ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ یہودی (ایک روز) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ”تم پر موت آئے“ تو میں نے ان پر لعنت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کی کہ کیا آپ نے نہیں سنا جو ان لوگوں نے کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے نہیں سنا جو میں نے کہ دیا کہ وعلیکم (یعنی جو کچھ تم نے کہا ہے وہ تمہی پر ہو)۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ طفیل بن عمرو دوسی اور ان کے ساتھی رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! قبیلہ دوس کے لوگوں نے نافرمانی کی اور پیروی سے انکار کر دیا، لہٰذا اللہ سے ان کے لیے بددعا کیجئیے۔ لوگ کہنے لگے کہ اب دوس ہلاک ہوئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ”اے اللہ! دوس کو ہدایت دے اور ان کو دائرہ اسلام میں لے آ۔“
47. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو اسلام اور (اپنی) نبوت کی طرف بلانا اور اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیبر کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں اب جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر فتح ہو جائے گی۔“ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوئے اس بات کی امید کر رہے تھے کہ ان میں سے جھنڈا کس کو ملتا ہے۔ پھر دوسرے دن ہر شخص اس بات کی امید کرتا رہا کہ جھنڈا ہمیں عطا ہو گا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی (رضی اللہ عنہ) کہاں ہیں؟“ کسی نے بتایا کہ ان کی دونوں آنکھوں میں درد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ بلائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دونوں آنکھوں میں لعاب لگا دیا، وہ فوراً اچھے ہو گئے (ایسا معلوم ہوتا تھا کہ) گویا ان کو کوئی تکلیف نہ تھی۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ ہم ان کافروں سے جنگ کریں گے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آہستگی کرو، اب تم ان کے میدان میں جانا تو اسلام کی طرف بلانا اور جو (اللہ کی طرف سے) ان پر فرض ہے وہ بتانا۔ اللہ کی قسم! اگر تم سے ایک شخص بھی ہدایت پا جائے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی لشکر میں بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”اگر تم فلاں اور فلاں شخص کو پانا (قریش کے دو آدمیوں کا نام لیا) تو انھیں آگ میں جلا دینا۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر جب ہم سفر میں جانے لگے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رخصت ہونے کو آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں حکم دیا تھا کہ فلاں اور فلاں شخص کو آگ میں جلا دینا، مگر آگ سے تو اللہ ہی عذاب کرتا ہے۔ لہٰذا اگر تم ان کو پکڑو تو انھیں قتل کر دینا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(امام کی بات) سننا اور ماننا (ہر شخص پر) ضروری ہے، جب تک خلاف شرع نہ ہو۔ پھر اگر کسی گناہ کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ضروری ہے اور نہ ماننا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم لوگ اور امتوں سے باعتبار ادوار کے آخیر میں ہیں مگر مرتبہ میں سب سے سبقت لے جانے والے ہیں۔“ اور فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے (شرعی) امیر کی اطاعت کی اس نے بیشک میری اطاعت کی اور جس نے (شرعی) امیر کی نافرمانی کی اس نے بیشک میری نافرمانی کی اور امام تو مثل ڈھال کے ہوتا ہے اس کے پیچھے سے جنگ کی جاتی ہے۔ اور اسی کی طرف پناہ لی جاتی ہے۔ پس اگر وہ اللہ سے تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو اس کی وجہ سے اسے ثواب ملے گا اور اگر اس کے خلاف کرے تو اس کی وجہ سے اس پر گناہ ہو گا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ(بیعت رضوان کے بعد) آئندہ سال جب ہم پھر آئے تو ہم میں سے دو آدمیوں نے بھی باتفاق اس درخت کو نہ بتایا جس کے نیچے ہم نے بیعت (رضوان) کی تھی (اسی میں کچھ اللہ کی مہربانی تھی۔ پوچھا گیا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کس بات پر بیعت لی گئی تھی، موت پر؟ تو انھوں نے کہا کہ نہیں بلکہ صبر پر بیعت لی گئی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب واقعہ حرہ کا دور آیا تو ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ حنظلہ کے بیٹے لوگوں سے موت پر بیعت لے رہے ہیں تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے اس شرط پر (یعنی موت پر) بیعت نہ کریں گے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بیعت رضوان میں) بیعت کی۔ بعد اس کے میں ایک درخت کے سایہ کی طرف چلا گیا۔ جب لوگوں کا ہجوم کم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”اے ابن اکوع! کیا تم بیعت نہ کرو گے؟ تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بھی۔“ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ بیعت کی۔ پوچھا گیا کہ ابومسلم (یہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) اس دن کس بات پر تم نے بیعت کی تھی تو انھوں نے کہا: ”موت پر۔“