مسند اسحاق بن راهويه
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے احکام و مسائل
دو طرح کے لباس اور دو قسم کی تجارت کی ممانعت
حدیث نمبر: 451
أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: ((نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لِبْسَيْنِ، وَعَنْ بَيْعَتَيْنِ، عَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَالَاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، وَعَنِ اللَّمْسِ وَالنَّبْذِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کے لباس اور دو قسم کی بیع سے منع فرمایا، چادر کو اس انداز سے جسم پر لپیٹنا کہ ہاتھوں اور بازؤوں کو حرکت دینا مشکل ہو جائے اور ایک کپڑے میں اس طرح بیٹھنا کہ اعضائے مستورہ ظاہر ہونے کا اندیشہ ہو، اور بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب البيوع، باب بيع المنابذه، رقم: 2147. مسلم، كتاب اللباس والزينة، باب النهي عن اشتمال الصما، الخ، رقم: 2099. سنن ابوداود، رقم: 3461. سنن ترمذي، رقم: 1231. سنن ابن ماجه، رقم: 3560.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 451 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 451
فوائد:
(1) مذکورہ حدیث میں دو طرح کے لباس اور دو قسم کی تجارت سے منع کیا گیا ہے۔
ممنوع لباس: صرف تہبند اپنے شانوں پر ڈال کر نماز پڑھنا شرعاً ممنوع ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں: لبادہ کندھوں پر ڈالنے سے رکوع وسجود کے وقت وہ گر پڑتا ہے اور نمازی ان کو بار بار سنبھالتا ہے۔ جو نماز سے توجہ منتشر کرنے کا باعث ہے۔ البتہ کندھوں پر اس طرح ڈال لیں کہ وہ پھر ہلتے ہوئے گرے نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (مترجم صحیفہ ہمام بن منبہ: 162)
(2).... ایسا لباس جس میں آدمی برہنہ ہو، شرعاً منع ہے۔ اور حدیث میں لفظ الاحتباء استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اپنی سرین کے بل بیٹھے اور اپنی پنڈلیوں کو کھڑا رکھے اور ایسی حالت میں اپنے اوپر صرف ایک کپڑا لپیٹ لے۔ اہل عرب اپنی مجالس میں ایسے بیٹھا کرتے تھے، چونکہ اس طرح بیٹھنے میں شرمگاہ کھلی نظر آنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح بیٹھنے سے اور ایک کپڑا جس سے شرم گاہ کھلے نظر آنے کا اندیشہ ہو، پہننے سے منع فرمایا۔ (صحیفہ ہمام بن منبہ، رقم الحدیث:137، ص: 481، طبع: انصارالسنہ)
اور ملامسہ اور منابذہ، ان دونوں بیع کی تفسیر صحیح بخاری میں یوں بیان ہوئی ہے۔
منابذہ:.... اس کا طریقہ یہ تھا کہ ایک آدمی بیچنے کے لیے اپنا کپڑا دوسرے شخص کی طرف (جو خریدار ہوتا) پھینکتا اور اس سے پہلے کہ وہ اسے الٹے پلٹے یا اس کی طرف دیکھے (صرف پھینک دینے سے وہ بیع لازم سمجھی جاتی تھی)
بیع ملامسہ:.... کپڑے کو بغیر دیکھے صرف اسے چھو دینا (اور اسی سے بیع لازم ہو جاتی تھی)۔ (بخاري، کتاب البیوع، رقم: 2144)
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بیع ملامسہ اور منابذہ سے روکنے کا سبب دھوکہ، جہالت اور خیار مجلس کا ابطال ہے۔ (نیل الاوطار: 3؍ 521)
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 451