سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 111
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سعيد بن عامر، عن ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن علقمة، قال: جاء رجل إلى عبد الله، فقال: إنه طلق امراته البارحة ثمانيا، قال: بكلام واحد؟، قال: بكلام واحد، قال: فيريدون ان يبينوا منك امراتك؟ قال: نعم، قال: وجاءه رجل، فقال: إنه طلق امراته مائة طلقة قال: بكلام واحد؟، قال: بكلام واحد، قال: فيريدون ان يبينوا منك امراتك؟، قال: نعم، فقال عبد الله: "من طلق كما امره الله، فقد بين الله الطلاق ومن لبس على نفسه، وكلنا به لبسه والله لا تلبسون على انفسكم ونتحمله نحن، هو كما تقولون".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَارِحَةَ ثَمَانِيًا، قَالَ: بِكَلَامٍ وَاحِدٍ؟، قَالَ: بِكَلَامٍ وَاحِدٍ، قَالَ: فَيُرِيدُونَ أَنْ يُبِينُوا مِنْكَ امْرَأَتَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ مِائَةَ طَلْقَةٍ قَالَ: بِكَلَامٍ وَاحِدٍ؟، قَالَ: بِكَلَامٍ وَاحِدٍ، قَالَ: فَيُرِيدُونَ أَنْ يُبِينُوا مِنْكَ امْرَأَتَكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: "مَنْ طَلَّقَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ، فَقَدْ بَيَّنَ اللَّهُ الطَّلَاقَ وَمَنْ لَبَّسَ عَلَى نَفْسِهِ، وَكَّلْنَا بِهِ لَبْسَهُ وَاللَّهِ لَا تُلَبِّسُونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَنَتَحَمَّلُهُ نَحْنُ، هُوَ كَمَا تَقُولُونَ".
علقمہ نے کہا ایک آدمی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے پچھلی شب اپنی بیوی کو آٹھ طلاق دے دیں، پوچھا ایک بار میں؟ کہا: ایک کلمہ میں۔ پوچھا وہ تم سے تمہاری بیوی جدا کرانا چاہتے ہیں، کہا: ہاں۔ راوی نے کہا پھر دوسرا آدمی آیا کہ اس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں داغ دی ہیں، پوچھا ایک بار میں؟ کہا: ہاں (یعنی یہ کہا میں نے سو طلاق دیں)۔ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تو لوگ طلاق بائنہ سمجھ کر تمہاری بیوی کو جدا کرانا چاہتے ہیں، عرض کیا جی ہاں، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق (ایک ایک کر کے) طلاق دی تو اللہ تعالیٰ نے اسے بیان فرما دیا ہے، اور جس نے خلط ملط کیا ہم نے اسے اسی خلط کے حوالے کر دیا، واللہ گڑبڑ تم کرتے ہو اس کا بوجھ ہم اٹھائیں اب فیصلہ ویسا ہی ہے جیسا تم کر چکے ہو یعنی (طلاق بائن ہوگئی)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 111]»
اس اثر کی سند صحیح ہے اور معجم الكبير [9628] و سنن البيهقي [335/7] میں یہ روایت موجود ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 11343]

وضاحت:
(تشریح حدیث 110)
یہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے اصل «الطلاق مرتان» ہے، باری باری ایک ایک طلاق دینا، لیکن جب لوگوں نے نص قرآنی سے کھلواڑ شروع کر دی اور ان گنت طلاق دینے لگے تو انہوں نے کہا: اگر ایک ساتھ تین یا تین سے زیادہ طلاق دی گئی تو طلاق بائن ہو جائے گی۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس طرح طلاقِ ثلاثہ کو رائج کیا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 112
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن القاسم، قال: "لان يعيش الرجل جاهلا بعد ان يعلم حق الله عليه خير له من ان يقول ما لا يعلم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، قَالَ: "لَأَنْ يَعِيشَ الرَّجُلُ جَاهِلًا بَعْدَ أَنْ يَعْلَمَ حَقَّ اللَّهِ عَلَيْهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَقُولَ مَا لَا يَعْلَمُ".
قاسم نے کہا: اللہ تعالیٰ کے حق کو اپنے اوپر جاننے کے بعد آدمی اگر جاہل بن کر جیئے تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ جو جانتا نہیں ہے اس کے متعلق کچھ کہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 112]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 184/2]، [العلم لأبي خيثمة 90]، [المعرفة والتاريخ ليعقوب الفسوي 548/1]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 113
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، قال: سمعت القاسم سئل، قال: "إنا والله ما نعلم كل ما تسالون عنه، ولو علمنا ما كتمناكم، ولا حل لنا ان نكتمكم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ سُئْلُ، قَالَ: "إِنَّا وَاللَّهِ مَا نَعْلَمُ كُلَّ مَا تَسْأَلُونَ عَنْهُ، وَلَوْ عَلِمْنَا مَا كَتَمْنَاكُمْ، وَلَا حَلَّ لَنَا أَنْ نَكْتُمَكُمْ".
ایوب نے کہا: میں نے قاسم کو سنا، ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: والله ہم کو ان تمام چیزوں کا علم نہیں ہے جو تم ہم سے پوچھتے ہو، اور اگر ہمیں علم ہوتا تو ہم نہ تم سے چھپاتے اور نہ ہی ہمارے لئے چھپانا جائز ہوتا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 113]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: مذکورہ بالا مصادر، و [الفقيه 173/2] و [جامع بيان العلم 1410] و [العلم لأبي خيثمة 141]

وضاحت:
(تشریح احادیث 111 سے 113)
اس قول میں قاسم بن محمد رحمۃ الله علیہ کی تواضع عجز و انکساری اور اس آیت کی طرف اشارہ ہے: « ﴿وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ [اسراء: 85] » تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
نیز اس سے ان کے بغیر علم کچھ کہنے میں شدتِ احتیاط کا بھی اظہار ہے اور یہ قاسم رحمہ اللہ ابن محمد بن ابی بکر الصدیق ہیں جنہوں نے اپنی پھوپھی اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش پائی، اور ان سے علم حاصل کیا، اور مدینہ کے کبار فقہاء میں شمار ہوئے، ابن سعد نے ان کے بارے میں کہا: «كان إماما فقيها، ثقة رفيعا و رعًا كثير الحديث»، اور ایوب السختیانی رحمہ اللہ نے کہا: میں نے قاسم سے افضل کسی شخص کو نہ دیکھا۔
[تذکره الحفاظ: 96/1]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 114
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن ابن عون، قال: سئل القاسم عن شيء قد سماه، فقال: "ما اضطر إلى مشورة، وما انا من ذي في شيء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: سُئِلَ الْقَاسِمُ عَنْ شَيْءٍ قَدْ سَمَّاهُ، فَقَالَ: "مَا أَضْطَرُّ إِلَى مَشُورَةٍ، وَمَا أَنَا مِنْ ذَي فِي شَيْءٍ".
عبدالله بن عون نے کہا: قاسم (بن محمد الفقیہ) سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: نہ مجھے مشورے کی ضرورت ہے اور نہ میں اس کے لائق ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 114]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 139/5]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 115
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن كثير، عن سفيان بن عيينة، عن يحيى، قال: قلت للقاسم: ما اشد علي ان تسال عن الشيء لا يكون عندك وقد كان ابوك إماما، قال: "إن اشد من ذلك عند الله وعند من عقل عن الله ان افتي بغير علم، او اروي عن غير ثقة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: قُلْتُ لِلْقَاسِمِ: مَا أَشَدَّ عَلَيَّ أَنْ تُسْأَلَ عَنْ الشَّيْءِ لَا يَكُونُ عِنْدَكَ وَقَدْ كَانَ أَبُوكَ إِمَامًا، قَالَ: "إِنَّ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ مَنِ عَقَلَ عَنْ اللَّهِ أَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، أَوْ أَرْوِيَ عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ".
یحییٰ نے کہا میں نے قاسم سے کہا: میرے اوپر بڑا شاق گزرتا ہے آپ سے کوئی سوال کیا جائے اور آپ اس سے لاعلمی کا اظہار کریں حالانکہ آپ کے والد امام وقت تھے۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ کے اور اس کے نزدیک جسے اللہ تعالیٰ کے بارے میں عقل و سمجھ ہے اس سے بھی زیادہ شاق اور شدید (سخت امر) یہ ہے کہ میں بنا علم فتویٰ دوں یا غیر ثقہ راوی سے کچھ روایت کروں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 115]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ محمد بن کثیر کی وجہ سے، لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مقدمة صحيح مسلم 16/1]، [معرفة السنن والآثار 141/1]

وضاحت:
(تشریح احادیث 113 سے 115)
اس سے معلوم ہوا کہ: انہیں کسی سوال کے جواب میں «لا ادري» یا «لا اعلم» یعنی مجھے اس کا علم نہیں کہنے میں کوئی عار نہ تھا، حالانکہ وہ بھی اپنے وقت کے بہت بڑے عالم اورفقیہ تھے، اس سے ان کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
نیز غیر ثقہ راوی سے حدیث روایت کرنے کی کراہت بھی معلوم ہوتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 116
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا هشيم، عن العوام، عن المسيب بن رافع، قال: "كانوا إذا نزلت بهم قضية ليس فيها من رسول الله صلى الله عليه وسلم اثر، اجتمعوا لها واجمعوا، فالحق فيما راوا، فالحق فيما راوا"..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ الْعَوَّامِ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: "كَانُوا إِذَا نَزَلَتْ بِهِمْ قَضِيَّةٌ لَيْسَ فِيهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَثَرٌ، اجْتَمَعُوا لَهَا وَأَجْمَعُوا، فَالْحَقُّ فِيمَا رَأَوْا، فَالْحَقُّ فِيمَا رَأَوْا"..
مسیّب بن رافع نے کہا کہ جب لوگوں کو کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اثر منقول نہیں ہوتا تو اس کے لئے سب جمع ہوتے اور اجماع قائم ہوتا اور حق وہی ہے جو ان کی رائے ہوتی، حق وہی ہے جس پر انہوں نے اجماع کیا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 116]»
اس قول کی نسبت مسیّب بن رافع کی طرف صحیح نہیں ہے، کیونکہ ہشیم مدلس ہیں اور «عن» سے روایت کیا ہے۔ اس قول کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1824] میں ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 117
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله، اخبرنا يزيد، عن العوام بهذا..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، عَنْ الْعَوَّامِ بِهَذَا..
دوسری سند سے عوام بن حوشب نے بھی ایسا ہی ذکر کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف هشيم مدلس وقد عنعن وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 117]»
0

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف هشيم مدلس وقد عنعن وباقي رجاله ثقات
حدیث نمبر: 118
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، ومحمد بن المبارك، قالا: حدثنا يحيى بن حمزة، حدثنا ابو سلمة الحمصي، ان وهب بن عمرو الجمحي حدثه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا تعجلوا بالبلية قبل نزولها، فإنكم إن لا تعجلوها قبل نزولها، لا ينفك المسلمون وفيهم إذا هي نزلت من إذا قال، وفق وسدد، وإنكم إن تعجلوها، تختلف بكم الاهواء، فتاخذوا هكذا وهكذا، واشار بين يديه وعن يمينه وعن شماله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْحِمْصِيُّ، أَنَّ وَهْبَ بْنَ عَمْرٍو الْجُمَحِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا تَعْجَلُوا بِالْبَلِيَّةِ قَبْلَ نُزُولِهَا، فَإِنَّكُمْ إِنْ لَا تَعْجَلُوهَا قَبْلَ نُزُولِهَا، لَا يَنْفَكُّ الْمُسْلِمُونَ وَفِيهِمْ إِذَا هِيَ نَزَلَتْ مَنْ إِذَا قَالَ، وُفِّقَ وَسُدِّدَ، وَإِنَّكُمْ إِنْ تَعْجَلُوهَا، تَخْتَلِفْ بِكُمْ الْأَهْوَاءُ، فَتَأْخُذُوا هَكَذَا وَهَكَذَا، وَأَشَارَ بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ".
وہب بن عمرو جمحی نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مصیبت کے نزول سے پہلے جلد بازی نہ کرو، اگر تم اس کے نزول سے پہلے جلدی نہ کرو گے تو مسلمان اس سے اس وقت تک چھٹکارہ نہ پائیں گے جب ان میں ایسا شخص موجود رہے گا جو کہے تو باتوفیق و درست و سچا ہو، اور اگر تم نے اس میں جلد بازی کی تو تمہاری آراء مختلف ہو جائیں گی اور تم اس طرح پکڑ لو گے، اپنے ہاتھوں سے آپ نے دائیں بائیں اشارہ کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهب بن عمرو ما عرفته وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 118]»
اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور مرسل روایت ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 226/13]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهب بن عمرو ما عرفته وهو مرسل
حدیث نمبر: 119
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن المبارك، حدثنا يحيى بن حمزة، حدثني ابو سلمة، ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن الامر يحدث ليس في كتاب ولا سنة، فقال: "ينظر فيه العابدون من المؤمنين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ الْأَمْرِ يَحْدُثُ لَيْسَ فِي كِتَابٍ وَلَا سُنَّةٍ، فَقَالَ: "يَنْظُرُ فِيهِ الْعَابِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ".
یحییٰ بن حمزہ نے کہا کہ سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے امر کے بارے میں دریافت کیا گیا جو قرآن و حدیث میں نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں عبادت گزار مؤمنین غور کریں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 119]»
اگرچہ یہ مرسل روایت ہے لیکن سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مراسيل أبى داؤد 457-458]، [المعجم الكبير 353]، [جامع بيان العلم 1810]، [إبانه 293]، [فتح الباري 266/13]

وضاحت:
(تشریح احادیث 115 سے 119)
یہ روایت اجماع کی دلیل ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مرسل
حدیث نمبر: 120
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا معاذ بن معاذ، عن ابن عون، قال: قال القاسم: "إنكم لتسالون عن اشياء ما كنا نسال عنها، وتنقرون عن اشياء ما كنا ننقر عنها، وتسالون عن اشياء ما ادري ما هي، ولو علمناها ما حل لنا ان نكتمكموها".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: قَالَ الْقَاسِمُ: "إِنَّكُمْ لَتَسْأَلُونَ عَنْ أَشْيَاءَ مَا كُنَّا نَسْأَلُ عَنْهَا، وَتُنَقِّرُونَ عَنْ أَشْيَاءَ مَا كُنَّا نُنَقِّرُ عَنْهَا، وَتَسْأَلُونَ عَنْ أَشْيَاءَ مَا أَدْرِي مَا هِيَ، وَلَوْ عَلِمْنَاهَا مَا حَلَّ لَنَا أَنْ نَكْتُمُكُمُوهَا".
عبداللہ بن عون سے مروی ہے، قاسم بن محمد نے کہا: تم لوگ ایسی باتوں کے بارے میں سوال کرتے ہو جن کے بارے میں ہم سوال نہیں کرتے تھے۔ اور تم لوگ ایسی چیزوں کے بارے میں بحث کرتے ہو جن کے بارے میں ہم بحث نہیں کرتے تھے۔ تم ایسی باتیں دریافت کرتے ہو جنہیں میں نہیں جانتا کہ وہ کیا ہیں اور اگر معلوم ہوتیں تو ہمارے لئے ان کا تم سے چھپانا جائز نہیں تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 120]»
اس قول کو صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے اور سند صحیح ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 119)
اس روایت سے واضح ہوا کہ فرضی باتیں گڑھنا اور ان کے بارے میں فتویٰ دریافت کرنا درست نہیں، اگر کسی کو مسئلہ معلوم نہ ہو تو لاعلمی ظاہر کر دینی چاہیے، خواہ مخواہ اٹکل پچو باتیں کرنا درست نہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معلوم ہوتے ہوئے علم کو چھپانا درست نہیں، قرآن پاک میں ایسے لوگوں کی مذمت آئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے علم کو چھپایا الله تعالیٰ اسے آگ کی لگام لگائے گا۔
« [الأحاديث الصحيحة: 1393] (نعوذ بالله من ذلك)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    8    9    10    11    12    13    14    15    16    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.