سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 371
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا بشر بن ثابت البزار، حدثنا حسان بن مسلم، عن يونس بن عبيد، عن الحسن، قال: "لقد طلب اقوام العلم، ما ارادوا به الله تعالي ولا ما عنده، قال: فما زال بهم العلم، حتى ارادوا به الله وما عنده".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "لَقَدْ طَلَبَ أَقْوَامٌ الْعِلْمَ، مَا أَرَادُوا بِهِ اللَّهَ تعَالَيَ وَلَا مَا عِنْدَهُ، قَالَ: فَمَا زَالَ بِهِمْ الْعِلْمُ، حَتَّى أَرَادُوا بِهِ اللَّهَ وَمَا عِنْدَهُ".
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگوں نے علم تلاش کیا حالانکہ وہ اس کے ذریعہ نہ اللہ کا اور نہ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس کا ارادہ رکھتے تھے، فرمایا: وہ علم حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی نیت خالص ہو گئی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور جو اللہ کے پاس ہے اس کی نیت کر لی۔

تخریج الحدیث: «حسان بن مسلم ما وجدت له ترجمة وباقي رجاله ثقات. وما وجدته مسندا في غير هذا الموضع، [مكتبه الشامله نمبر: 372]»
اس روایت میں حسان بن مسلم کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون ہیں، باقی رواة معروفين وثقات ہیں۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1383 ذكره بدون سند]

وضاحت:
(تشریح احادیث 368 سے 371)
ان آثار سے ثابت ہوا کہ شروع میں حصولِ علم کے لئے کوئی مقصد اور نیّت نہ بھی ہو تو علم کی روشنی خلوصِ وللّٰہیت پیدا کر دیتی ہے۔
واضح ہو کہ علم سے مراد علمِ کتاب و سنّت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حسان بن مسلم ما وجدت له ترجمة وباقي رجاله ثقات. وما وجدته مسندا في غير هذا الموضع
34. باب التَّوْبِيخِ لِمَنْ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِغَيْرِ اللَّهِ:
34. بغیر خلوص وللّٰہیت کے جو علم تلاش کرے اس پر ملامت کا بیان
حدیث نمبر: 372
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، قال: قال ابو مسلم الخولاني: "العلماء ثلاثة: فرجل عاش في علمه وعاش معه الناس فيه، ورجل عاش في علمه ولم يعش معه فيه احد، ورجل عاش الناس في علمه وكان وبالا عليه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ: "الْعُلَمَاءُ ثَلَاثَةٌ: فَرَجُلٌ عَاشَ فِي عِلْمِهِ وَعَاشَ مَعَهُ النَّاسُ فِيهِ، وَرَجُلٌ عَاشَ فِي عِلْمِهِ وَلَمْ يَعِشْ مَعَهُ فِيهِ أَحَدٌ، وَرَجُلٌ عَاشَ النَّاسُ فِي عِلْمِهِ وَكَانَ وَبَالًا عَلَيْهِ".
ابومسلم خولانی رحمہ اللہ نے فرمایا: علماء کی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ آدمی جو علم میں زندگی بسر کرے اور اسی میں اس کے ساتھ دوسرے لوگ زندگی گزاریں، دوسرا وہ شخص جو خود تو علمی دنیا میں رہے لیکن اس کے ساتھ اور کوئی نہ ہو، تیسرا وہ شخص کہ لوگ اس کے علم سے فائدہ اٹھائیں اور (وہ خود بےعمل ہو) علم اس پر وبال ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 373]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ مزید دیکھئے: [المصنف 17547]، [حلية الأولياء 121/5 و 283/2]، [الجامع لمعمر 20472]، [جامع بيان العلم 1546]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 373
Save to word اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن عثمان بن الاسود، عن عطاء، قال: قال موسى عليه السلام:"يا رب، اي عبادك احكم؟، قال: الذي يحكم للناس كما يحكم لنفسه، قال: يا رب، اي عبادك اغنى؟، قال: ارضاهم بما قسمت له، قال: يا رب، اي عبادك اخشى لك؟، قال: اعلمهم بي".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: قَالَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ:"يَا رَبِّ، أَيُّ عِبَادِكَ أَحْكَمُ؟، قَالَ: الَّذِي يَحْكُمُ لِلنَّاسِ كَمَا يَحْكُمُ لِنَفْسِهِ، قَالَ: يَا رَبِّ، أَيُّ عِبَادِكَ أَغْنَى؟، قَالَ: أَرْضَاهُمْ بِمَا قَسَمْتُ لَهُ، قَالَ: يَا رَبِّ، أَيُّ عِبَادِكَ أَخْشَى لَكَ؟، قَالَ: أَعْلَمُهُمْ بِي".
عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اے رب! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ دانا و بینا کون ہے؟ فرمایا: وہی جو لوگوں کے لئے بھی وہی فیصلہ کرتا ہے جو اپنے نفس کے لئے فیصلہ کرتا ہے۔ عرض کیا: اے رب! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ غنی کون ہے؟ فرمایا: جو سب سے زیادہ اپنی قسمت سے راضی ہو۔ عرض کیا: اے رب! تیرے بندوں میں سب سے زیادہ خشیت والا کون ہے؟ فرمایا: جو سب سے زیادہ میرے بارے میں علم والا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عطاء وهو منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 374]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن منقطع ہے اور [الزهد لابن المبارك 223، 533] و [العلم لأبي خيثمة 86] میں مذکور ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عطاء وهو منقطع
حدیث نمبر: 374
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، قال: "كان يقال العلماء ثلاثة: عالم بالله يخشى الله ليس بعالم بامر الله، وعالم بالله عالم بامر الله يخشى الله، فذاك العالم الكامل، وعالم بامر الله ليس بعالم بالله لا يخشى الله، فذلك العالم الفاجر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: "كَانَ يُقَالُ الْعُلَمَاءُ ثَلَاثَةٌ: عَالِمٌ بِاللَّهِ يَخْشَى اللَّهَ لَيْسَ بِعَالِمٍ بِأَمْرِ اللَّهِ، وَعَالِمٌ بِاللَّهِ عَالِمٌ بِأَمْرِ اللَّهِ يَخْشَى اللَّهَ، فَذَاكَ الْعَالِمُ الْكَامِلُ، وَعَالِمٌ بِأَمْرِ اللَّهِ لَيْسَ بِعَالِمٍ بِاللَّهِ لَا يَخْشَى اللَّهَ، فَذَلِكَ الْعَالِمُ الْفَاجِرُ".
سفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: کہا جاتا ہے کہ علماء تین قسم کے ہیں: ایک تو وہ جو اللہ کا علم رکھتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے، لیکن اللہ کے حکم سے لا علم ہے۔ دوسرا اللہ کو جانے والا، اور اللہ کے حکم کا عالم، اللہ سے ڈرتا بھی ہے، یہ کامل عالم (دین) ہے، تیسرا اللہ کے حکم کو جاننے والا الله کو نہ جانے نہ اس سے ڈرے، یہ عالم فاجر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 375]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شعب الايمان 1919]، [حلية الأولياء 280/7]، [جامع بيان العلم 1543]، [الدر المنثور 250/5] و [تفسير ابن كثير 531/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 375
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا مكي بن إبراهيم، حدثنا هشام، عن الحسن، قال: "العلم علمان: فعلم في القلب فذلك العلم النافع، وعلم على اللسان فذلك حجة الله على ابن آدم"..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "الْعِلْمُ عِلْمَانِ: فَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ فَذَلِكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ، وَعِلْمٌ عَلَى اللِّسَانِ فَذَلِكَ حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ آدَمَ"..
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ علم دو طرح کا ہے، جو علم دل میں گھر کر جائے یہ علم نافع ہے، دوسرا علم (جو صرف) زبان تک رہے تو یہ علم ابن آدم پر اللہ کی طرف سے حجت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 376]»
یہ اثر امام حسن بصری رحمہ اللہ پر موقوف ہے، اور ان تک سند صحیح ہے۔ مزید دیکھئے: [المصنف 235/13]، [تاريخ بغداد 346/4]، [العلل المتناهية 88]

وضاحت:
(تشریح احادیث 371 سے 375)
یعنی جو علم صرف زبان تک محدود رہے اور دل میں نہ بیٹھے تو عمل سے قاصر رہے گا اور کوئی فائدہ نہ دے گا، اس لئے علم کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن وهو موقوف عليه
حدیث نمبر: 376
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا عاصم بن يوسف، عن فضيل بن عياض، عن هشام، عن الحسن، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثل ذلك..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عِيَاضٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَ ذَلِكَ..
حسن رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ بالا نص کے مثل روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 377]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دوسری جگہ یہ روایت نہیں مل سکی، نیز مذکورہ بالا تخریج دیکھئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 377
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد بن عبد الله، عن يزيد بن ابي زياد، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: "تعلموا، تعلموا، فإذا علمتم، فاعملوا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "تَعَلَّمُوا، تَعَلَّمُوا، فَإِذَا عَلِمْتُمْ، فَاعْمَلُوا".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم سیکھو، علم سیکھو، اور جب علم حاصل کر لو تو عمل کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 378]»
اس اثر کی سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [المصنف 294/13، 16394]، [اقتضاء العلم والعمل للخطيب 10]، [جامع بيان العلم 1266]، [حلية الأولياء 131/1] سب نے اسی طریق سے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد
حدیث نمبر: 378
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو عبيد القاسم بن سلام، حدثنا ابو إسماعيل هو إبراهيم بن سليمان المؤدب، عن عاصم الاحول، عمن حدثه، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: "من طلب العلم لاربع، دخل النار او نحو هذه الكلمة: ليباهي به العلماء، او ليماري به السفهاء، او ليصرف به وجوه الناس إليه، او لياخذ به من الامراء".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَّامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيل هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَدِّبُ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِأَرْبَعٍ، دَخَلَ النَّارَ أَوْ نَحْوَ هَذِهِ الْكَلِمَةِ: لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ لِيَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ، أَوْ لِيَأْخُذَ بِهِ مِنْ الْأُمَرَاءِ".
سیدنا عبدالله مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے چار چیزوں کے لئے علم طلب کیا وہ جہنم میں چلا گیا۔ یا اسی طرح کا جملہ کہا (وہ چیزیں یہ ہیں): تاکہ اس علم کے ذریعہ علماء پر گھمنڈ کرے، یا بے وقوف جاہلوں سے اس کے ذریعہ تکرار کرے، لڑے، یا اس کے ذریعہ لوگوں کے (دل) چہرے اپنی طرف موڑ لے، یا اس علم کے ذریعہ امراء سے کچھ حاصل کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة وهو موقوف على عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 379]»
اس اثر کی سند ضعیف اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [المطالب العالية 3028] و اثر رقم (384، 385) اس کے شواہد [مجمع الزوائد 875] میں موجود ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة وهو موقوف على عبد الله
حدیث نمبر: 379
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سعد بن عامر، عن هشام صاحب الدستوائي، قال: قرات في كتاب بلغني انه من كلام عيسى عليه السلام: "تعملون للدنيا، وانتم ترزقون فيها بغير عمل، ولا تعملون للآخرة، وانتم لا ترزقون فيها إلا بالعمل، ويلكم علماء السوء: الاجر تاخذون، والعمل تضيعون، يوشك رب العمل ان يطلب عمله، وتوشكون ان تخرجوا من الدنيا العريضة إلى ظلمة القبر وضيقه، الله ينهاكم عن الخطايا، كما امركم بالصلاة والصيام، كيف يكون من اهل العلم من سخط رزقه، واحتقر منزلته، وقد علم ان ذلك من علم الله وقدرته؟ كيف يكون من اهل العلم من اتهم الله فيما قضى له، فليس يرضى شيئا اصابه؟ كيف يكون من اهل العلم من دنياه آثر عنده من آخرته، وهو في الدنيا افضل رغبة؟ كيف يكون من اهل العلم من مصيره إلى آخرته، وهو مقبل على دنياه، وما يضره اشهى إليه، او قال: احب إليه مما ينفعه؟ كيف يكون من اهل العلم من يطلب الكلام ليخبر به، ولا يطلبه ليعمل به؟".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعْدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتَوَائِيِّ، قَالَ: قَرَأْتُ فِي كِتَابٍ بَلَغَنِي أَنَّهُ مِنْ كَلَامِ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلامُ: "تَعْمَلُونَ لِلدُّنْيَا، وَأَنْتُمْ تُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ عَمَلٍ، وَلَا تَعْمَلُونَ لِلْآخِرَةِ، وَأَنْتُمْ لَا تُرْزَقُونَ فِيهَا إِلَّا بِالْعَمَلِ، ويْلَكُمْ عُلَمَاءَ السَّوْءِ: الْأَجْرَ تَأْخُذُونَ، وَالْعَمَلَ تُضَيِّعُونَ، يُوشِكُ رَبُّ الْعَمَلِ أَنْ يَطْلُبَ عَمَلَهُ، وَتُوشِكُونَ أَنْ تَخْرُجُوا مِنْ الدُّنْيَا الْعَرِيضَةِ إِلَى ظُلْمَةِ الْقَبْرِ وَضِيقِهِ، اللَّهُ يَنْهَاكُمْ عَنْ الْخَطَايَا، كَمَا أَمَرَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصِّيَامِ، كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ سَخِطَ رِزْقَهُ، وَاحْتَقَرَ مَنْزِلَتَهُ، وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ؟ كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ اتَّهَمَ اللَّهَ فِيمَا قَضَى لَهُ، فَلَيْسَ يَرْضَى شَيْئًا أَصَابَهُ؟ كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ دُنْيَاهُ آثَرُ عِنْدَهُ مِنْ آخِرَتِهِ، وَهُوَ فِي الدُّنْيَا أَفْضَلُ رَغْبَةً؟ كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ مَصِيرُهُ إِلَى آخِرَتِهِ، وَهُوَ مُقْبِلٌ عَلَى دُنْيَاهُ، وَمَا يَضُرُّهُ أَشْهَى إِلَيْهِ، أَوْ قَالَ: أَحَبُّ إِلَيْهِ مِمَّا يَنْفَعُهُ؟ كَيْفَ يَكُونُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مَنْ يَطْلُبُ الْكَلَامَ لِيُخْبِرَ بِهِ، وَلَا يَطْلُبُهُ لِيَعْمَلَ بِهِ؟".
ہشام دستوائی کے شاگرد نے کہا: میں نے کسی کتاب میں پڑھا، مجھے خبر ملی کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کا کلام ہے: تم دنیا کے لئے کام کرتے ہو اور تم کو اس دنیا میں بنا عمل کے رزق مہیا کیا جاتا ہے۔ اور تم آخرت کے لئے عمل نہیں کرتے ہو حالانکہ آخرت میں تم کو عمل کے عوض ہی رزق دیا جائے گا۔ علمائے سوء تمہاری خرابی ہو، اجرت لے لیتے ہو اور عمل ضائع کر دیتے ہو، قریب ہے کہ رب (العمل) اپنا کام طلب کر لے اور تم قریب ہے کہ اس وسیع دنیا سے نکل کر اندھیری اور تنگ قبر کی طرف چلے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تم کو گناہوں سے منع کرتا ہے، جس طرح تم کو صلاة و صيام کا حکم دیتا ہے۔ وہ آدمی کیسے اہل علم میں سے ہو سکتا ہے جو اپنے رزق سے ناراض اور اپنے مقام کو حقیر جانے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت سے ہے، وہ آدمی کیسے اہل علم میں سے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جو فیصلہ کر دیا ہے اس پر الله کو الزام دے، اور جو چیز اللہ کی طرف سے اسے ملی اس پر راضی نہ ہو، وہ آدمی کیسے اہل علم میں سے ہو گا جس کے نزدیک اس کی دنیا آخرت سے زیادہ راجح ہو اور وہ دنیا کی زیادہ رغبت رکھے۔ وہ آدمی کیسے علماء میں سے ہو گا جس کا ٹھکانہ آخرت ہو لیکن وہ دنیا کی طرف متوجہ رہے، اور جو (چیز) اسے نقصان دے اس کی زیادہ خواہش رکھے، یا جو اس کو نفع دے اس سے زیادہ محبوب ہو، وہ کیسے اہل علم میں سے ہو گا جو علم طلب کرے تاکہ اس کو عام کرے اور عمل کے لئے علم طلب نہ کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 380]»
اس روایت کی سند میں اعضال ہے۔ دیکھئے: [حلية الاولياء 279/6]، [الزهد لأحمد 75]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل
حدیث نمبر: 380
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا حريز، عن حبيب بن عبيد، قال: كان يقال: "تعلموا العلم وانتفعوا به، ولا تعلموه لتتجملوا به، فإنه يوشك إن طال بكم عمر، ان يتجمل ذو العلم بعلمه، كما يتجمل ذو البزة ببزته".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا حَرِيزٌ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ: "تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَانْتَفِعُوا بِهِ، وَلَا تَعَلَّمُوهُ لِتَتَجَمَّلُوا بِهِ، فَإِنَّهُ يُوشِكُ إِنْ طَالَ بِكُمْ عُمُرٌ، أَنْ يَتَجَمَّلَ ذُو الْعِلْمِ بِعِلْمِهِ، كَمَا يَتَجَمَّلُ ذُو الْبِزَّةِ بِبِزَّتِهِ".
حبیب بن عبید نے کہا: کہا جاتا ہے علم سیکھو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ، اور علم اس لئے نہ حاصل کرو کہ اس سے زیب و زینت حاصل کرو، اگر تمہاری عمر دراز ہو تو قریب ہے (کہ تم دیکھو) عالم اپنے علم سے خوبصورتی حاصل کرے گا جس طرح پارچہ فروش پارچے (کپڑے) سے زیب و زینت حاصل کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 381]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الزهد لأحمد ص: 386]، [الزهد لابن المبارك 1345] و [حلية الاولياء 102/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    34    35    36    37    38    39    40    41    42    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.