ابوالبختری اور زاذان نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنی کلیجے کی ٹھنڈک ہے کہ جب مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جس کا مجھ کو علم نہیں اور میں کہدوں «الله أعلم»”اللہ زیادہ جاننے والا ہے“۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 181]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1405]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء
ابوالبختری نے روایت کیا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنا ہی اچھا ہو (کلیجے میں ٹھنڈک ہو) جس چیز کو تم نہ جانتے ہو کہدو: «الله أعلم»
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف شريك متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 182]» اس قول کی سند بھی ضعیف ہے۔ ابوالبختری کا نام سعید بن فیروز ہے جن کا لقاء سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ یہ روایت [الفقيه والمتفقه 71/2] میں کئی طرق سے موجود ہے، اور اس کے صحیح شواہد بھی موجود ہیں، معنی بھی صحیح ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف شريك متأخر السماع من عطاء
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا عمير بن عرفجة، حدثنا رزين ابو النعمان، عن علي رضي الله عنه بن ابي طالب، قال: "إذا سئلتم عما لا تعلمون، فاهربوا"، قالوا: وكيف الهرب يا امير المؤمنين؟، قال:"تقولون: الله اعلم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا عُمَيْرُ بْنُ عَرْفَجَةَ، حَدَّثَنَا رَزِينٌ أَبُو النُّعْمَانِ، عَنْ عَلِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: "إِذَا سُئِلْتُمْ عَمَّا لَا تَعْلَمُونَ، فَاهْرُبُوا"، قَالُوا: وَكَيْفَ الْهَرَبُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟، قَالَ:"تَقُولُونَ: اللَّهُ أَعْلَمُ".
ابونعمان رزین سے مروی ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سے جب ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جس کا تمہیں علم نہیں، تو اس کے جواب سے دور بھاگو۔ رزین نے کہا: امیر المؤمنین! بتایئے کیسے بھاگیں؟ فرمایا: «الله أعلم» کہہ دو۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 183]» اس کو صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے۔ نیز دیکھئے: مذکورہ بالا تخریج۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن منصور، عن مسلم البطين، عن عزرة التميمي، قال: قال علي رضي الله عنه: "وا بردها على الكبد، ثلاث مرات"، قالوا: وما ذلك يا امير المؤمنين؟، قال:"ان يسال الرجل عما لا يعلم، فيقول: الله اعلم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ عَزْرَةَ التَّمِيمِيِّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "وَا بَرْدَهَا عَلَى الْكَبِدِ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"، قَالُوا: وَمَا ذَلِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟، قَالَ:"أَنْ يُسْأَلَ الرَّجُلُ عَمَّا لَا يَعْلَمُ، فَيَقُولُ: اللَّهُ أَعْلَمُ".
عزرہ تمیمی سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تین بار فرمایا: کلیجے کی ٹھنڈک ہے، لوگوں نے کہا: کیا چیز اے امیر المؤمنین؟ فرمایا: یہ کہ آدمی سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جس کا اسے علم نہیں اور وہ کہدے: «الله أعلم»
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 184]» یہ اثر ضعیف ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1569] و [المدخل للبيهقي 794] اس کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 179 سے 184) ان تمام آثار میں «اللّٰه أعلم» کہدینے سے قلبی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اس کا ذکر ہے، اور انسان بے جا تکلف سے بچ جاتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا فروة بن ابي المغراء، اخبرنا علي بن مسهر، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رجلا ساله عن مسالة فقال: لا علم لي بها، فلما ادبر الرجل، قال بن عمر: "نعم ما قال ابن عمر، سئل عما لا يعلم، فقال: لا علم لي به".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَقَالَ: لَا عِلْمَ لِي بِهَا، فَلَمَّا أَدْبَرَ الرَّجُلُ، قَالَ بْنُ عُمَرَ: "نِعْمَ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ، سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ، فَقَالَ: لَا عِلْمَ لِي بِهِ".
ہشام بن عروہ نے اپنے باپ (عروة) سے روایت کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کوئی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھے اس کا علم نہیں، جب وہ آدمی چلا گیا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ابن عمر نے جو کہا وہ ٹھیک ہے، ایسی چیز کے بارے میں ان سے پوچھا گیا جس کا انہیں علم نہیں تو کہہ دیا: مجھے اس کا علم نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 185]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الفقيه والمتفقه 172/2]، [جامع بيان العلم 1563]، [المعرفة والتاريخ 493/1]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد الله العمري، عن نافع، ان رجلا اتى ابن عمر يساله عن شيء، فقال: "لا علم لي، ثم التفت بعد ان قفي الرجل، فقال: نعم ما قال ابن عمر! يسال عما لا يعلم، فقال: لا علم لي"، يعني: ابن عمر نفسه.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى ابْنَ عُمَرَ يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: "لَا عِلْمَ لِي، ثُمَّ الْتَفَتَ بَعْدَ أَنْ قَفَّي الرَّجُلُ، فَقَالَ: نِعْمَ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ! يُسْأَلُ عَمَّا لَا يَعْلَمُ، فَقَالَ: لَا عِلْمَ لِي"، يَعْنِي: ابْنُ عُمَرَ نَفْسَهُ.
نافع نے کہا: ایک آدمی آیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں، پھر جب وہ آدمی چلا گیا تو انہوں نے مڑ کر کہا: ابن عمر نے جو کہا وہ درست ہے۔ ان سے اس چیز کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جس کا انہیں علم نہیں تو انہوں نے کہہ دیا: مجھے معلوم نہیں (یعنی خود ان سے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 187]» اس روایت کی سند حسن ہے، اوپر دوسری صحیح سند بھی گزر چکی ہے۔ دیکھئے رقم (185)
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن مغيرة، قال: "كان عامر إذا سئل عن شيء، يقول: لا ادري، فإن ردوا عليه، قال: إن شئت كنت حلفت لك بالله إن كان لي به علم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، قَالَ: "كَانَ عَامِرٌ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ، يَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَإِنْ رُدُّوا عَلَيْهِ، قَالَ: إِنْ شِئْتَ كُنْتُ حَلَفْتُ لَكَ بِاللَّهِ إِنْ كَانَ لِي بِهِ عِلْمٌ".
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عامر الشعبی رضی اللہ عنہ سے جب کسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ کہہ دیتے تھے «لا أدري»(میں نہیں جانتا ہوں)، اگر دوبارہ پوچھا جاتا تو سختی سے کہتے: میں تمہارے لئے اللہ کی قسم کھاتا ہوں اگر مجھے اس کا علم ہو (یعنی قسم اللہ کی مجھے اس کا علم نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 188]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ خطیب نے [الفقيه والمتفقه 184/2] میں اس روایت کو ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد
(حديث مقطوع) اخبرنا هارون بن معاوية، عن حفص، عن اشعث، عن ابن سيرين، قال: "ما ابالي سئلت عما اعلم او ما لا اعلم، لاني إذا سئلت عما اعلم، قلت ما اعلم، وإذا سئلت عما لا اعلم قلت: لا اعلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: "مَا أُبَالِي سُئِلْتُ عَمَّا أَعْلَمُ أَوْ مَا لَا أَعْلَمُ، لِأَنِّي إِذَا سُئِلْتُ عَمَّا أَعْلَمُ، قُلْتُ مَا أَعْلَمُ، وَإِذَا سُئِلْتُ عَمَّا لَا أَعْلَمُ قُلْتُ: لَا أَعْلَمُ".
اشعث رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: مجھ سے سوال کیا جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ میں جانتا ہوں یا نہیں۔ اس لئے کہ جس چیز کے بارے میں سوال کیا جا تا ہے جانتا ہوں تو اسی کے مطابق جواب دیتا ہوں، نہیں جانتا تو کہدیتا ہوں «لا أعلم» کہ میں نہیں جانتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 189]» اس روایت کی سند صحیح ہے، اور صرف امام دارمی نے اسے روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 184 سے 189) سبحان اللہ کیا سادگی اور تواضع ہے، عامر الشعبی بڑے پائے کے عالم ہیں لیکن کتنی سادگی سے کہتے ہیں: میں سوال سے گھبراتا نہیں اور نہ تکلف سے کام لیتا ہوں، کیوں کہ جو معلوم ہے وہ بتا دیتا ہوں، معلوم نہیں تو کہہ دیتا ہوں کہ مجھے اس کا علم نہیں۔
(حديث مقطوع) حدثنا هارون، عن حفص، عن الاعمش، قال: "ما سمعت إبراهيم يقول قط: حلال ولا حرام، إنما كان يقول: كانوا يتكرهون، وكانوا يستحبون".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: "مَا سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ قَطُّ: حَلَالٌ وَلَا حَرَامٌ، إِنَّمَا كَانَ يَقُولُ: كَانُوا يَتَكْرَهُونَ، وَكَانُوا يَسْتَحِبُّونَ".
اعمش سے مروی ہے کہ میں نے امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کو کبھی یہ کہتے نہیں سنا کہ یہ حلال اور یہ حرام ہے، بلکہ وہ کہتے تھے لوگ اسے مکروہ کہتے تھے یا لوگ اسے مستحب سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 190]» اس روایت کی سند بھی صحیح ہے، لیکن امام دارمی کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 189) ان روایات سے ان فقہاء و محدثین اور علمائے حدیث کا مسئلے مسائل میں عدم تکلف اور اظہارِ حقیقت اور ان پاک نفوس کی فضیلت و اعلی مقام کا ثبوت ملتا ہے۔