وقت) دعائیں رد نہیں کی جاتی ہیں یا کم رد کی جاتی ہیں۔ ایک تو اذان کے وقت کی دعا، دوسرے لڑائی کے وقت جب لوگ ایک دوسرے سے بھڑ جاتے (برسرِ پیکار ہوتے) ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1236]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2540]، [المنتقي 1065]، [المعجم الكبير 5756]، [ابن خزيمه 419]، [الحاكم 198/1] و [البيهقي 410/1] وغيرهم۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1233) اس حدیث سے دعا کی قبولیت کے اوقات معلوم ہوئے، اذان کے بعد اور میدانِ جنگ میں قتال کرتے وقت دعا کی قبولیت کے اوقات ہیں۔ اس کے علاوہ فجر کی اذان سے پہلے اور جمعہ کے دن عصر سے مغرب کی اذان تک یہ اوقات بھی دعا کی قبولیت کے ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔