سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (عید کے دن مردوں کی صف سے عورتوں کی طرف) نکلے اور آپ کے ہمراہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گمان کیا کہ (شاید) عورتوں نے (خطبہ صحیح طرح) نہیں سنا، تو آپ نے انھیں نصیحت فرمائی اور انھیں صدقہ (دینے) کا حکم دیا۔ پس (کوئی) عورت بالی اور (کوئی) انگوٹھی ڈالنے لگی (کوئی کچھ اور) اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے دامن میں سمیٹنے لگے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) نے کہا یا رسول اللہ! قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ بہرہ مند آپ کی شفاعت سے کون ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مجھے یقین تھا کہ اے ابوہریرہ! تم سے پہلے کوئی یہ بات مجھ سے نہ پوچھے گا، اس وجہ سے کہ میں نے تمہاری حرص حدیث (کے دریافت کرنے) پر دیکھ لی ہے۔ تو (سن لو!) سب سے زیادہ بہرہ مند میری شفاعت سے قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جو اپنے خالص دل سے یا اپنے خالص جی سے لا الہٰ الا اللہ کہہ دے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھاتا کہ بندوں (کے سینوں) سے نکال لے، بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھاتا ہے، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار (مفتی و پیشوا) بنا لیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے (خود بھی) گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ (آپ سے فائدہ اٹھانے میں) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی دن (برائے وعظ) مقرر فرما دیجئیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کسی دن کا وعدہ کر لیا۔ چنانچہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے اور انھیں نصیحت فرمائی اور (ان کے مناسب حال عبادت کا) انھیں حکم دیا، منجملہ اس کے جو آپ نے (ان سے) فرمایا، یہ تھا کہ جو عورت تم میں سے اپنے تین لڑکے آگے بھیج دے گی (یعنی اس کے تین لڑکے اس کے سامنے مر جائیں گے) تو وہ اس کے لیے (دوزخ کی) آگ سے حجاب (آڑ) ہو جائیں گے۔“ ایک عورت بولی اور (اگر کوئی) دو (لڑکے آگے بھیجے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور دو (کا بھی یہی حکم ہے) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ تین لڑکے (ایسے ہوں) جو بلوغت (کی عمر) کو نہ پہنچے ہوں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت میں) جس کا حساب لیا گیا، اسے (ضرور) عذاب کیا جائے گا۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں (یہ سن کر) میں نے کہا کہ کیا اللہ پاک نہیں فرماتا ”عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا“(الانشقاق: 8)۔ (معلوم ہوا کہ آسان حساب کے بعد عذاب کا ہونا کچھ ضروری نہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (حساب جس کا ذکر اس آیت میں ہے درحقیقت حساب نہیں ہے بلکہ اعمال کا) صرف پیش کر دینا ہے لیکن جس شخص سے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی تو وہ (یقیناً) ہلاک ہو گا۔“
سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن بیان فرمایا تھا، جس کو میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور اس کو میرے دل نے یاد رکھا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (خطبہ) کو بیان فرمایا تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی پھر فرمایا: ”مکہ (میں جنگ و جدل وغیرہ) کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے لوگوں نے حرام نہیں کیا۔ پس جو شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو، تو اس کو جائز نہیں کہ مکہ میں خونریزی کرے اور نہ (یہ جائز ہے کہ) وہاں کوئی درخت کاٹے، پھر اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں لڑنے سے (ان چیزوں کا) جواز بیان کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دے دی تھی اور تمہیں اجازت نہیں دی اور مجھے بھی صرف ایک گھڑی بھر دن کی وہاں اجازت دی تھی، پھر آج اس کی حرمت (حسب سابق) ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے کل تھی، پس حاضر کو چاہیے کہ وہ غائب کو (یہ خبر) پہنچا دے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اوپر ہرگز جھوٹ نہ بولنا، کیونکہ جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔“
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو کوئی میری نسبت وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کر لے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت (میری زندگی میں، جو ابوالقاسم ہے) نہ رکھو اور (یقین کر لو کہ) جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو یقیناً اس نے مجھے دیکھ لیا، اس لیے کہ شیطان میری شکل و شباہت اختیار نہیں کر سکتا، صورت نہیں بن سکتا اور جو شخص عمداً میرے اوپر جھوٹ بولے تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کر لے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ سے فیل (ہاتھیوں کے لشکر) کو یا قتل کو روک لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کو ان پر غالب کر دیا۔ آگاہ رہو مکہ (میں قتال کرنا) نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو وہ میرے لیے ایک گھڑی بھر دن میں حلال ہو گیا تھا، آگاہ رہو (اب) وہ اس وقت حرام ہے۔ اس کا کاٹنا نہ توڑا جائے اور اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور اس کی گری ہوئی چیز سوائے اعلان کرنے والے کے کوئی نہ اٹھائے (یعنی جو اس کے اصل مالک کو ڈھونڈے اور یہ چیز اس کے حوالے کرے) اور جس کسی کا کوئی (عزیز) قتل کیا جائے تو اسے (ان) دو صورتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کو دیت دلا دی جائے یا قصاص لیا جائے (قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالے کیا جائے)۔“ اتنے میں ایک شخص اہل یمن میں سے آ گیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! (یہ خطبہ) میرے لیے لکھ دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوفلاں کے لیے لکھ دو۔“ پھر قریش کے ایک شخص نے کہا کہ (یا رسول اللہ!) اذخر (گھاس) کے سوا (اور چیزوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائیے اور اذخر کی ممانعت نہ فرمائیے) اس لیے کہ ہم اس کو اپنے گھروں اور قبروں میں لگاتے ہیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ہاں) اذخر کے سوا (اور اشیاء کاٹنے کی ممانعت ہے)۔“