(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم،، انه قال: "وإذا قال الإمام: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،، أَنَّهُ قَالَ: "وَإِذَا قَالَ الْإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو تم «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1349]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 378]، [مسلم 411] و [ابن حبان 1908]
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون , انبانا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر، فكبروا، وإذا ركع، فاركعوا وإذا سجد فاسجدوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد، وإذا صلى قائما، فصلوا قياما، وإذا صلى جالسا، فصلوا جلوسا اجمعون".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ، فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ، فَارْكَعُوا وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا، فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک امام اس لئے ہوتا ہے کہ تم اس کی اقتدا کرو، جب وہ «الله اكبر» کہے تو تم اس کے بعد «الله اكبر» کہو، جب وہ رکوع میں چلا جائے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سجدہ میں جائے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب وہ (امام) «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو تم «اللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» کہو، اور وہ اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔“
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن حطان بن عبد الله الرقاشي، عن ابي موسى، انه قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا فعلمنا صلاتنا وسن لنا سنتنا قال: احسبه قال: "إذا اقيمت الصلاة، فليؤمكم احدكم، فإذا كبر، فكبروا، وإذا قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله، وإذا كبر وركع، فكبروا واركعوا، فإن الإمام يركع قبلكم، ويرفع قبلكم قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: فتلك بتلك، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد او قال: ربنا لك الحمد، فإن الله عز وجل قال على لسان نبيه: سمع الله لمن حمده".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا وَسَنَّ لَنَا سُنَّتَنَا قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: "إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ، فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ، وَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ، فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتِلْكَ بِتِلْكَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ أَوْ قَالَ: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ".
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہمیں ہماری نماز سکھلائی اور ہماری سنت بتلائی، (راوی نے) کہا: میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو تم میں کوئی امامت کرائے پس جب وہ (امام) تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر (اللہ اکبر) کہو، اور جب وہ «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» پڑھے تو تم آمین کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کر لے گا، اور جب وہ (امام) اللہ اکبر کہہ کر رکوع کرے تو تم بھی تکبیر کہو اور رکوع میں چلے جاؤ (لیکن خیال رہے) امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا اور تم سے پہلے رکوع سے اٹھے گا“، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ امام کے جواب میں ہے (یعنی تکبیر و رکوع و غیرہ) اور جب وہ (امام) «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہے تو تم «اللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» کہو“، یا یہ فرمایا: ” «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ»“۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان میں فرمایا: «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» . (یعنی آپ یہ کہیں: «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» اللہ نے اس کی دعا سن لی جس نے اس کی تعریف کی)۔
تخریج الحدیث: «سعيد بن عامر متأخر السماع من سعيد بن أبي عروبة ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1351]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 404]، [أبوداؤد 972]، [نسائي 1062]، [ابن ماجه 901]، [أبويعلی 7224]، [ابن حبان 2167]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: سعيد بن عامر متأخر السماع من سعيد بن أبي عروبة ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن عطية بن قيس، عن قزعة، عن ابي سعيد الخدري، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع راسه من الركوع، قال: "ربنا لك الحمد ملء السموات وملء الارض، وملء ما شئت من شيء بعد، اهل الثناء والمجد، احق ما قال العبد، وكلنا لك عبد، اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ قَزَعَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، قَالَ: "رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ، وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو دعا پڑھتے تھے: «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ ...... مَنْكَ الْجَدُّ» یعنی: ”اے ہمارے رب تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں آسمانوں اور زمینوں بھر، اور اس کے بعد جتنی تعریف تو چاہے، تو ہی تعریف اور بڑائی کے لائق ہے، بہتر ہے جو بندے نے کہا اور ہم سب تیرے ہی بندے ہیں، اے اللہ جو تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں، اور جس کو تو نہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں، اور تیرے سامنے مال دار (صاحب منصب) کو اس کا مال (یا منصب) فائدہ نہیں دے گا۔“
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا عبد العزيز بن ابي سلمة، عن عمه الماجشون، عن الاعرج، عن عبيد الله بن ابي رافع، عن علي بن ابي طالب، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع راسه من الركوع، قال: "سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد ملء السموات وملء الارض، وملء ما بينهما، وملء ما شئت من شيء بعد". قيل لعبد الله: تاخذ به؟ قال: لا، وقيل له: تقول هذا في الفريضة؟ قال: عسى، وقال: كله طيب.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَمِّهْ الْمَاجِشُونَ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، قَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ". قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ: تَأْخُذُ بِهِ؟ قَالَ: لَا، وَقِيلَ لَهُ: تَقُولُ هَذَا فِي الْفَرِيضَةِ؟ قَالَ: عَسَى، وَقَالَ: كُلُّهُ طَيِّبٌ.
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے تھے: «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْيءٍ بَعْدُ» ۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ یہی کہتے ہیں؟ کہا: نہیں، پوچھا گیا کیا آپ فرض نماز میں اس طرح کہتے ہیں؟ کہا: تقریباً اور بتایا کہ سب کچھ (جو ماثور ہے وہ کہنا) درست ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1348 سے 1351) ان روایات سے معلوم ہوا کہ رکوع سے اٹھتے ہوئے امام و منفرد کا «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَه» کہنا اور سب مقتدی حضرات کا «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» يا «اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہنا نماز کے واجبات میں سے ہے، کیونکہ فرمانِ نبوی ہے: «فقولوا: رَبَّنَا» اور اس کے بعد «حَمْدًا كَثِيْرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيْهِ» یا «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ» کما فی الحدیث کہنا یہ تمام اذکار احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں اس لئے ان کا پڑھنا بھی سنّت ہے، رکوع سے اٹھ کر فوراً بلا کچھ پڑھے سجدے میں چلے جانا خلافِ سنّتِ رسول ہے۔ صلی الله علیہ وسلم۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا بدن بھاری ہو گیا ہے اس لئے مجھ سے پہلے رکوع یا سجدے میں نہ جاؤ، میں تم سے کتنا ہی پہلے رکوع میں جاؤں جب رکوع سے سر اٹھاؤں گا تو تم مجھے پا لو گے، اسی طرح سجدے میں کتنا ہی پہلے جاؤں سر اٹھانے سے پہلے تم مجھے (سجدے میں) پا لو گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1354]» یہ حدیث حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 619]، [ابن ماجه 963]، [ابن حبان 2229]، [الحميدي 613]
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، قال: سمعت ابا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اما يخشى احدكم او الا يخشى احدكم إذا رفع راسه قبل الإمام ان يجعل الله راسه راس حمار او صورته صورة حمار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ أَوْ أَلَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص جو (رکوع یا سجدہ میں) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے، اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دے، یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنا دے۔“
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا زائدة، حدثنا المختار بن فلفل، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم حثهم على الصلاة، ونهاهم ان يسبقوه إذا كان يؤمهم بالركوع والسجود، وان ينصرفوا قبل انصرافه من الصلاة، وقال:"إني اراكم من خلفي وامامي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَثَّهُمْ عَلَى الصَّلَاةِ، وَنَهَاهُمْ أَنْ يَسْبِقُوهُ إِذَا كَانَ يَؤُمُّهُمْ بِالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَأَنْ يَنْصَرِفُوا قَبْلَ انْصِرَافِهِ مِنْ الصَّلَاةِ، وَقَالَ:"إِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ خَلْفِي وَأَمَامِي".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کی ترغیب دی، اور جب وہ آپ کی امامت میں رکوع و سجدہ کریں تو مسابقت سے منع کیا، اور اس سے منع کیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سلام پھیریں، اور فرمایا کہ: ”میں تم کو اپنے پیچھے اور آگے ہر طرف سے دیکھتا ہوں۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 1351 سے 1354) ان روایات سے رکوع اور سجود یا سلام میں امام پر مسابقت کرنے یعنی امام سے پہلے رکوع و سجود میں چلے جانے کی سخت ممانعت ہے، بلکہ علماء نے اسے حرام قرار دیا ہے اور ایسے شخص کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا کہ ”ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سر یا منہ گدھے کا سا بنا دے“، یہ عقوبۃ عاجلہ بھی ہو سکتی ہے اور اخروی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ شارح ترمذی علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی میں دمشق کے ایک محدث کا واقعہ ذکر کیا ہے جو نقاب لگا کر درس دیا کرتے تھے، استفسار پر بتایا کہ میں نے جب یہ حدیث پڑھی تو سوچا یہ تو مستحیل ہے اور عمداً و قصداً امام سے پہلے سر اٹھایا اور اللہ نے واقعی میرا سر ایسا بنا دیا۔ «(اعاذنا اللّٰه وإياكم منه)» اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے یہ بعید نہیں ہے، بعض علماء نے اس سے مراد آخرت میں ایسا ہونا لیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ گدھے کا سا سر ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عقل خبط ہو جائے گی۔ بہرحال یہ بڑی سزا ہے جو دنیا میں ہو یا آخرت میں، حقیقی ہو یا معنوی، ہر صورت میں موجبِ عذاب ہے، اس لئے امام پر سبقت لے جانے یعنی امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں جانے سے ڈرنا اور رک جانا چاہیے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النضر هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن عمرو بن دينار، قال: سمعت طاوسا يحدث، عن ابن عباس، قال:"امر نبيكم صلى الله عليه وسلم ان يسجد على سبعة اعظم، وامر ان لا يكف شعرا ولا ثوبا" قال شعبة: وحدثنيه مرة اخرى قال:"امرت بالسجود، ولا اكف شعرا ولا ثوبا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ طَاوُسًا يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:"أُمِرَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةٍ أَعْظُمٍ، وَأُمِرَ أَنْ لَا يَكُفَّ شَعَرًا وَلَا ثَوْبًا" قَالَ شُعْبَةُ: وَحَدَّثَنِيهِ مَرَّةً أُخْرَى قَالَ:"أُمِرْتُ بِالسُّجُودِ، وَلَا أَكُفَّ شَعَرًا وَلَا ثَوْبًا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ سات اعضاء پر سجدہ کریں، اور نہ بالوں کو سمیٹیں نہ کپڑوں کو۔ شعبہ نے کہا: اور ایک بار عمرو بن دینار نے مجھے اس طرح یہ حدیث بیان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ (سجدے میں) نہ بال سمیٹوں اور نہ کپڑے۔“