سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ دو آدمی آئے، ایک تو اپنے فقر و فاقہ کی شکایت کرتا تھا اور دوسرا راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو تھوڑے ہی عرصے کے بعد (ایسا امن ہو جائے گا کہ) قافلہ (مدینہ سے) مکہ تک بغیر کسی محافظ اور ضامن کے چلائے گا (اور کوئی اس سے مزاحمت نہ کر سکے گا) اور فقیر، تو (اس کی بھی یہ کیفیت ہے کہ) قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ (لوگوں کے پاس مال کی ایسی کثرت ہو جائے گی کہ) تم میں سے کوئی شخص اپنا صدقہ لے کر پھرے گا مگر کسی کو نہ پائے گا جو اسے لے لے پھر (یہ یاد رکھو کہ) بیشک یقیناً ہر شخص تم میں سے (قیامت کے دن) اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا۔ اس کے اور اللہ کے درمیان نہ کوئی حجاب ہو گا اور نہ کوئی ترجمان جو اس کی گفتگو نقل کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ کیا میں نے تجھے مال نہ دیا تھا؟ وہ عرض کرے گا کہ ہاں (دیا تھا) پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر کو نہ بھیجا تھا؟ (جو تجھے زکوٰۃ کی فرضیت سے آگاہ کرتا) وہ عرض کرے گا کہ ہاں (بھیجا تھا) پس وہ شخص اپنی دائیں جانب نظر کرے گا تو بجز آگ کے کچھ نہ دیکھے گا اور بائیں جانب نظر کرے گا تو سوائے آگ کے کچھ نہ پائے گا لہٰذا تم سے ہر شخص کو چاہیے کہ آگ سے بچے، اگرچہ کھجور کے ٹکڑے ہی (کے صدقہ دینے) سے سہی۔ پھر اگر کھجور کا ٹکڑا بھی میسر نہ ہو تو عمدہ بات کہہ کر۔“(کیونکہ یہ بھی صدقہ ہے)
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک دور آئے گا جس میں آدمی صدقہ کا سونا لے کر گشت کرے گا مگر کسی کو نہ پائے گا جو اس سے لے لے اور مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت کے سبب سے ایک مرد کے پیچھے چالیس عورتیں دیکھی جائیں گی جو اس کے ساتھ چمٹی رہیں گی۔“
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمیں صدقہ کا حکم دیتے تھے تو کوئی شخص ہم میں سے بازار کی طرف جاتا اور بار برداری کرتا۔ پھر اگر اسے مزدوری میں ایک مد (غلہ وغیرہ) مل جاتا تو اسی کو صدقہ میں دے دیتا۔ (اس وقت ایسی تنگدستی کی حالت تھی) اور آج بعض لوگوں کے پاس ایک لاکھ درہم موجود ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ(ایک دن) ایک عورت سوال کرتی ہوئی آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں تو اس نے میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ پایا پس میں نے وہی اسے دے دی۔ اس نے کھجور کو اپنی دونوں لڑکیوں میں تقسیم کر دیا اور خود اس میں سے کچھ نہیں کھایا پھر وہ اٹھ کر چلی گئی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ان لڑکیوں میں سے کسی کے ساتھ مبتلا کر دیا جائے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کو لڑکی دے) تو وہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ سے حجاب ہو جاتی ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کون سا صدقہ ثواب میں زیادہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ ’ یہ کہ تو صدقہ اس حال میں دے کہ تو صحیح ہو مال و دولت کا خواہشمند ہو، فقیری سے ڈرتا ہو اور مالدار ہونے کی آرزو رکھتا ہو۔ اور (صدقہ دینے میں) اتنی دیر مت کر کہ جب جان حلق میں پہنچ جائے اور تو کہے کہ اتنا مال فلاں شخص کو دے دینا اور اتنا فلاں کو حالانکہ اب تو وہ مال فلاں شخص (یعنی وارث) کا ہو چکا۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم لوگوں میں سے) سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون ملے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا ہاتھ تم سب میں لمبا ہو گا۔“ تو انہوں نے ایک بانس کا ٹکڑا لے کر ہاتھ ناپنے شروع کیے تو سودہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ سب میں بڑا نکلا (مگر جب سب سے پہلے ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی) تو ہم نے جان لیا کہ ان کا ہاتھ صدقہ نے لمبا کر دیا (اور ہاتھ کے بڑے ہونے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت صدقہ تھی چنانچہ) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم سب سے پہلے ملیں اور وہ صدقہ دینے کو بہت پسند کرتی تھیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(گزشتہ دور میں) ایک شخص نے (اپنے دل میں) کہا کہ (آج شب کو) میں کچھ صدقہ دوں گا چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسے (نادانستگی میں) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا تو صبح کو لوگوں نے چرچا کیا کہ (دیکھو آج رات کو) ایک چور کو خیرات دی گئی ہے تو اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے، میں (آج رات پھر) صدقہ دوں گا۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس کو اس نے (نادانستگی میں) ایک زانیہ کے ہاتھ میں رکھ دیا تو صبح کو لوگوں نے چرچا کیا کہ دیکھو آج شب ایک زانیہ کو خیرات دی گئی ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے میرا صدقہ تو زانیہ کے ہاتھ لگ گیا، اچھا میں (آج پھر ضرور) کچھ صدقہ دوں گا۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور (نادانستگی میں) اس نے وہ صدقہ ایک مالدار کے ہاتھ میں رکھ دیا تو لوگوں نے صبح کو چرچا کیا کہ دیکھو آج شب مالدار کو خیرات دی گئی۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے، میں اپنا مال (لاعلمی میں) چور، فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ تو اس کے پاس کوئی (اللہ کا) فرستادہ آیا اور اس سے کہا کہ (تو) رنجیدہ مت ہو، تجھے تیری خیرات کا ثواب ملے گا اور جن لوگوں کو تو نے دیا ہے انہیں بھی فائدہ ہو گا ممکن ہے چور کو تیرا خیرات دینا (اس کے حق میں یہ فائدہ دے گا کہ) شاید وہ چوری سے باز رہے اور زانیہ! ممکن ہے کہ وہ حرکت زنا سے رک جائے اور شاید مالدار عبرت حاصل کرے اور جو کچھ اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے وہ اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے لگے۔“
سیدنا معن بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے، میرے باپ نے اور میرے دادا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے میری منگنی کی اور میرا نکاح کیا اور ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا اور (وہ مقدمہ یہ تھا کہ) میرے باپ یزید نے کچھ اشرفیاں برائے صدقہ نکالی تھیں اور ان کو مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھوا دیا تھا (کہ تم جس کو چاہو دے دینا) چنانچہ میں گیا اور میں نے وہ اشرفیاں لے لیں اور ان کو (گھر) لے آیا میرے باپ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے تجھ کو دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا تو میں یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے یزید! جو نیت تم نے کی ہے اس کا ثواب تمہیں ملے گا اور اے معن! جو کچھ تم نے لے لیا وہ تمہارا ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت اپنے گھر کے کھانے میں سے صدقہ دے بشرطیکہ اس کی نیت گھر بگاڑنے کی نہ ہو تو اس عورت کو صدقہ دینے کا ثواب ملے گا، اس کے شوہر کو کمائی کا، اور خزانچی کو بھی اس قدر ثواب ملے گا اور ان میں سے کسی ایک کا ثواب بھی کم نہیں ہو گا (یعنی صدقہ ایک ہی ہے اور ثواب تینوں کو اور وہ بھی ایک جیسا)۔
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے اور صدقہ کی ابتداء اس شخص سے کرو جو تمہارے اہل و عیال (قریبی رشتہ داروں) میں سے ہو اور عمدہ صدقہ وہ ہے جو فاضل مال سے دیا جائے اور جو شخص سوال کرنے سے بچے گا تو اللہ بھی اسے سوال کرنے سے بچائے گا اور جو شخص بےپروا رہنا چاہے گا تو اللہ بھی اسے بےپروا کر دے گا۔ ‘ ‘