اخبرنا النضر، نا حماد بن سلمة، عن عمرو بن دينار، عن رجل، عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: ((نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن لبسين، وعن بيعتين، عن اشتمال الصماء، والاحتباء في ثوب واحد، وعن اللمس والنبذ)).أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ((نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لِبْسَيْنِ، وَعَنْ بَيْعَتَيْنِ، عَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَالَاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، وَعَنِ اللَّمْسِ وَالنَّبْذِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کے لباس اور دو قسم کی بیع سے منع فرمایا، چادر کو اس انداز سے جسم پر لپیٹنا کہ ہاتھوں اور بازؤوں کو حرکت دینا مشکل ہو جائے اور ایک کپڑے میں اس طرح بیٹھنا کہ اعضائے مستورہ ظاہر ہونے کا اندیشہ ہو، اور بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب البيوع، باب بيع المنابذه، رقم: 2147. مسلم، كتاب اللباس والزينة، باب النهي عن اشتمال الصما، الخ، رقم: 2099. سنن ابوداود، رقم: 3461. سنن ترمذي، رقم: 1231. سنن ابن ماجه، رقم: 3560.»
اخبرنا وهب بن جرير، حدثني ابي قال: سمعت محمد بن إسحاق يقول: حدثني ابو عبيدة بن محمد بن عمار بن ياسر قال: حدثتني الربيع بنت معوذ ابن عفراء قالت:" دخلت انا ونسوة من الانصار على اسماء بنت مخربة ام ابي جهل، وكان ابنها عياش بن عبد الله بن ابي ربيعة يبعث إليها العطر من اليمن فتبيعه إلى الاعطية، قالت: فاشتريت منها، فوزن لي، وجعلته في قواريري، كما وزن لصاحبتي، فقالت لي: اكتبي لي عليك حقي، فقلت لها: اكتب على الربيع بنت معوذ ابن عفراء؟ فقالت لي: إنك لبنت قاتل سيده , فقلت: لا، ولكني بنت قاتل عبده، فقالت: والله لا ابيعك ابدا، فقلت: وانا والله لا اشتري منك شيئا ابدا، فوالله ما هو بطيب ولا عرف ثم قالت: اي بني والله ما شممت طيبا قط اطيب منه، ولكنها حين قالت ما قالت غضبت، فقلت ما قلت".أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِي الرُّبَيِّعُ بِنْتُ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ قَالَتْ:" دَخَلْتُ أَنَا وَنِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ مُخَرِّبَةَ أُمِّ أَبِي جَهْلٍ، وَكَانَ ابْنُهَا عَيَّاشُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ يَبْعَثُ إِلَيْهَا الْعِطْرَ مِنَ الْيَمَنِ فَتَبِيعُهُ إِلَى الْأُعْطِيَةِ، قَالَتْ: فَاشْتَرَيْتُ مِنْهَا، فَوُزِنَ لِي، وَجَعَلْتُهُ فِي قَوَارِيرِي، كَمَا وُزِنَ لِصَاحِبَتِي، فَقَالَتْ لِي: اكْتُبِي لِي عَلَيْكِ حَقِّي، فَقُلْتُ لَهَا: أَكْتُبُ عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ؟ فَقَالَتْ لِي: إِنَّكِ لَبِنْتُ قَاتِلِ سَيِّدِهِ , فَقُلْتُ: لَا، وَلَكِنِّي بِنْتُ قَاتِلِ عَبْدِهِ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أَبِيعُكَ أَبَدًا، فَقُلْتُ: وَأَنَا وَاللَّهِ لَا أَشْتَرِي مِنْكِ شَيْئًا أَبَدًا، فَوَاللَّهِ مَا هُوَ بِطِيبٍ وَلَا عَرْفٍ ثُمَّ قَالَتْ: أَيْ بُنَيَّ وَاللَّهِ مَا شَمِمْتُ طِيبًا قَطُّ أَطْيَبَ مِنْهُ، وَلَكِنَّهَا حِينَ قَالَتْ مَا قَالَتْ غَضِبْتُ، فَقُلْتُ مَا قُلْتُ".
سیدہ ربیع بنت معوذ ابن عفراء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، میں اور انصار کی چند خواتین اسماء بنت مخربہ ابوجہل کی والدہ، کے ہاں گئیں، اس کا بیٹا عیاش بن عبداللہ بن ابی ربیعہ یمن سے ان کی طرف عطر بھیجتا تھا، اور وہ اسے مشاہرہ لینے والی کے ہاں بیچ دیا کرتی تھیں، انہوں نے کہا: میں نے ان سے عطر خریدا تو انہوں نے مجھے تول کر دیا، میں نے اسے اپنی شیشیوں میں ڈال لیا، جس طرح میری ساتھ والی کے لیے وزن کیا تھا، انہوں نے مجھے کہا: تم پر میرا جو حق ہے وہ مجھے لکھ دیں، میں نے انہیں کہا: ربیع بنت معوذ ابن عفراء کے ذمے لکھو، انہوں نے کہا: تم تو اس کے سردار کے قاتل کی بیٹی ہو، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو قاتل نہیں ہوں، لیکن میں اس کے غلام کے قاتل کی بیٹی ہوں، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں یہ تمہیں کبھی بھی فروخت نہیں کروں گی، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں تم سے کبھی کوئی چیز نہیں خریدوں گی، اللہ کی قسم! وہ تو کوئی خوشبو بھی نہیں، پھر کہا: بیٹی! اللہ کی قسم! میں نے اس سے بہتر خوشبو کبھی بھی نہیں سونگھی، لیکن جس وقت انہوں نے جو کچھ کہا: تھا میں ناراض ہو گئی تھی، جس وجہ سے بس میں نے بھی جو کچھ کہا: وہ کہہ دیا۔
اخبرنا وكيع، نا ابو العميس، عن ابن جعدبة، عن عبيد بن السباق، عن زينب امراة عبد الله ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطاها حلاب اربعين وسقا من تمر وعشرين وسقا من شعير بخيبر، فاتاها عاصم بن عدي فقال لها: إن وفيتكها هاهنا بالمدينة، واتوفاها منك بخيبر، فقالت: حتى اسال امير المؤمنين عمر رضي الله عنه، فذكرت ذلك له فكرهه وقال: كيف بالضمان قال وكيع: وهذه السفتجة وهي مكروهة.أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا أَبُو الْعُمَيْسِ، عَنِ ابْنِ جُعْدُبَةَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهَا حِلَابَ أَرْبَعِينَ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ وَعِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ شَعِيرٍ بِخَيْبَرَ، فَأَتَاهَا عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فَقَالَ لَهَا: إِنْ وَفَّيْتُكُهَا هَاهُنَا بِالْمَدِينَةِ، وَأَتَوَفَّاهَا مِنْكَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَتْ: حَتَّى أَسْأَلَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَكَرِهَهُ وَقَالَ: كَيْفَ بِالضَّمَانِ قَالَ وَكِيعٌ: وَهَذِهِ السَّفْتَجَةُ وَهِيَ مَكْرُوهَةٌ.
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خیبر میں چالیس وسق کھجور اور بیس وسق جو کا حصہ دیا، عاصم بن عدی ان کے پاس آئے تو انہیں کہا: اگر میں یہی چیز آپ کو یہاں مدینہ میں دے دوں اور وہ آپ سے خیبر میں لے لوں، تو انہوں نے فرمایا: میں امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھ لوں، انہوں نے ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے اسے ناپسند فرمایا، اور فرمایا: ضمان کا کیا بنے گا؟ وکیع رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ ہنڈی ہے اور وہ مکروہ ہے۔
اخبرنا وکیع، نا سفیان، عن ابن طاؤوس، عن ابیه، عن ابن عباس، عن رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم قال: من ابتاع طعاما، فلا یبعه حتی یکتاله۔ قلت لابن عباس: لم؟ قال: ا لا تراهم یبایعون بالذهب والطعام مرجا؟.اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا سُفْیَانُ، عَنِ ابْنِ طَاؤُوْسٍ، عَنْ اَبِیْهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ ابْتَاعِ طَعَامًا، فَلَا یَبِعْهٗ حَتَّی یَکْتَالَهٗ۔ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: لِمَ؟ قَالَ: اَ لَا تَرَاهُمْ یُبَایِعُوْنَ بِالذَّهَبِ وَالطَّعَامُ مُرْجًا؟.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص غلہ خریدے تو وہ اسے فروخت نہ کرے حتیٰ کہ وہ اسے ناپ لے۔“ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: کیوں؟ فرمایا: کیا تم انہیں دیکھتے نہیں کہ وہ اشرفیوں (سونے) کے بدلے میں بیع کیا کرتے تھے جبکہ غلہ آنے کی ابھی امید ہی ہوتی تھی۔
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب البيوع، باب بطلان بيع المبيع قبل القبض، رقم: 1525. سنن ابوداود، كتاب البيوع، باب بيع الطعام قبل ان يستوفي، رقم: 3496. سنن نسائي، رقم: 4597. مسند احمد: 356/1.»
اخبرنا وکیع، نا سفیان، عن عمرو بن دینار، عن طاؤوس، عن ابن عباس قال: اما الذی نهٰی رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم ان یباع حتی یقبض، فالطعام۔ وقال ابن عباس: ولا احسب کل شیٔ الا بمنزلة الطعام.اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا سُفْیَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ، عَنْ طَاؤُوْسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اَمَّا الَّذِیْ نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنْ یُّبَاعَ حَتَّی یُقْبَضَ، فَالطَّعَامُ۔ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَاَ اَحْسِبُ کُلَّ شَیٍٔ اِلَّا بِمَنْزِلَةِ الطَّعَامِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضہ میں لینے سے پہلے جس چیز کی بیع سے منع فرمایا ہے، وہ صرف غلہ ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں ہر چیز کو غلے کے مقام پر ہی سمجھتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب البيوع، باب بطلان بيع المبيع قبل القبض. سنن ابوداود، رقم: 3497، رقم: 3497. سنن ترمذي، رقم: 1291. سنن ابن ماجه، رقم: 2227.»
اخبرنا عبدالرزاق، نا معمر، عن ابن طاؤوس، عن ابیه، عن ابن عباس، عن رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم قال: من ابتاع طعاما فـلا یبعه حتی یقبضه۔ قال ابن عباس: فاحسب کل شیئ بمنزلة الطعام.اَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَاقِ، نَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاؤُوْسٍ، عَنْ اَبِیْهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَـلَا یَبِعْهٗ حَتَّی یَقْبِضَهٗ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَاَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ بِمَنْزِلَةِ الطَّعَامِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص غلہ خریدے تو وہ اسے فروخت نہ کرے حتیٰ کہ اسے قبضے میں لے لے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں ہر چیز کو غلے کے مقام پر ہی خیال کرتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب البيوع، باب الكيل على البائع والمعطي، سنن ابوداود، رقم: 3499، 3498، 3495، 9492.»
اخبرنا عبدالرزاق، نا معمر، عن ابن طاؤوس، عن ابیه، عن ابن عباس قال: نهٰی رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم ان تتلقی الرکبان.اَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، نَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاؤُوْسٍ، عَنْ اَبِیْهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنْ تُتَلَقَّی الرُّکْبَانِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی قافلوں کو مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے راستوں میں جا کر ملنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب البيوع، باب تحريم بيع الحاضر للبادي. سنن ابوداود، رقم: 3443، 3437»
اخبرنا وکیع، عن سفیان، عن عمرو بن دینار قال: سمعت ابن عمر یقول: کنا نخابر فـلا نرٰی بذلك بأسا، حتٰی زعم رافع بن خدیج ان النبی صلی اللٰه علیه وسلم نهٰی عنه.اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُوْلُ: کُنَّا نُخَابِرُ فَـلَا نَرٰی بِذَلِكَ بَأْسًا، حَتّٰی زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِیْجٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهٰی عَنْهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم بٹائی پر کاشت کاری کرتے تھے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، حتیٰ کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الحرث والمزارعة، باب كان من اصحاب النبى صلى الله عليه واله وسلم يواشي الخ، رقم: 2344. مسلم، كتاب البيوع، باب كراء الارض، رقم: 1547. سنن ابوداود، رقم: 3389. سنن نسائي، رقم: 3867.»
اخبرنا عمر (و): فذکرت ذٰلك لطاؤوس، فقال: قال ابن عباس: انما قال رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم: لان یمنح احدکم اخاه الارض، خیر له من ان یأخذ لها خرجا معلوما.اَخْبَرَنَا عَمْرٌ (و): فَذَکَرْتُ ذٰلِكَ لِطَاؤُوْسٍ، فَقَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اِنَّمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَاَنْ یَّمْنَحَ اَحَدُکُمْ اَخَاهٗ الْاَرْضَ، خَیْرٌ لَهٗ مِنْ اَنْ یَّأْخُذَ لَهَا خَرْجًا مَّعْلُوْمًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے (مسلمان) بھائی کو زمین بلا معاوضہ دے دے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کا مقرر کردہ ٹھیکہ وصول کرے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب المزارعة، باب اذا لم يشترط السنين الخ، رقم: 2330. مسلم. كتاب البيوع، باب الارض تمنح، رقم: 1550. سنن ابوداود، رقم: 3389. سنن نسائي، رقم: 3873. سنن ابن ماجه، رقم: 2464. مسند احمد: 234/1. سنن كبري بيهقي: 133/6»
اخبرنا ابو معاویة، حدثنا الحجاج، عن ابی الزبیر، عن طاؤوس، عن ابن عباس قال: العمرٰی لمن اعمرها، والرقبٰی لمن ارقبها، والعائد فی هبتهٖ، کالعائد فی قیئه.اَخْبَرَنَا اَبُوْ مُعَاوِیَةَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ اَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ طَاؤُوْسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اَلْعُمْرٰی لِمَنْ اَعْمَرَهَا، وَالرُّقْبٰی لِمَنَ اَرْقَبَهَا، وَالْعَائِدُ فِی هِبَتِهٖ، کَالْعَائِدِ فِی قَیْئِه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: عمریٰ اسی کے لیے ہے جس کے لیے عمری کیا گیا، رقبیٰ اس کے لیے ہے جس کے لیے رقبیٰ کیا گیا۔ اور اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اپنی قے کو چاٹنے والے کی طرح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن نسائي، كتاب الرقبي، باب ذكر الاختلاف على بن ابي تجيح الخ، رقم: 3710. قال الشيخ الالباني: صحيح. مسند احمد: 250/1.»