اخبرنا ابو معاویة، حدثنا الحجاج، عن ابی الزبیر، عن طاؤوس، عن ابن عباس قال: العمرٰی لمن اعمرها، والرقبٰی لمن ارقبها، والعائد فی هبتهٖ، کالعائد فی قیئه.اَخْبَرَنَا اَبُوْ مُعَاوِیَةَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ اَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ طَاؤُوْسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: اَلْعُمْرٰی لِمَنْ اَعْمَرَهَا، وَالرُّقْبٰی لِمَنَ اَرْقَبَهَا، وَالْعَائِدُ فِی هِبَتِهٖ، کَالْعَائِدِ فِی قَیْئِه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: عمریٰ اسی کے لیے ہے جس کے لیے عمری کیا گیا، رقبیٰ اس کے لیے ہے جس کے لیے رقبیٰ کیا گیا۔ اور اپنے ہبہ کو واپس لینے والا اپنی قے کو چاٹنے والے کی طرح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن نسائي، كتاب الرقبي، باب ذكر الاختلاف على بن ابي تجيح الخ، رقم: 3710. قال الشيخ الالباني: صحيح. مسند احمد: 250/1.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 460 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 460
فوائد: (1) عمریٰ عمر سے ماخوذ ہے، یعنی وہ جو عمر بھر کے لیے دے دی جائے، یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ جاہلیت میں ایک آدمی دوسرے آدمی کو گھر دیتا تو کہتا کہ میں اسے یہ گھر عمر اور زندگی کی موت تک کے لیے مباح قرار دیا ہے اور کہا جاتا کہ یہ فلاں کے لیے عمریٰ ہے۔ (2).... رقبٰی: مراقبہ سے ماخوذ ہے، اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں چیز دینے والا اور لینے والا دونوں ایک دوسرے کی موت کا انتظار کرتے ہیں، تاکہ وہ چیز زندہ کی طرف لوٹ آئے۔ یہ اس طرح ہے کہ ایک شخص کسی کو کچھ ہبہ کرے اس شرط پر کہ اگر تم پہلے فوت ہوگئے تو یہ چیزی میری طرف لوٹ آئے گی اور اگر میں پہلے فوت ہوگیا تو یہ تمہاری ہوجائے گی۔ (نیل الاوطار: 4؍ 74۔ المنجد، ص: 582) راجح مذہب یہی ہے کہ عمریٰ یا رقبٰی کے نام سے جو ہدیہ دیا جائے گا وہ ہمیشہ کے لیے اس کا ہوگا جس کو دیا جائے۔ (3).... ہبہ دے کر واپس لینا جائز نہیں ہے۔ جس طرح قے کو چاٹنا قبیح عمل ہے گویا تحفہ دے کر واپس لینا انتہائی برا عمل ہے۔