-" اوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن كان عبدا حبشيا، فإنه من يعش منكم بعدي يرى اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين بعدي، عضوا عليها بالنواجذ [وإياكم ومحدثات الامور، فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة]".-" أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن كان عبدا حبشيا، فإنه من يعش منكم بعدي يرى اختلافا كثيرا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين بعدي، عضوا عليها بالنواجذ [وإياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة]".
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہمیں بعد از نماز فجر نہایت مؤثر وعظ کیا، جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے۔ ایک صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو گویا آخری الوداع کہنے کا وعظ ہے، (پس آپ ہمیں کوئی وصیت فرما دیجئے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی اور امیر کی بات سننے اور اس پر عمل کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام امیر مقرر ہو جائے۔ (یاد رکھو!) تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت اختلاف دیکھے گا، پس تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا، ان کو دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا۔ دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا، کیونکہ ایسا ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
-" تكون النبوة فيكم ما شاء الله ان تكون، ثم يرفعها الله إذا شاء ان يرفعها ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، فتكون ما شاء الله ان تكون، ثم يرفعها إذا شاء ان يرفعها، ثم تكون ملكا عاضا فيكون ما شاء الله ان تكون، ثم يرفعها إذا شاء الله ان يرفعها، ثم تكون ملكا جبريا فتكون ما شاء الله ان تكون، ثم يرفعها إذا شاء ان يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة. ثم سكت".-" تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها الله إذا شاء أن يرفعها ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون ملكا عاضا فيكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء الله أن يرفعها، ثم تكون ملكا جبريا فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة. ثم سكت".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بشیر اپنی بات کو روک دیتے تھے۔ اتنے میں ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ آئے اور کہا: بشیر بن سعد! کیا تجھے امرا کے بارے میں کوئی حدیث نبوی یاد ہے؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: (اس معاملے میں) مجھے آپ کا خطبہ یاد ہے۔ ابوثعلبہ بیٹھ گئے اور حذیفہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق کچھ عرصہ تک نبوت قائم رہے گی، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہیں گے اسے اٹھا لیں گے۔ نبوت کے بعد اس کے منہج پر اللہ کی مرضی کے مطابق کچھ عرصہ تک خلافت ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ اسے ختم کر دیں گے، پھر اللہ کے فیصلے کے مطابق کچھ عرصہ تک بادشاہت ہو گی، جس میں ظلم و زیادتی ہو گا، بالآخر وہ بھی ختم ہو جائے گی، پھر جبری بادشاہت ہو گی، وہ کچھ عرصہ کے بعد زوال پزیر ہو جائے گی، اس کے بعد منہج نبوت پر پھر خلافت ہو گی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔“
- (اول هذا الا مر نبوة ورحمة، ثم يكون خلافة ورحمة، ثم يكون ملكا ورحمة، ثم يتكادمون عليه تكادم الحمر، فعليكم بالجهاد، وإن افضل جهادكم الرباط، وإن افضل رباطكم عسقلان).- (أولُ هذا الأ مرِ نبوةٌ ورحمةٌ، ثمَّ يكونُ خلافةٌ ورحمةٌ، ثمّ يكون مُلكاً ورحمةً، ثمّ يتكادمون عليه تكادُم الحُمُرِ، فعليكُم بالجهادِ، وإن أفضل جهادِكم الرِّباطُ، وإن أفضلَ رباطِكم عسقلانُ).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس معاملے کی ابتدا نبوت و رحمت سے ہوئی ہے، اس کے بعد خلافت و رحمت ہو گی اور پھر بادشاہت اور رحمت۔ بعد ازاں گدھوں کا ایک دوسرے کو کاٹنے کی طرح لوگ اس پر ٹوٹ پڑیں گے، تم جہاد کو لازم پکڑنا، بہترین جہاد، رباط (سرحد پر مقیم رہنا) ہے اور (شام کے ساحلی شہر) عسقلان کا رباط سب سے افضل ہے۔“
-" قال حذيفة بن اليمان رضي الله عنه: كان الناس يسالون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير، وكنت اساله عن الشر مخافة ان يدركني، فقلت: يا رسول الله! إنا كنا في جاهلية وشر، فجاءنا الله بهذا الخير [فنحن فيه]، [ وجاء بك]، فهل بعد هذا الخير من شر [كما كان قبله؟]. [قال:" يا حذيفة تعلم كتاب الله واتبع ما فيه، (ثلاث مرات)". قال: قلت: يا رسول الله! ابعد هذا الشر من خير؟]. قال:" نعم. [قلت: فما العصمة منه؟ قال:" السيف"]. قلت: وهل بعد ذلك الشر من خير؟ (وفي طريق: قلت: وهل بعد السيف بقية؟) قال:" نعم، وفيه (وفي طريق: تكون إمارة (وفي لفظ: جماعة) على اقذاء، وهدنة على) دخن".-" قال حذيفة بن اليمان رضي الله عنه: كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير، وكنت أسأله عن الشر مخافة أن يدركني، فقلت: يا رسول الله! إنا كنا في جاهلية وشر، فجاءنا الله بهذا الخير [فنحن فيه]، [ وجاء بك]، فهل بعد هذا الخير من شر [كما كان قبله؟]. [قال:" يا حذيفة تعلم كتاب الله واتبع ما فيه، (ثلاث مرات)". قال: قلت: يا رسول الله! أبعد هذا الشر من خير؟]. قال:" نعم. [قلت: فما العصمة منه؟ قال:" السيف"]. قلت: وهل بعد ذلك الشر من خير؟ (وفي طريق: قلت: وهل بعد السيف بقية؟) قال:" نعم، وفيه (وفي طريق: تكون إمارة (وفي لفظ: جماعة) على أقذاء، وهدنة على) دخن".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں دریافت کرتا تھا تاکہ اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ (ایک دن) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کا زمانہ گزار رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے اسلام، جسے ہم نے قبول کیا، کو اور آپ کو ہماری طرف بھیچا۔ (اب سوال یہ ہے کہ) کیا اس خیر کے بعد پھر شر (کا غلبہ ہو گا) جیسا کہ پہلے تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: ”حذیفہ! اللہ کی کتاب پڑھ اور اس کے احکام پر عمل کر۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلوار۔“ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تلوار کے بعد خیر کا کوئی حصہ باقی رہے گا؟ (یعنی لڑائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اور ایک روایت میں ہے کہ امارت (اور جماعت) تو قائم رہے گی، لیکن معمولی چون وچرا اور دلوں میں نفرتیں اور کینے ہوں گے، ظاہری صلح، اور اندرون خانہ لڑائی ہو گی۔ میں نے کہا: کینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایک قوم یا مختلف حکمران ہوں گے جو میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور میری سیرت کے علاوہ کوئی اور سیرت اختیار کریں گے، تو ان کے بعض امور کو اچھا سمجھے گا اور بعض کو برا اور ان میں ایسے لوگ بھی منظر عام پر آئیں گے جو انسانوں کے روپ میں ہوں گے، لیکن ان کے دل شیطانی ہوں گے۔“ ایک روایت میں ہے: میں نے کہا: ظاہری صلح باطن لڑائی اور دلوں میں کینہ، ان چیزوں کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے دل (ان خصائل حمیدہ) کی طرف نہیں لوٹیں گے، جن سے وہ پہلے متصف ہوں گے۔“ میں نے کہا: کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اندھا دھند فتنہ ہو گا، اور (اس میں ایسے لوگ ہوں گے کہ گویا کہ) وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے داعی ہیں، جو آدمی ان کی بات مانے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لوگوں کی صفات بیان کیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہماری نسل کے ہوں گے اور ہما ری طرح با تیں کریں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر ایسا زمانہ مجھے پا لے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کی جماعت اور ان کے حکمران کو لازم پکڑے رکھنا، امیر کی بات سننا اور ماننا۔ اگرچہ تیری پٹائی کر دی جائے اور تیرا مال لوٹ لیا جائے پھر بھی ان کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔“ میں نے کہا: اگر سرے سے مسلمانوں کی جماعت ہو نہ حکمران (تو پھر میں کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام فرقوں سے کنارہ کش ہو جانا، اگرچہ کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹنا پڑے، یہاں تک کہ تجھے موت پا لے اور تو اسی حالت میں ہو۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”حذیفہ! کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹ کر مرنا ان (حکمرانوں) کی اطاعت کرنے سے بہتر ہو گا۔“ اور ایک روایت میں ہے:“ اگر ان دنوں میں تجھے اللہ کی زمین میں کوئی خلیفہ مل جائے تو اس کو لازم پکڑنا، اگرچہ وہ تیری پٹائی کرے اور تیرا مال چھین لے اور اگر تجھے کوئی خلیفہ نظر نہ آئے تو کسی (گوشئہ) زمین میں بھاگ جانا، حتی کہ تجھے موت آ جائے اور تو کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹا ہوا ہو۔“ میں نے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دجال ظاہر ہو گا۔“ میں نے کہا: وہ کون سی علامت لے کر آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہر یا پانی اور آگ کے ساتھ آئے گا، جو اس کی نہر میں داخل ہوا اس کا اجر ضائع اور گناہ ثابت ہو جائے گا اور جو اس کی آگ میں داخل ہوا اس کا اجر ثابت ہو جائے گا اور اس کا جرم مٹ جائے گا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دجال کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ بن مریم۔“ میں نے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس وقت تیری گھوڑی کا بچہ پیدا ہوا تو وہ ابھی تک اس قابل نہیں ہو گا کہ تو اس پر سواری کر سکے، کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔“
- (اهريقوا علي من سبع قرب لم تحلل اوكيتهن؛ لعلي اعهد إلى الناس).- (أهريقوا عليَّ من سبع قرب لم تُحْلَلْ أوكِيتُهنَّ؛ لعلّي أعهدُ إلى النّاس).
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب کی کہ آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہ کر اپنی بیماری کا علاج کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے اجازت دے دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دوسرے آدمی کے سہارے نکلے، آپ کے پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اس نے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا: کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات مشکیزوں، جن کی ڈوری نہ کھولی گئی ہو، کا پانی مجھ پر بہاؤ تاکہ میں لوگوں کو کوئی وصیت کر سکوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیوی حفصہ رضی اللہ عنہا کے ٹب میں بٹھایا گیا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی بہانا شروع کر دیا، حتی کہ آپ نے اشارہ کیا کہ ” تم نے (اپنی ذمہ داری) پوری کر دی۔“ پھر آپ لوگوں کی طرف چلے گئے۔
-" إياكم وابواب السلطان، فإنه قد اصبح صعبا هبوطا".-" إياكم وأبواب السلطان، فإنه قد أصبح صعبا هبوطا".
سیدنا ابواعور سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلطانوں کے دروازوں پر جانے سے بچنا، کیونکہ یہ کام دشوار گزار اور رسوائی کی علامت ہے۔“
- (ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم، ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم: رجل على فضل ماء بالفلاة؛ يمنعه من ابن السبيل، ورجل بايع رجلا بسلعة بعد العصر، فحلف له بالله: لاخذها بكذا وكذا، فصدقه، وهو على غير ذلك، ورجل بايع إماما؛ لا يبايعه إلا لدنيا؛ فإن اعطاه منها وفى، وإن لم يعطه منها لم يف).- (ثلاثةٌ لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظُرُ إليهم، ولا يزكِّيهم، ولهم عذاب أليم: رجل على فضلِ ماء بالفلاة؛ يمنعه من ابن السبيل، ورجل بايع رجلاً بسلعة بعد العصر، فحلف له بالله: لأَخَذَها بكذا وكذا، فصدّقه، وهو على غير ذلك، ورجلٌ بايع إماماً؛ لا يُبايعُهُ إلا لدنيا؛ فإن أعطاه منها وفى، وإن لم يعطه منها لم يَفِ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمی ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام نہیں فرمائے گا، نہ ان کی طرف (نظر رحمت) سے دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا: وہ آدمی جو کسی بیابان میں زائد پانی کو مسافر سے روک لے، وہ آدمی جو بعد از نماز عصر کوئی سامان بیچے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہے کہ اس نے اتنے کا خریدا تھا اور مشتری اس کی تصدیق کر دے، حالانکہ اس نے اتنے کا خریدا نہ ہو اور وہ آدمی جس نے کسی امام (حکمران) کی بیعت تو کی، لیکن محض دنیا کے لیے، اگر اس نے اسے (دنیوی مال و دولت) دیا تو بیعت پوری کر دی اور اگر نہ دیا تو پوری نہیں کی۔“
-" خرج صلى الله عليه وسلم [إلى خيبر] حين استخلف سباع بن عرفطة على المدينة، قال ابو هريرة: قدمت المدينة مهاجرا فصليت الصبح وراء سباع، [فقرا في الركعة الاولى * (كهيعص) *]، وقرا في الركعة الثانية * (ويل للمطففين) *، قال ابو هريرة: فاقول في الصلاة: ويل لابي فلان! له مكيالان، إذا اكتال اكتال بالوافي، وإذا كال كال بالناقص، فلما فرغنا من صلاتنا اتينا سباعا فزودنا شيئا حتى قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد افتتح خيبر، فكلم المسلمين، فاشركونا في سهمانهم".-" خرج صلى الله عليه وسلم [إلى خيبر] حين استخلف سباع بن عرفطة على المدينة، قال أبو هريرة: قدمت المدينة مهاجرا فصليت الصبح وراء سباع، [فقرأ في الركعة الأولى * (كهيعص) *]، وقرأ في الركعة الثانية * (ويل للمطففين) *، قال أبو هريرة: فأقول في الصلاة: ويل لأبي فلان! له مكيالان، إذا اكتال اكتال بالوافي، وإذا كال كال بالناقص، فلما فرغنا من صلاتنا أتينا سباعا فزودنا شيئا حتى قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد افتتح خيبر، فكلم المسلمين، فأشركونا في سهمانهم".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سباع بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر کر کے خیبر کی طرف روانہ ہو گئے، میں ہجرت کر کے مدینہ آیا، سباع کے پیچھے نماز فجر پڑھی، اس نے پہلی رکعت میں «كهيعص» یعنی سورہ مریم اور دوسری میں «ويل للمطففين» یعنی سورہ مطففین کی تلاوت کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (سورہ مطففین کی تلاوت سن کر) میں نماز میں ہی یہ کہنے لگ گیا کہ فلاں آدمی ہلاک ہو، اس نے دو قسم کے ناپ بنائے ہیں، (اور وہ اس طرح کہ) جب دوسروں سے ناپ کر لیتا ہے تو پورا لیتا ہے اور جب دوسروں کو ناپ کر دیتا ہے تو کم کرتا ہے۔ جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو سباع کے پاس آئے، انہوں نے ہمارے لیے کچھ توشئہ سفر تیار کیا، (پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہو گئے) یہاں تک کہ آپ کے پاس پہنچ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے، آپ نے مسلمانوں سے بات چیت کی اور ہمیں بھی ان کے (غنیمت والے) حصوں میں شریک کیا۔
-" الخلافة ثلاثون سنة، ثم تكون بعد ذلك ملكا".-" الخلافة ثلاثون سنة، ثم تكون بعد ذلك ملكا".
مولائے رسول سیدنا ابوعبدالرحمٰن سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیس سال تک خلافت رہے گی اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی۔“
-" سيتصدقون ويجاهدون إذا اسلموا. يعني ثقيفا".-" سيتصدقون ويجاهدون إذا أسلموا. يعني ثقيفا".
ابن لھیعہ، ابوزبیر سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ثقیف قبیلہ کی بیعت کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: کہ اس قبیلے نے (بیعت کرتے وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ شرط عائد کی تھی کہ ان پر صدقہ ہو گا نہ جہاد۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب جب یہ لوگ (پکے) مسلمان ہو جائیں گے تو صدقہ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔“