- (صدقت ام طليق؛ لو اعطيتها الجمل كان في سبيل الله، ولو اعطيتها ناقتك كانت وكنت في سبيل الله، ولو اعطيتها من نفقتك اخلفكها الله).- (صَدَقت أمُّ طُلَيْقٍ؛ لو أعطيتَها الجمَلَ كان في سبيلِ اللهِ، ولو أعطيتها ناقتكَ كانت وكنتَ في سبيلِ اللهِ، ولو أعطيتها من نفقتِكَ أَخْلَفَكَها اللهُ).
طلق بن حبیب بصری سے روایت ہے کہ سیدنا ابوطلیق رضی اللہ عنہ نے ان کو بیان کیا کہ میری بیوی ام طلیق رضی اللہ عنہا میرے پاس آئی اور کہا: ابوطلیق! حج کی تیاری کرو۔ میرے پاس ایک اونٹ اور ایک اونٹنی تھی۔ اونٹنی کو حج کے لیے اور اونٹ کو جہاد کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اس نے مجھ سے اونٹ کا مطالبہ کیا تاکہ وہ حج کر سکے۔ میں نے کہا: کیا تو جانتی نہیں کہ میں نے اسے اللہ کی راہ کے لیے وقف کر دیا ہے؟ اس نے کہا: حج بھی اللہ کی راہ میں آتا ہے، اس لیے مجھے دے دے، اللہ تجھ پر رحم کرے۔ میں نے کہا: میں نہیں چاہتا کہ تجھے دوں۔ اس نے کہا: تو پھر مجھے اونٹنی دے دو اور خود اونٹ پر حج کر لو۔ میں نے کہا: میں تجھے خود پر ترجیح نہیں دوں گا۔ اس نے کہا: تو پھر کوئی خرچ ورچ ہی دے دو۔ میں نے کہا: میرے پاس اتنا مال ہے ہی نہیں جو میری اور میرے اہل و عیال کی ضروریات سے زائد ہو۔ اس نے کہا: اگر تو مجھے دے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے بہتر بدلہ عطا کرے گا۔ جب میں نے اس کا بھی انکار کیا تو اس نے کہا: جب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے تو آپ کو میرا سلام دینا اور میں نے جو کچھ تجھے کہا:، آپ کو بتلا دینا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ کو اس کا سلام پہنچایا اور اس کی ساری باتیں بتلا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام طلیق سچی ہے، اگر تو اسے اونٹ دے دیتا تو وہ اللہ کی راہ میں ہی ہوتا اور اگر اونٹنی دیتا تو تم دونوں اللہ کی راہ میں ہوتے اور اگر تو اسے کوئی خرچ ورچ دے دیتا تو اللہ تجھے بہتر بدل عطاکرتا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ آپ سے یہ سوال بھی کر رہی تھی کہ آپ کے پاس کون سا عمل ہے جو حج کرنے کے برابر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان میں عمرہ کرنا۔“
-" خير الناس في الفتن رجل آخذ بعنان فرسه او قال برسن فرسه خلف اعداء الله يخيفهم ويخيفونه، او رجل معتزل في باديته يؤدي حق الله الذي عليه".-" خير الناس في الفتن رجل آخذ بعنان فرسه أو قال برسن فرسه خلف أعداء الله يخيفهم ويخيفونه، أو رجل معتزل في باديته يؤدي حق الله الذي عليه".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فتنوں کے زمانے میں بہتر آدمی وہ ہوگا جو اپنے گھوڑے کی لگام تھام کر اللہ کے دشمنوں کے تعاقب میں رہے گا، وہ انھیں ڈرائے گا اور وہ اس کو خوفزدہ کریں گے یا وہ آدمی جو کسی ویرانے میں فروکش ہو گا اور اپنے اوپر عائد ہونے والے اللہ تعالی کے حقوق ادا کرتا رہے گا۔“
-" الا تسالوني مما ضحكت؟ قلنا: يا رسول الله مما ضحكت؟ قال: رايت ناسا من امتي يساقون إلى الجنة في السلاسل، ما اكرهها (¬1) إليهم! قلنا: من هم؟ قال: قوم من العجم يسبيهم المهاجرون فيدخلونهم في الإسلام".-" ألا تسألوني مما ضحكت؟ قلنا: يا رسول الله مما ضحكت؟ قال: رأيت ناسا من أمتي يساقون إلى الجنة في السلاسل، ما أكرهها (¬1) إليهم! قلنا: من هم؟ قال: قوم من العجم يسبيهم المهاجرون فيدخلونهم في الإسلام".
سیدنا ابوطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور بہت مسکرائے، پھر فرمایا: ”کیا تم مجھ سے میری مسکراہٹ کے بارے میں دریافت کرو گے؟“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنی امت کے کچھ لوگ دیکھے، جنہیں زنجیروں میں جکڑ کر جنت کی طرف لے جایا جا رہا ہے، وہ جنت انہیں بڑی ہی ناپسند ہے!“ ہم نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ عجمی لوگ ہیں، مہاجروں نے انھیں قیدی بنا کر اسلام میں داخل کر دیا۔“
- (اللهم! [انت] خلقت نفسي وانت توفاها، لك مماتها ومحياها، إن احييتها فاحفظها، وإن امتها فاغفر لها. اللهم! إني اسالك العافية).- (اللهمَّ! [أنتَ] خلقتَ نفسِي وأنتَ توفَّاها، لكَ مماتُها ومحياها، إن أحييتَها فاحفظها، وإن أمتَّها فاغفِر لها. اللهمَّ! إنَّي أسالُك العافِيةَ).
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو حکم دیا کے جب وہ اپنے بستر پر لیٹے تو کہے: اے: اللہ! تو نے میری جان کو پیدا کیا ہے اور تو ہی اس کو فوت کرے گا، تیرے لیے ہی اس کا مرنا اور زندہ رہنا ہے۔ اگر تو اس کو زندگی عطا کرئے تو اس کی حفاظت کرنا اور اگر موت دے تو بخش دینا۔ اے اللہ! میں تجھ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ اس آدمی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا تو نے یہ کلمات اپنے باپ عمر رضی اللہ عنہ سے سنے ہیں؟ انہوں نے کہا: عمر سے اعلی شخصیت یعنی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں۔
-" كان إذا غزا فلم يقاتل اول النهار لم يعجل حتى تحضر الصلوات وتهب الارواح ويطيب القتال".-" كان إذا غزا فلم يقاتل أول النهار لم يعجل حتى تحضر الصلوات وتهب الأرواح ويطيب القتال".
جبیر بن حیہ کہتے ہیں: مجھے میرے باپ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہرمزان سے کہا: تم تو مجھ سے بچ گئے ہو، اب ہماری خیرخواہی تو کرو۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے اسے امان دیتے ہوئے کہا: کوئی حرج نہیں، تم بات کر سکتے ہو۔ سو ہرمزان نے کہا: جی ہاں، آج فارس کا ایک سر ہے اور دو بازو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: سر کہاں ہے؟ ہرمزان: نہاوند، جو بندار کے ساتھ ہے، اس کے ساتھ کسری کے کمانڈر اور اہل اصفہان بھی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: دو بازوں کہاں ہیں؟ ہرمزان: راوی کہتا ہے کہ اس نے جو جگہ ذکر کی تھی، وہ اسے بھول گئی ہے، پھر ہرمزان نے کہا: بازؤوں کو کاٹ دو، تاکہ سر کمزور ہو جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ: اللہ کے دشمن! تو جھوٹ بول رہا ہے، ہم پہلے سر پر چڑھائی کریں گے، اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ملیا میٹ کر دے گا، اگر ایسے ہو گیا تو بازو خود بخود دم توڑ جائیں گے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ جنگ میں بنفس نفیس شرکت کریں۔ لیکن لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہم آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ خود عجموں کی طرف نہ جائیں، اگر آپ شہید ہو گئے تو مسلمانوں کا نظام درہم برہم ہو جائے گا، آپ مجاہدین کے لشکروں کو بھیج دیں۔ (آپ نے اسی رائے پر عمل کیا اور) اور اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمر، مہاجرین اور انصار سمیت اہل مدینہ کو اہل فارس سے لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ ادھر سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اہل بصرہ کو لے کر اور سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اہل کوفہ کو لے کر نہاوند جمع ہو جائیں۔ جب تم سارے جمع ہو جاؤ تو تمہارے امیر سیدنا نعمان بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ جب یہ لشکر نہاوند میں جمع ہوئے تو (عامل کسری) بندار، جو کہ آتش پرست تھا، نے ان کی طرف پیغام بھیجا: عربوں کی جماعت! اپنا قاصد بھیجو تاکہ بات کی جا سکے۔ لوگوں نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا۔ جبیر بن حیہ کہتے ہیں: گویا میں اب بھی مغیرہ کو دیکھ رہا ہوں، وہ ایک دراز قد آدمی تھے، ان کے لمبے لمبے بال تھے اور وہ کانے بھی تھے۔ پس وہ چلے گئے اور جب (گفت و شنید کر کے) واپس آئے تو ہم نے پوچھا: (کہ کیا کر کے آئے ہو)۔ انہوں نے کہا: آتش پرست نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور پوچھا: اس عربی کے لیے ہم کیسا ماحول بنائیں؟ کیا حسن و جمال، خوشی و شادمانی اور ملوکیت و بادشاہت والا یا پھر جان بوجھ کر تنگ حالی ظاہر کریں اور دنیوی (آرائشوں اور سہولتوں) سے ذرا دور ہو جائیں؟ انہوں نے کہا: بلکہ ہمیں چاہیے کہ اپنے حسن اور تعداد کی اعلیٰ صورت اختیار کریں۔ (بہرحال میں وہاں پہنچ گیا) کیا دیکھتا ہوں کہ لڑنے کے آلے اور ڈھالیں، بس آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، میں نے دیکھا کہ وہ بندار کے پاس کھڑے تھے، جبکہ وہ سونے کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سر پر تاج تھا۔ میں سیدھا آگے نکل گیا اور اس کے ساتھ تخت پر بیٹھنے کے لیے سر جھکایا (جیسے عام بندہ بیٹھنے کی تیاری کرتا ہے)، لیکن مجھے دھکیلا گیا اور میری زجر و توبیخ کی گئی۔ میں نے کہا: کہ قاصدوں سے ایسی (بدسلوکی) نہیں کرتے۔ جبکہ انہوں نے مجھے کہا: تو کتا ہے، کیا تو بادشاہ کے ساتھ بیٹھتا ہے؟ میں نے کہا: جتنا تم میں اس کا مقام ہے، میری قوم میں اس سے زیادہ میرا مقام ہے۔ پھر بھی اس نے مجھے ڈانٹا اور کہا: بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا۔ (پہلے بادشاہ نے کچھ کہا: اور) میرے سامنے اس کی بات کا یوں ترجمہ پیش کیا گیا: او عربوں کی جماعت! تم سب سے زیادہ بھوکے تھے، سب سے بڑے بدبخت تھے، سب سے زیادہ گندے تھے، (ترقی یافتہ سلطنتوں سے) بلکہ ہر خیر سے بہت دور تھے، میں نے تمہیں تیروں میں پرونے والے اپنے کمانڈروں کو حکم دے دینا تھا، لیکن تمہاری گندی اور پلید لاشوں کی وجہ سے ایسے نہیں کیا، اب اگر تم واپس چلے گئے تو ٹھیک اور اگر ایسا کرنے سے انکار کیا تو ہم تمہیں تمہاری قتل گاہوں میں ٹھہرا دیں گے۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: بخدا! تو نے ہمارے صفات بیان کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی، ہم (ترقی یافتہ سلطنتوں) سے دور تھے، بھوکے تھے، بدبخت تھے اور ہر بھلائی سے محروم تھے۔ (لیکن ایک ایسا وقت آیا کہ) اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا رسول مبعوث کر دیا، اس نے ہمیں دنیا میں تائید و نصرت اور آخرت میں جنت و بہشت کی خوشخبریاں دیں، اس رسول کی آمد سے لے کر یہاں تمہارے پاس پہنچنے تک ہم اپنے رب سے کامیابی اور مدد وصول کرتے رہے، ٹھیک ہے، تمہارے پاس ایسی بادشاہت اور زندگی ہے، (لیکن یہ ہمارے نزدیک بدبختی ہے) اور ہم اس شقادت کی طرف کبھی نہیں لوٹیں گے، جب تک تم پر غالب نہ آ جائیں یا پھر یہیں شہید نہ ہو جائیں۔ اس نے کہا: کانے نے اپنے دل کی بات بیان کر دی اور سچ کہا: ہے۔ اس کے بعد میں اس کے پاس سے کھڑا ہوا (اور واپس آ گیا)، اللہ کی قسم! میں نے اپنے انداز سے پارسی کو مرعوب کر دیا۔ اس نے ہماری طرف پیغام بھیجا کہ تم (دریا) عبور کر کے آؤ گے یا ہم؟ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: (میرے ساتھیو!) تم عبور کر کے جاؤ، پس ہم (دریا) عبور کر کے پہنچ گئے۔ میرے باپ (جبیر) نے کہا: میں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا، آتش پرست فارسیوں کا لشکر یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ لوہے کا پہاڑ ہے، انہوں نے عربوں کا مقابلہ کرنے سے فرار نہ ہونے کا عہد و پیمان کر رکھا تھا اور بعض (جنگجؤں) کو بعض کے ساتھ ملایا گیا تھا، حتی کہ ایک رسی میں سات افراد تھے اور انہوں نے اپنے پیچھے نوک دار لوہا بچھا دیا اور کہنے لگے کہ جو بھی فرار اختیار کرے گا، نوک دار لوہا اسے زخمی کر دے گا۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ان کی کثرت کو دیکھ کر کہا: کہ (اس جنگ میں کافروں کی جتنی تعداد قتل ہو گی) اتنی تعداد میں نے کبھی نہیں دیکھی، بے شک ہمارا دشمن نیند یا سکون کو ترک کر چکا ہے، اس لیے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال اگر میں امیر ہوتا تو ان کے ساتھ تیزی کے ساتھ مقابلہ کرتا۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ بہت زیادہ رونے والے شخص تھے، انہوں نے مجھے کہا: اللہ تجھے اس قسم کے حالات میں حاضر کرے گا، (اس وقت دیکھ لینا کہ کیا کرنا ہے)۔ اب تیرا جو مقام ہے، اس پر تجھے پریشان ہونا چاہئیے نہ اسے معیوب سمجھنا چاہئیے۔ اللہ تعالیٰ کی قسم! مجھے ان کے ساتھ لڑائی کرنے میں عجلت سے مانع چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ میں تشریف لے جاتے تو دن کے شروع میں لڑائی نہ کرتے، بلکہ ٹھہرتے حتی کہ نماز کا وقت ہو جاتا (یعنی سورج ڈھل جاتا)، ہوائیں چلنا شروع ہو جاتیں اور لڑنا خوشگوار ہو جاتا۔ پھر سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جس فتح میں اسلام اور اہل اسلام کی عزت اور کفر اور اہل کفر کی ذلت ہو، اس کے ذریعے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کر دینا اور اس کے بعد مجھے شہادت عطا کر دینا۔ پھر کہا: آمین کہو، پس ہم نے آمین کہی۔ پھر وہ رونے لگ گئے اور ہم بھی روئے۔ پھر سیدنا نعمان نے کہا: جب میں پہلی دفعہ جھنڈا ہلاؤں گا تو اپنا اسلحہ تھام لینا، جب دوسری دفعہ ہلاؤں تو دشمن سے لڑنے کے لئے تیار ہو جانا اور جب تیسری دفعہ ہلاؤں تو ہر کوئی اللہ تعالیٰ کی برکت کے ساتھ اپنے قریبی دشمن پر حملہ کر دے۔ جب (ظہر کی) نماز کا وقت ہوا اور ہوائیں چل پڑیں تو انہوں نے اللہ اکبر کہا:، ہم نے بھی اللہ اکبر کہا:۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ان شاء اللہ فتح کی ہوا چل پڑی ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی میری دعا قبول کر کے ہمیں فتح عطا کرے گا۔ پھر انہوں نے پہلی دفعہ جھنڈا ہلایا، پھر دوسری دفعہ ہلایا اور جب تیسری دفعہ اسے حرکت دی تو ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں شہید ہو جاؤں تو حذیفہ بن یمان امیر لشکر ہوں گے، اگر وہ بھی شہید ہو جایئں تو فلاں ہوں، ان کے بعد فلاں، حتیٰ، کے انہوں نے سات امیروں کا ذکر کیا، آخر میں سیدنا مغیرہ شعبہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا۔ میرے باپ (جبیر) نے کہا: اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق ہر مسلمان یہ چاہتا تھا کہ یا تو وہ شہید ہو جائے یا پھر فتح یاب، دشمن بھی ہمارے مقابلے میں ڈٹے رہے، ہمیں صرف لوہے کی لوہے پر پڑنے کی آواز آتی تھی، بالآخر ایسے ہوا کہ مسلمان کی بہت بڑی تعداد شہید ہو گئی، لیکن جب انہوں نے ہمارا صبر اور عزم دیکھا کہ ان لوگوں کا فرار ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو وہ شکست کے لیے تیار ہو گئے، جب ایک مجاہد کسی ایک دشمن پر حملہ آور ہوتا تو وہ ایک رسی میں باندھے ہوئے ساتوں کے سات اس پر ٹوٹ پڑھتے، لیکن ہوتا یوں کہ سارے کے سارے قتل ہو جاتے پیچھے سے نوکیلا لوہا ان کو زخمی کرتا، سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جھنڈا آگے بڑھاؤ، پس ہم نے جھنڈا آگے بڑھانا اور ان کو قتل کرنا شروع کر دیا اور وہ شکست کھانا شروع ہو گئے۔ جب سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی ہے اور فتح عطا کی ہے، اسی اثنا میں ایک تیر آیا اور ان کی کوکھ میں پیوست ہو گیا اور وہ شہید ہو گئے۔ ان کے بھائی معقل بن مقرن نے ان کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اور جھنڈا خود تھام لیا اور آگے بڑھا اور کہا: اللہ تم پر رحم کرے، پیش قدمی جاری رکھو، سو ہم نے ایسا ہی کیا اور ان کو شکست دینا اور ان کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو لوگ جمع ہو کر پوچھنے لگے کہ امیر کہاں ہے؟ معقل نے کہا: یہ تمہارا امیر ہے، اللہ تعالی نے فتح عطا کر کے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کر کے ان کو شہادت سے ہمکنار کر دیا۔ لوگوں نے سیدنا حزیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ ادھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں دعا کرنے میں مگن اور حاملہ کے چیخنے کی طرح منتظر تھے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان کو فتح کا پیغام پہنچانے کے لیے خط لکھا اور ایک مسلمان کے ہاتھ بھیج دیا۔ جب وہ پہنچا تو یوں فتح کا پیغام سنایا: امیر المؤمنین! خوش ہو جائیے، فتح ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت دی ہے اور شرک اور مشرکوں کو ذلیل کر دیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تجھے نعمان نے بھیجا ہے؟ اس نے کہا: امیر المؤمنین! نعمان کی وفات پر ثواب کی توقع کے ساتھ صبر کیجئیے۔ یہ سن کر آپ نے رونا اور اناللہ پڑھنا شروع کر دیا اور کہا: تو ہلاک ہو جائے، تو پھر امیر کا کیا بنا؟ اس نے کہا: فلاں تھا، فلاں تھا، پھر اس نے کچھ نام لینے کے بعد کہا: امیر المؤمنین! اور لوگ بھی ہیں، لیکن آپ ان کو نہیں جانتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:، جبکہ وہ خود رو رہے تھے: اگر عمر نہیں جانتا تو کوئی حرج نہیں، اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے۔
- (إن الاشعريين إذا ارملوا في الغزو، او قل طعام عيالهم بالمدينة؛ جمعوا ما كان عندهم في ثوب واحد، ثم اقتسموه بينهم في إناء واحد بالسوية، فهم مني وانا منهم).- (إنّ الأشْعريّين إذا أرملُوا في الغزْو، أو قلَّ طعامُ عِيالهم بالمدينةِ؛ جمعُوا ما كانَ عندَهم في ثوْبٍ واحدٍ، ثم اقتسمُوه بينهم في إناءٍ واحدٍ بالسَّوِيَّةِ، فهم منّي وأنا منهم).
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک کسی غزوہ کے دوران اشعری لوگوں (میں سے) جب بعض لوگ بے توشہ ہونے لگتے ہیں یا مدینہ میں ان کے اہل و عیال کا کھانا کم ہونے لگتا ہے تو جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے، وہ سارا ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں، پھر ایک برتن کے ذریعے برابر برابر آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں، یہ لوگ مجھ میں سے ہیں اور میں ان میں سے ہوں۔
- (إن اول الناس يقضى يوم القيامة عليه: رجل استشهد، فاتي به، فعرفه نعمه فعرفها. قال: فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت. قال: كذبت، ولكنك قاتلت ليقال: جريء؛ فقد قيل. ثم امربه؛ فسحب على وجهه حتى القي في النار. ورجل تعلم العلم وعلمه، وقرا القرآن، فاتي به، فعرفه نعمه فعرفها. قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم وعلمته، وقرات فيك القرآن. قال: كذبت، ولكنك تعلمت العلم ليقال: عالم، وقرات القرآن ليقال: هو قارئ، فقد قيل. ثم امر به؛ فسحب على وجهه حتى القي في النار. ورجل وسع الله عليه، واعطاه من اصناف المال كله، فاتي به، فعرفه نعمه فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: ما تركت من سبيل تحب ان ينفق فيها إلا انفقت فيها لك. قال: كذبت، ولكئك فعلت ليقال: هو جواد، فقد قيل. ثم امر به؛ فسحب على وجهه ثم القي في النار).- (إنّ أول الناس يقضى يوم القيامة عليه: رجل استشهد، فأتي به، فعرفه نعمه فعرفها. قال: فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت. قال: كذبت، ولكنك قاتلت ليقال: جريءٌ؛ فقد قيل. ثم أمربه؛ فسحب على وجهه حتى ألقي في النار. ورجلٌ تعلم العلم وعلمه، وقرأ القرآن، فأتي به، فعرفه نعمه فعرفها. قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم وعلمته، وقرأت فيك القرآن. قال: كذبت، ولكنك تعلمت العلم ليقال: عالمٌ، وقرأت القرآن ليقال: هو قارئٌ، فقد قيل. ثم أمر به؛ فسحب على وجهه حتى ألقي في النار. ورجل وسع الله عليه، وأعطاهُ من أصناف المال كله، فأُتي به، فعرفه نعمه فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: ما تركتُ من سبيل تحبُّ أن يُنفق فيها إلا أنفقت فيها لك. قال: كذبت، ولكئك فعلت ليقال: هو جوادٌ، فقد قيل. ثم اُمر به؛ فسحب على وجهه ثم ألقي في النار).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت جن لوگوں کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا (وہ یہ ہیں:)(۱) وہ آدمی جو شہید ہوا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا اور وہ اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے کون سا عمل کیا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیری خاطر لڑائی کی، حتی کہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو اس لیے لڑا تھا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے، اور وہ کہا جا چکا ہے، پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۲) وہ آدمی، جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کروائیں گے، وہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کون سا عمل کر کے آیا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیری خاطر علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے، تو نے تو علم اس لیے حاصل کیا تھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن مجید پڑھا، تاکہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (٣) وہ آدمی، جسے اللہ تعالیٰ نے رزق میں فراوانی دی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اس کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا تعارف کروائیں گے، وہ اقرار کر لے گا۔ پھر للہ تعالیٰ پوچھے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے ہر اس مصرف میں مال خرچ کیا جہاں خرچ کرنا تجھے پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے، تو نے تو اس لیے کیا تھا کے تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“
-" الغزو غزوان، فاما من ابتغى وجه الله واطاع الإمام وانفق الكريمة واجتنب الفساد، فإن نومه وتنبهه اجر كله، واما من غزا فخرا ورياء وسمعة وعصى الإمام وافسد في الارض، فإنه لا يرجع بكفاف".-" الغزو غزوان، فأما من ابتغى وجه الله وأطاع الإمام وأنفق الكريمة واجتنب الفساد، فإن نومه وتنبهه أجر كله، وأما من غزا فخرا ورياء وسمعة وعصى الإمام وأفسد في الأرض، فإنه لا يرجع بكفاف".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” غزوے کی دو قسمیں ہیں (۱) جس نے (جہاد کر کے) اللہ کی رضا مندی تلاش کی، حکمران کی اطاعت کی، عمدہ مال خرچ کیا اور فساد سے اجتناب کیا تو اس کا سونا اور جاگنا سب عبادت ہے اور (۲) جس نے فخر کرتے ہوئے، ریا کاری کرتے ہوئے اور شہرت کے حصول کے لیے (جہاد کیا)، حکمران کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد برپا کیا تو وہ برابر سرابر بھی نہیں لوٹے گا۔“
-" عليك بالهجرة فإنه لا مثل لها،...، عليك بالصوم فإنه لا مثل له، عليك بالسجود، فإنك لا تسجد لله سجدة إلا رفعك الله بها درجة وحط عنك بها خطيئة".-" عليك بالهجرة فإنه لا مثل لها،...، عليك بالصوم فإنه لا مثل له، عليك بالسجود، فإنك لا تسجد لله سجدة إلا رفعك الله بها درجة وحط عنك بها خطيئة".
سیدنا ابوفاطمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ہجرت کر، اس کی کوئی مثال نہیں۔ تو روزوں کا اہتمام کر، وہ بے مثال عبادت ہے اور سجدے کیا کر، کیونکہ جب بھی تو سجدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ تیرا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے۔“
-" إن الهجرة لا تنقطع ما كان الجهاد".-" إن الهجرة لا تنقطع ما كان الجهاد".
سیدنا جنادہ بن ابوامیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دفعہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہجرت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، اس بارے میں ان کی آرا میں اختلاف نظر آنے لگا، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت منقطع ہو چکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک جہاد باقی ہے، ہجرت کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا۔“