(حديث مقطوع) وقال في حديث آخر:"ما ازداد عبد علما، إلا ازداد قصدا، ولا قلد الله عبدا قلادة خيرا من سكينة"..(حديث مقطوع) وَقَالَ فِي حَدِيثٍ آخَرَ:"مَا ازْدَادَ عَبْدٌ عِلْمًا، إِلَّا ازْدَادَ قَصْدًا، وَلَا قَلَّدَ اللَّهُ عَبْدًا قِلَادَةً خَيْرًا مِنْ سَكِينَةٍ"..
اور حسان نے دوسری حدیث میں کہا: کوئی بندہ علم میں جتنی ترقی و اضافہ کرتا ہے، قصد و ارادہ میں صحیح ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو سکون و اطمینان سے بہتر کوئی قلادہ نہیں پہنایا۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 402]» اس روایت کی سند صحیح کہیں اور نہیں مل سکی، لیکن [الحلية 123/5] و [الزهد لابن مبارك 178] میں اس کے ہم معنی روایت موجود ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا القاسم بن كثير، قال: سمعت عبد الرحمن بن شريح يحدث، عن عميرة انه سمعه، يقول: إن رجلا قال لابنه: "اذهب فاطلب العلم، فخرج فغاب عنه ما غاب، ثم جاءه فحدثه باحاديث، فقال له ابوه: يا بني، اذهب فاطلب العلم، فغاب عنه ايضا زمانا، ثم جاء بقراطيس فيها كتب، فقراها عليه، فقال له: هذا سواد في بياض، فاذهب اطلب العلم، فخرج فغاب عنه ما غاب، ثم جاء، فقال لابيه: سلني عما بدا لك، فقال له ابوه: ارايت لو انك مررت برجل يمدحك، ومررت بآخر يعيبك؟، قال: إذا لم الم الذي يعيبني، ولم احمد الذي يمدحني، فقال: ارايت لو مررت بصفيحة؟، قال ابو شريح: لا ادري امن ذهب او ورق، فقال: إذا لم اهيجها ولم اقربها، فقال: اذهب فقد علمت".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمِيرَةَ أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: إِنَّ رَجُلًا قَالَ لِابْنِهِ: "اذْهَبْ فَاطْلُبْ الْعِلْمَ، فَخَرَجَ فَغَابَ عَنْهُ مَا غَابَ، ثُمَّ جَاءَهُ فَحَدَّثَهُ بِأَحَادِيثَ، فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ: يَا بُنَيَّ، اذْهَبْ فَاطْلُبْ الْعِلْمَ، فَغَابَ عَنْهُ أَيْضًا زَمَانًا، ثُمَّ جَاءَ بِقَرَاطِيسَ فِيهَا كُتُبٌ، فَقَرَأَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: هَذَا سَوَادٌ فِي بَيَاضٍ، فَاذْهَبْ اطْلُبْ الْعِلْمَ، فَخَرَجَ فَغَابَ عَنْهُ مَا غَابَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ لِأَبِيهِ: سَلْنِي عَمَّا بَدَا لَكَ، فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّكَ مَرَرْتَ بِرَجُلٍ يَمْدَحُكَ، وَمَرَرْتَ بِآخَرَ يَعِيبُكَ؟، قَالَ: إِذًا لَمْ أَلُمْ الَّذِي يَعِيبُنِي، وَلَمْ أَحْمَدْ الَّذِي يَمْدَحُنِي، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِصَفِيحَةٍ؟، قَالَ أَبُو شُرَيْحٍ: لَا أَدْرِي أَمِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ، فَقَالَ: إِذًا لَمْ أُهَيِّجْهَا وَلَمْ أَقْرَبْهَا، فَقَالَ: اذْهَبْ فَقَدْ عَلِمْتَ".
عمیرہ نے کہا: ایک آدمی نے اپنے بیٹے سے کہا: جاؤ علم حاصل کرو، لڑکا نکلا اور غائب ہو گیا، پھر جب واپس آیا تو باپ سے کچھ احادیث بیان کیں، باپ نے کہا: جاؤ بیٹے (ابھی اور) علم تلاش کرو، کچھ زمانے تک وہ غائب رہا، پھر کچھ کتاب کاغذ لے کر واپس آیا اور اپنے باپ کو پڑھ کر سنائیں، تو باپ نے اس سے کہا: یہ سفیدی میں سیاہی ہے، ابھی جاؤ اورعلم سیکھو، چنانچہ وہ پھر ان کے پاس سے غائب ہو کر چلا گیا، پھر واپس آیا تو اپنے والد سے کہا: ابا جان! اب آپ جو چاہیں مجھ سے سوال کر لیں، اس کے باپ نے کہا: اگر تم کسی آدمی کے پاس سے گزرو جو تمہاری مدح سرائی کرتا ہے اور دوسرا آدمی تمہاری عیب جوئی کرتا ہے تو تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے؟ لڑکے نے جواب دیا: ایسی صورت میں جو عیب جوئی کرے نہ اس کو ملامت کروں گا اور جو مدح سرائی کرتا ہے نہ اس کی تعریف کروں گا۔ باپ نے کہا: اگر تم نے کوئی ورق دیکھا تو کیا کرو گے؟ ابوشریح نے کہا: پتہ نہیں یہ کہا کہ سونے کا ورق یا یہ کہا کہ چاندی کا ورق دیکھو تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا: نہ میں اسے اٹھاؤں گا اور نہ اس کے قریب جاؤں گا۔ باپ نے کہا: جاؤ اب تم عالم بن گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 402]» عمیرہ: ابن ابی ناجیۃ ہیں، اس روایت کی سند صحیح ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔
(حديث مقطوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، اخبرنا بقية، عن السكن بن عمير، قال: سمعت وهب بن منبه، يقول:"يا بني، عليك بالحكمة، فإن الخير في الحكمة كله، وتشرف الصغير على الكبير، والعبد على الحر، وتزيد السيد سؤددا، وتجلس الفقير مجالس الملوك".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ السَّكَنِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ مُنَبِّهٍ، يَقُولُ:"يَا بُنَيَّ، عَلَيْكَ بِالْحِكْمَةِ، فَإِنَّ الْخَيْرَ فِي الْحِكْمَةِ كُلَّهُ، وَتُشَرِّفُ الصَّغِيرَ عَلَى الْكَبِيرِ، وَالْعَبْدَ عَلَى الْحُرِّ، وَتُزِيدُ السَّيِّدَ سُؤْدُدًا، وَتُجْلِسُ الْفَقِيرَ مَجَالِسَ الْمُلُوكِ".
سکن بن عمیر نے کہا: میں نے وہب بن منبہ رحمہ اللہ کو کہتے سنا ہے: بیٹے! حکمت و دانائی کو لازم پکڑو، بیشک تمام تر بھلائی حکمت میں ہے، جو حکمت چھوٹے کو بڑے پر اور غلام کو آزاد پر شرف دلاتی ہے۔ اور مالک کی شرافت میں اضافہ کرتی ہے، اور فقیر کو شاہوں کے مقام پر بٹھاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف بقية مدلس تدليس تسوية ولم يصرح بالتحديث إلى نهاية الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 403]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 625، 626]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف بقية مدلس تدليس تسوية ولم يصرح بالتحديث إلى نهاية الإسناد
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر علماء کے ارشادات نہ ہوتے تو ہم کچھ نہیں ہوتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف بسبب الانقطاع فإن عتبة لم يدرك أبا الدرداء، [مكتبه الشامله نمبر: 404]» اس اثر کی سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور عتبہ بن ابی حکیم نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا، لیکن اس کو خطیب نے [الفقيه 141] میں صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 394 سے 404) ان تمام آثار و اقوال میں علم و حکمت اور دانائی کی باتیں ہیں، نیز ان میں علم حاصل کرنے، اور علم کے ساتھ عمل، اور حصولِ علم میں خلوصِ وللّٰہیت کی ترغیب ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف بسبب الانقطاع فإن عتبة لم يدرك أبا الدرداء
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن ايوب، قال: قال ابو قلابة: "لا تجالسوا اهل الاهواء ولا تجادلوهم، فإني لا آمن ان يغمسوكم في ضلالتهم، او يلبسوا عليكم ما كنتم تعرفون".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: "لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْأَهْوَاءِ وَلَا تُجَادِلُوهُمْ، فَإِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَغْمِسُوكُمْ فِي ضَلَالَتِهِمْ، أَوْ يَلْبِسُوا عَلَيْكُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ".
ابوقلابہ نے کہا: خواہشات کے بندوں (اہل ہوس) کے پاس نہ بیٹھو، اور نہ ان سے تکرار کرو، کیونکہ میں تم کو ان سے محفوظ نہیں سمجھتا کہ وہ تمہیں گمراہی میں ڈبو دیں گے، یا جس چیز کی تم معرفت رکھتے ہو اس میں بھی خلط ملط کر دیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 405]» اس قول کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت [إبانة 363]، [طبقات ابن سعد 134/7] و [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 243] میں اسی سند سے مروی ہے۔ نیز [إبانة 610]، [البدع لابن وضاح 132]، [الشريعة ص: 67] میں دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، قال: رآني سعيد بن جبير جلست إلى طلق بن حبيب، فقال لي: "الم ارك جلست إلى طلق بن حبيب؟ لا تجالسنه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: رَآنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ جَلَسْتُ إِلَى طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، فَقَالَ لِي: "أَلَمْ أَرَكَ جَلَسْتَ إِلَى طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ؟ لَا تُجَالِسَنَّهُ".
ایوب نے کہا: سعید بن جبیر نے مجھے طلق بن حبیب کے پاس بیٹھے دیکھا تو مجھ سے کہا: کیا میں نے تمہیں طلق بن حبیب کے پاس بیٹھے نہیں دیکھا؟ تم (ہرگز) ان کے پاس نہ بیٹھو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 406]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [البدع 145] و [الإبانة 413]
وضاحت: (تشریح احادیث 404 سے 406) سعید بن جبیر نے اس لئے طلق بن حبیب کے پاس بیٹھنے سے منع کیا کیونکہ وہ مرجئہ میں سے تھے اور انہوں نے دین میں نئی باتیں ایجاد کر لی تھیں۔ کلام اور فلسفہ میں ٹامک ٹویاں مارتے تھے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو عاصم، اخبرنا حيوة بن شريح، حدثني ابو صخر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنه، انه جاءه رجل فقال: إن فلانا يقرا عليك السلام، قال: "بلغني انه قد احدث، فإن كان قد احدث، فلا تقرا عليه السلام".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ، قَالَ: "بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ، فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ، فَلَا تَقْرَأْ عَلَيْهِ السَّلَامَ".
نافع سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: کہ فلاں آدمی آپ کو سلام کہتا ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے بدعت ایجاد کی ہے، اگر اس نے ایسا کیا ہے تو میرا سلام اسے نہ کہنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 407]» اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن یہ اثر کہیں اور نہیں مل سکی۔ ابوعاصم کا نام: ضحاک بن مخلد اور ابوصخر: حمید بن زیاد ہیں۔
(حديث مقطوع) اخبرنا مخلد بن مالك، حدثنا عبد الرحمن بن مغراء، حدثنا الاعمش، قال: "كان إبراهيم لا يرى غيبة للمبتدع".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: "كَانَ إِبْرَاهِيمُ لَا يَرَى غِيبَةً لِلْمُبْتَدِعِ".
اعمش نے کہا: امام ابراہیم نخعی بدعتی کے بارے میں کچھ کہنے کو غیبت میں شمار نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات وهذا إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 408]» اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن عبدالرحمن بن مغراء کی اعمش سے روایت میں کلام ہے۔ نیز [شرح اصول اعتقاد أهل السنة 276] میں لالکائی نے اِسے بسند صحیح روایت کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات وهذا إسناده صحيح
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن ابن شبرمة، عن الشعبي، قال: "إنما سمي الهوى لانه يهوي بصاحبه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: "إِنَّمَا سُمِّيَ الْهَوَى لِأَنَّهُ يَهْوِي بِصَاحِبِهِ".
امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: خواہش نفس کا نام «هويٰ» اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ صاحب ھویٰ کو لے کر (جہنم میں) گرتی چلی جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 409]» اس روایت کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [شرح اصول 229]، [حلية الأولياء 320/3]
وضاحت: (تشریح احادیث 406 سے 409) «هَوَيٰ يَهْوِي» کے معنی گرنے کے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا محمد بن واسع، قال: كان مسلم بن يسار، يقول: "إياكم والمراء، فإنها ساعة جهل العالم، وبها يبتغي الشيطان زلته".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ، قَالَ: كَانَ مُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ، يَقُولُ: "إِيَّاكُمْ وَالْمِرَاءَ، فَإِنَّهَا سَاعَةُ جَهْلِ الْعَالِمِ، وَبِهَا يَبْتَغِي الشَّيْطَانُ زَلَّتَهُ".
محمد بن واسع نے کہا کہ مسلم بن یسار فرماتے تھے: اپنے کو مراء (دکھاوے) سے بچاؤ کیونکہ یہ عالم کی نادانی کی گھڑی ہوتی ہے اور شیطان ایسی لغزش کی تلاش میں رہتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 410]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الشريعة ص: 61]، [الحلية 294/2]، [الإبانة 547، 548] اس روایت کی سند میں عفان: ابن مسلم ہیں۔