سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
17. باب التَّوَرُّعِ عَنِ الْجَوَابِ فِيمَا لَيْسَ فِيهِ كِتَابٌ وَلاَ سُنَّةٌ:
ایسا فتوی دینے سے احتیاط برتنے کا بیان جس کے بارے میں قرآن و حدیث سے دلیل نہ ہو
حدیث نمبر: 113
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ سُئْلُ، قَالَ: "إِنَّا وَاللَّهِ مَا نَعْلَمُ كُلَّ مَا تَسْأَلُونَ عَنْهُ، وَلَوْ عَلِمْنَا مَا كَتَمْنَاكُمْ، وَلَا حَلَّ لَنَا أَنْ نَكْتُمَكُمْ".
ایوب نے کہا: میں نے قاسم کو سنا، ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: والله ہم کو ان تمام چیزوں کا علم نہیں ہے جو تم ہم سے پوچھتے ہو، اور اگر ہمیں علم ہوتا تو ہم نہ تم سے چھپاتے اور نہ ہی ہمارے لئے چھپانا جائز ہوتا۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 113]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: مذکورہ بالا مصادر، و [الفقيه 173/2] و [جامع بيان العلم 1410] و [العلم لأبي خيثمة 141]
وضاحت: (تشریح احادیث 111 سے 113)
اس قول میں قاسم بن محمد رحمۃ الله علیہ کی تواضع عجز و انکساری اور اس آیت کی طرف اشارہ ہے: «﴿وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ [اسراء: 85] » ”تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
“ نیز اس سے ان کے بغیر علم کچھ کہنے میں شدتِ احتیاط کا بھی اظہار ہے اور یہ قاسم رحمہ اللہ ابن محمد بن ابی بکر الصدیق ہیں جنہوں نے اپنی پھوپھی اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش پائی، اور ان سے علم حاصل کیا، اور مدینہ کے کبار فقہاء میں شمار ہوئے، ابن سعد نے ان کے بارے میں کہا: «كان إماما فقيها، ثقة رفيعا و رعًا كثير الحديث»، اور ایوب السختیانی رحمہ اللہ نے کہا: میں نے قاسم سے افضل کسی شخص کو نہ دیکھا۔
[تذکره الحفاظ: 96/1]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح