ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی عادت مبارکہ تھی کہ) جب مؤذن صبح کی اذن کہنے کھڑا ہو جاتا اور صبح کی اذان ہو جاتی تو دو رکعتیں ہلکی سی فرض کی اقامت (تکبیر) ہونے سے پہلے پڑھ لیتے تھے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کو بلال (رضی اللہ عنہ) کی اذان اس کی سحری سے باز نہ رکھے اس لیے کہ وہ رات کو اذان کہہ دیتے ہیں تاکہ تم میں سے تہجد پڑھنے والا (بغرض آرام) لوٹ جائے اور تاکہ تم میں سے سونے والے کو بیدار کر دیں اور یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص کہے کہ صبح (ہو گئی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور ان کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پھر نیچے کی طرف جھکا دیا یہاں تک کہ اس طرح (یعنی سفیدی پھیل جائے)، (زہیر راوی) نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیاں ایک دوسری کے اوپر رکھیں پھر دونوں کو اپنے داہنے اور بائیں جانب پھیلایا (یعنی اس طرح ہر طرف سفیدی پھیل جائے) تب سمجھو کہ صبح ہو گئی۔
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دو اذانوں کے درمیان میں ایک نماز ہے۔“ یہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (پھر فرمایا کہ): ”اگر کوئی پڑھنا چاہے۔“ ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت) کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت) کے درمیان ایک نماز ہے۔“ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: ”اگر کوئی چاہے تو (پڑھ سکتا ہے)۔“
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہم بیس شب و روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نرم دل مہربان تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ ہم کو اپنے گھر والوں کے پاس (پہنچنے) کا اشتیاق ستا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس لوٹ جاؤ اور ان ہی لوگوں میں رہو اور ان کو تعلیم دو اور (اچھی باتوں کا) حکم دو اور نماز قائم کرو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان دے اور تم میں سے جو سب سے بڑا ہو وہ تمہارا امام بنے۔“
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفر کے ارادے سے آئے تو ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”جب تم نکلو (اور نماز کا وقت آ جائے) تو تم اذان دو پھر اقامت کہو اس کے بعد جو تم میں سے بڑا ہو وہ تمہارا امام بنے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو حکم دے دیتے تھے کہ اذان کے بعد وہ یہ کہہ دے کہ: ”اپنی اپنی قیام گاہوں میں نماز پڑھ لو“(اور جماعت کے لیے نہ آؤ) اور ایسا سردی یا بارش کی رات میں (جب) سفر میں (ہوتے تو) کیا کرتے۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کی آواز سنی۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟ (یعنی یہ شور کیوں ہوا؟)“ انھوں نے عرض کی کہ ہم نے نماز کے لیے جلدی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا نہ کرنا جب تم نماز کے لیے آؤ تو نہایت اطمینان سے آؤ پھر جس قدر نماز پاؤ اس قدر پڑھ لو اور جس قدر تم سے جاتی رہے اس کو پورا کر لو۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز کی اقامت ہو گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشہ میں کسی شخص سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نہیں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ بعض لوگ اونگھنے لگے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یقیناً میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیوں کو جمع کرنے کا حکم دوں پھر نماز کے لیے حکم دوں کہ اس کے لیے اذان دی جائے پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کا امام بنے اور میں کچھ لوگوں کی طرف جاؤں اور ان کے گھروں کو ان پر جلا دوں۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ان میں سے کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ فربہ ہڈی یا دو عمدہ گوشت والی ہڈیاں پائے گا تو یقیناً عشاء کی نماز میں ضرور آئے۔“