ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رات کو جب پاخانہ کے لیے گھر سے باہر جاتی تھیں، تو مناصع کی طرف نکل جاتی تھیں اور مناصع (کے معنی ہیں) فراخ ٹیلہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایسا) نہ کرتے تھے۔ تو ایک شب عشاء کے وقت ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا (یعنی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی باہر نکلیں اور وہ دراز قد عورت تھیں تو انھیں عمر رضی اللہ عنہ نے محض اس خواہش سے کہ پردہ (کا حکم) نازل ہو جائے، پکارا کہ آگاہ ہو اے سودہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے پردہ (کا حکم) نازل فرما دیا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی حاجت کے لیے نکلتے تھے تو میں اور ایک اور لڑکا (دونوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کا ایک ظرف (برتن) ہوتا تھا۔
(سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہی) دوسری روایت میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے جاتے تو میں اور ایک اور لڑکا پانی کا ایک ظرف اور چھوٹا نیزہ اٹھا لیتے، پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم استنجاء فرماتے تھے۔
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی تم میں سے پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانے کے لیے جائے تو اپنی شرمگاہ کو اپنے داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے نہ ہی اپنے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حاجت (رفع کرنے) کے لیے نکلے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی عادت تھی کہ) ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے پتھر تلاش کر دو تاکہ میں اس سے پاکی حاصل کروں۔“(یا اسی کے مثل (کوئی اور لفظ) فرمایا)”اور ہڈی میرے پاس نہ لانا اور نہ گوبر۔“ چنانچہ میں اپنے کپڑے کے دامن میں پتھر (رکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور ان کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں رکھ دیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہٹ آیا۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر چکے تو پتھروں کو استعمال کیا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاخانہ کے لیے گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں تین پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آؤں۔ دو پتھر تو میں نے پائے اور تیسرے کو تلاش کیا مگر نہ پایا، تو میں نے ایک ٹکڑا (خشک) گوبر کا لے لیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر لے لیے اور گوبر گرا دیا اور فرمایا کہ یہ نجس ہے۔
(عروہ رحمہ اللہ راوی ہیں کہ حمران حضرت عثمان کے مولیٰ نے خبر دی کہ) سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اپنی ہتھیلیوں پر تین بار پانی ڈلا اور ان کو دھویا۔ (پھر چلو میں پانی لیا) اور کلی کی اور ناک صاف کی۔ پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیر ٹخنوں تک تین بار دھوئے۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو کوئی میرے اس وضو کی مثل وضو کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور ان میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
اور ایک دوسری حدیث میں امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ نے (وضو کرنے کے بعد) کہا کہ میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، اگر قرآن کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تم کو یہ حدیث نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور اس کے بعد نماز پڑھے (کوئی فرض نماز) تو جتنے گناہ اس نماز سے دوسری نماز پڑھنے تک ہوں گے، وہ معاف کر دیے جائیں گے۔“(عروہ نے) کہا کہ وہ آیت (سورۃ البقرہ کی) ہے ”جو لوگ ہماری اتاری ہوئی آیتیں چھپاتے ہیں“ .... آخر تک۔