سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری شخص کے پاس (بلانے کو) کوئی آدمی بھیجا تو وہ آئے، اس حال میں کہ ان کے سر سے (غسل کا) پانی ٹپک رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید ہم نے تمہیں (بلانے میں) جلدی کی؟“ انھوں نے عرض کی کہ ہاں یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جلدی کی جائے یا (اور کسی سبب سے) انزال نہ ہو تو تمہارے اوپر وضو (فرض) ہے (غسل فرض نہیں)۔“(لیکن یہ حکم منسوخ ہے)۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو) مغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے اعضاء شریفہ) پر پانی ڈالنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے لگے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کا مسح کیا اور موزوں پر (بھی) مسح کیا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ ایک شب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہے (اور وہ ان کی خالہ ہیں)(ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ) میں مسند (بستر) کے عرض میں لیٹ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی میمونہ (رضی اللہ عنہا) اس کے طول میں لیٹ گئے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے رہے، یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی یا اس کے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور نیند (کے آثار) کو مٹانے کے لیے اپنے چہرہ مبارک کو اپنے ہاتھ سے ملتے ہوئے بیٹھ گئے۔ پھر آخری دس آیات سورۃ آل عمران کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائیں پھر اس کے بعد ایک لٹکی ہوئی مشک کی طرف (متوجہ ہو کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اس سے اچھی طرح وضو کیا پھر نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں (بھی) اٹھا اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا میں نے (بھی) کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں پہلو میں کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑا اور مجھے اپنی داہنی جانب کر لیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور دو رکعتیں ہلکی (سنت فجر کی) پڑھ لیں تو پھر تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھی۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا کہ کیا آپ مجھے دکھلا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کیا کرتے تھے؟ تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں (میں دکھا) سکتا ہوں۔ پھر انھوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھ پر ڈالا پھر اپنے ہاتھ دو مرتبہ دھوئے پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑا پھر اپنے منہ کو تین مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سر کا اپنے دونوں ہاتھوں سے مسح کر لیا یعنی ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے۔ سر کے پہلے حصے سے ابتداء کی اور دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے پھر ان دونوں کو وہیں تک واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا پھر اپنے دونوں پاؤں دھو ڈالے۔
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے تو وضو کا پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر چکے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لینے لگے اور اس کو (اپنے چہرے اور آنکھوں پر) ملنے لگے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں (قصر) پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غنزہ (یعنی نیزہ) بطور سترہ کے گڑا ہوا تھا۔
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے میری خالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری بہن کا (یہ) لڑکا بیمار ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو (سے بچے ہوئے) پانی کو پی لیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پس پشت کھڑا ہو گیا تو میں نے مہر نبوت کو دیکھ لیا (جو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مثل حجلہ کی گھنڈی کے (تھی)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور میں (ایسا سخت) بیمار تھا کہ (کوئی بات) سمجھ نہ سکتا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اپنے وضو سے (بچا ہوا پانی) میرے اوپر ڈالا تو میں ہوش میں آ گیا اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! (میری) میراث کس کے لیے ہے؟ میرا تو صرف ایک کلالہ وارث ہے۔ پس فرائض کی آیت نازل ہوئی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کا وقت آیا تو جس شخص کا گھر وہاں سے قریب تھا وہ (وضو کرنے اپنے گھر) چلا گیا اور چند لوگ رہ گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پتھر کا ایک مخضب (ظرف) لایا گیا جس میں پانی تھا اور مخضب میں یہ گنجائش نہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہتھیلی اس میں پھیلا سکیں۔ پس تمام لوگوں نے (اسی تھوڑے سے پانی سے) وضو کیا۔ (راوی حمید کہتے ہیں) ہم نے (انس رضی اللہ عنہ سے) پوچھا کہ تم لوگ (اس وقت) کس قدر تھے؟ انھوں نے کہا کہ اسی اور (بلکہ اسی سے) کچھ زیادہ ہی تھے۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قدح (پیالہ) منگوایا جس میں پانی تھا، پھر اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرہ انور کو دھویا اور اسی میں کلی کی۔