- (إذا باع احدكم الشاة واللقحة؛ فلا يحفلها).- (إذا باع أحدُكم الشَّاة واللَّقحة؛ فلا يُحفِّلها).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی بکری اور اونٹنی (وغیرہ) فروخت کرے تو (خریدنے والے کو دھوکہ دینے کے لیے) ان کا دودھ تھنوں میں نہ روکے۔“
- عن انس قال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما من مسلم يغرس غرسا او يزرع زرعا فياكل منه طير او إنسان او بهيمة إلا كان له به صدقة".- عن أنس قال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما من مسلم يغرس غرسا أو يزرع زرعا فيأكل منه طير أو إنسان أو بهيمة إلا كان له به صدقة".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیاں کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی مسلمان پودا لگائے گا یا کھیتی باڑی کرے گا اور اس سے جو پرند، انسان یا کوئی چوپایہ کھائے گا، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہو گا۔“
- عن جابر مرفوعا:" ما من مسلم يغرس غرسا إلا كان ما اكل منه له صدقة وما سرق منه له صدقة وما اكل السبع منه فهو له صدقة وما اكلت الطير فهو له صدقة ولا يرزؤه (اي ينقصه وياخذ منه) احد إلا كان له صدقة (إلى يوم القيامة)".- عن جابر مرفوعا:" ما من مسلم يغرس غرسا إلا كان ما أكل منه له صدقة وما سرق منه له صدقة وما أكل السبع منه فهو له صدقة وما أكلت الطير فهو له صدقة ولا يرزؤه (أي ينقصه ويأخذ منه) أحد إلا كان له صدقة (إلى يوم القيامة)".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے، پھر اس سے جو بھی کھایا جاتا ہے، وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے، جو اس سے چوری کیا جاتا ہے، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے، جو اس سے درندے کھاتے ہیں، وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے اور جو پرندے اس سے کھا جاتے ہیں، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ (الغرض) قیامت کے دن تک جب بھی کوئی مخلوق اس کو استعمال کر کے اس میں کمی پیدا کرتی ہے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوتا ہے۔“
- عن انس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن قامت الساعة وفي يد احدكم فسيلة، فإن استطاع ان لا تقوم حتى يغرسها فليغرسها".- عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن قامت الساعة وفي يد أحدكم فسيلة، فإن استطاع أن لا تقوم حتى يغرسها فليغرسها".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر (ایسی صورتحال پیدا ہو جائے کہ) قیامت بالکل قریب ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا پودا ہو، اگر وہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے اسے گاڑھ سکتا ہو تو اسے گاڑھ دینا چاہیے۔“
- عن ابي امامة الباهلي قال - وراى سكة وشيئا من آلة الحرث فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يدخل هذا بيت قوم إلا ادخله الله الذل".- عن أبي أمامة الباهلي قال - ورأى سكة وشيئا من آلة الحرث فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يدخل هذا بيت قوم إلا أدخله الله الذل".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے ہل کا پھال اور کھیتی باڑی کے کچھ دوسرے آلات دیکھے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس قوم کے گھر میں یہ (آلات) داخل ہو جاتے ہیں، اللہ ان پر ذلت مسلط کر دیتا ہے۔“
-" ما اصاب الحجام فاعلفه الناضح".-" ما أصاب الحجام فأعلفه الناضح".
عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج کہتے ہیں: جب میرا دادا لونڈی، اونٹ، غلام، حجام اور کچھ زمین چھوڑ کر فوت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کی کمائی سے منع فرما دیا۔ امام شعبہ کہتے ہیں: بدکاری کا خطرہ ہونے کی وجہ سے (منع کیا گیا)۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”حجام کی کمائی کو اونٹوں کا چارہ بنا دے۔“ اور زمین کے بارے میں فرمایا: ”اس کو خود کاشت کرو یا پھر ویسے ہی پڑی رہنے دے۔“
حرام بن سعد بن محیصہ بیان کرتے ہیں کہ محیصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حجاموں کی کمائی کے بارے میں سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع کر دیا۔ وہ بار بار یہی سوال کرتے رہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(پھر اس طرح کرو کہ) ان کی کمائی کا اونٹوں کو چارہ ڈال دیا کرو یا غلاموں کو کھلا دیا کرو۔“
-" ثلاثة كلهن سحت: كسب الحجام، ومهر البغي، وثمن الكلب، إلا الكلب الضاري".-" ثلاثة كلهن سحت: كسب الحجام، ومهر البغي، وثمن الكلب، إلا الكلب الضاري".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین (چیزیں) حرام ہیں: حجام کی کمائی، زانیہ عورت کی کمائی اور کتے کی قیمت، سوائے شکاری کتے کے۔“
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کتے کی قیمت خبیث ہے، زانیہ کی کمائی خبیث ہے اور حجام کی کمائی خبیث ہے۔“
-" إذا كان الذي ابتاعها (يعني السرقة) من الذي سرقها غير متهم يخير سيدها، فإن شاء اخذ الذي سرق منه بثمنها وإن شاء اتبع سارقه".-" إذا كان الذي ابتاعها (يعني السرقة) من الذي سرقها غير متهم يخير سيدها، فإن شاء أخذ الذي سرق منه بثمنها وإن شاء اتبع سارقه".
عکرمہ بن خالد سے روایت ہے کہ اسید بن حضیر نے اپنے بارے میں اسے بتلایا کہ وہ یمامہ کا گورنر تھا، وہ کہتے ہیں: مروان نے میری طرف خط لکھا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے لکھا ہے کہ جس آدمی کا کوئی مال چوری ہو جائے تو وہ جہاں اس مال کو پا لے، وہی اس کا زیادہ حقدار ہے۔ پھر یہی بات مروان نے مجھے لکھ کر بھیج دی۔ لیکن میں نے مروان کو لکھا کہ اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فیصلہ کیا تھا: ”اگر چوری کا مال خریدنے والا تہمت زدہ اور (الزام زدہ) نہ ہو تو اصل مالک کو دو چیزوں کا اختیار دیا جائے گا: اگر وہ چاہے تو وہ مال قیمت کے عوض خرید لے اور اگر چاہے تو چور کا پیچھا کرے۔“ پھر سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہا نے بھی یہی فیصلہ کیا۔ مروان نے میرا یہ خط سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ارسال کر دیا، جواباً سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان کو لکھا: مروان! تم اور اسید مجھ پر فیصلہ نہیں کر سکتے، بلکہ ان امور میں میں تم پر فیصلہ کروں گا۔ (آئندہ) میں جو حکم دوں، اس کو نافذ کر دیا کرو۔ مروان نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ خط میری (اسید) طرف بھیجا، لیکن میں نے کہا: جب تک میں گورنر رہا، معاویہ کے قول پر عمل نہیں کروں گا۔