-" اذكر الموت في صلاتك، فإن الرجل إذا ذكر الموت في صلاته لحري ان يحسن صلاته، وصل صلاة رجل لا يظن انه يصلي صلاة غيرها، وإياك وكل امر يعتذر منه".-" اذكر الموت في صلاتك، فإن الرجل إذا ذكر الموت في صلاته لحري أن يحسن صلاته، وصل صلاة رجل لا يظن أنه يصلي صلاة غيرها، وإياك وكل أمر يعتذر منه".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے اپنی زمین کے عامل کی طرف لکھا کہ زائد پانی کو نہیں روکنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے (اپنی ضرورت سے) زائد پانی یا گھاس روک لیا تو روز قیامت اللہ تعالیٰ اس سے اپنے فضل کو روک لے گا۔“
-" إنه ليغضب علي ان لا اجد ما اعطيه، من سال منكم وله اوقية او عدلها فقد سال إلحافا".-" إنه ليغضب علي أن لا أجد ما أعطيه، من سأل منكم وله أوقية أو عدلها فقد سأل إلحافا".
بنو اسد قبیلے کا ایک آدمی کہتا ہے: میں نے اپنے اہل سمیت بقیع الغرقد میں پڑاؤ ڈالا، میرے اہل نے مجھے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں اور کھانے کے لیے کوئی چیز مانگ کر لائیں، پھر وہ اپنی ضروریات کا تذکرہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا سوال کر رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: ”تجھے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہں ہے“، وہ آدمی غصے کی حالت میں یہ کہتے ہوئے چل دیا، میری عمر کی قسم! آپ جس کو چاہتے ہیں دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مجھ پر اس بنا پر ناراض ہو رہا ہے کہ اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، حالانکہ تم میں سے جس آدمی نے سوال کیا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) یا اس کے برابر کوئی چیز ہو تو اس نے ضد اور اصرار کے ساتھ سوال کیا۔“(جب اس) اسدی نے (یہ بات سنی تو) کہا: ہماری اونٹنی اوقیہ سے تو بہتر ہے۔ سو میں لوٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہیں کیا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور منقیٰ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بھی دیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔ مالک کہتے ہیں کہ ایک اوقیہ، چالیس درہم کا ہوتا ہے۔
-" لا يفتح الإنسان على نفسه باب مسالة إلا فتح الله عليه باب فقر، ياخذ الرجل حبله فيعمد إلى الجبل فيحتطب على ظهره فياكل به خير له من ان يسال الناس معطى او ممنوعا".-" لا يفتح الإنسان على نفسه باب مسألة إلا فتح الله عليه باب فقر، يأخذ الرجل حبله فيعمد إلى الجبل فيحتطب على ظهره فيأكل به خير له من أن يسأل الناس معطى أو ممنوعا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے لیے (لوگوں سے) سوال کرنے کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر و فاقہ کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ اگر آدمی رسی لے کر، کسی پہاڑ (جنگل) میں چلا جائے، لکڑیاں اکٹھی کر کے اٹھا لائے اور ان (کو فروخت کر کے ان) کے ذریعے اپنے کھانے کے سامان کا بندوبست کرے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے، اسے کچھ دیا بھی جائے یا نہ دیا جائے۔“
-" يا ابا بكر! ما انا بمستعذرك منها بعد هذا ابدا".-" يا أبا بكر! ما أنا بمستعذرك منها بعد هذا أبدا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ کے سلسلے میں ابوبکر سے عذر خواہی کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم نہیں تھا کہ ابوبکر، عائشہ کے معاملے میں وہ کچھ کر گزریں گے، جو انہوں نے (اس مجلس میں) کیا تھا۔ انہوں نے ہاتھ اٹھایا اور عائشہ کو تھپڑ دے مارا اور ان کے سینے پر بھی زور سے ضرب لگائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات محسوس کی اور فرمایا: ”ابوبکر! آئندہ میں کبھی بھی تجھ سے عذر خواہی نہیں کروں گا۔“
-" الا ترين اني قد حلت بين الرجل وبينك. يعني ابا بكر الصديق وابنته عائشة".-" ألا ترين أني قد حلت بين الرجل وبينك. يعني أبا بكر الصديق وابنته عائشة".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے سن لیا تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی آواز بلند کر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی اور وہ اندر آ گئے اور کہا: ام رومان کی بیٹی! اور اسے پکڑنا چاہا، کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی آواز بلند کرتی ہے؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے درمیان حائل ہو گئے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ چلے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو راضی کرتے ہوئے فرمایا: ”دیکھو تو سہی کہ میں تیرے اور ایک آدمی کے درمیان حائل ہو گیا۔“(اسی اثنا میں) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر آ گئے اور اجازت طلب کی اور سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہنسا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (اندر آنے کی) اجازت دی، پھر وہ اندر آ گئے۔ (اب کی بار) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اپنے امن و صلح والے ماحول میں بھی شریک کیجئیے، جس طرح اپنی لڑائی میں کیا تھا۔
-" يقول الله: يا ابن آدم انى تعجزني وقد خلقتكك من مثل هذه حتى إذا سويتك وعدلتك مشيت بين بردتين وللارض منك وئيد ـ يعني شكوى ـ فجمعت ومنعت حتى إذا بلغت التراقي قلت: اتصدق، وانى اوان الصدقة؟!".-" يقول الله: يا ابن آدم أنى تعجزني وقد خلقتكك من مثل هذه حتى إذا سويتك وعدلتك مشيت بين بردتين وللأرض منك وئيد ـ يعني شكوى ـ فجمعت ومنعت حتى إذا بلغت التراقي قلت: أتصدق، وأنى أوان الصدقة؟!".
سیدنا بسر بن جحاش قرشی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت کیں: ”(تو اے پیغمبر!) ان کافروں کو کیا ہو گیا ہے۔ دائیں اور بائیں طرف سے جٹ کے جٹ تیری طرف دوڑتے آتے ہیں۔ کیا ان میں ہر کوئی یہ امید رکھتا ہے وہ آرام کے باغ (بہشت) میں جائے گا۔ یہ تو کبھی نہیں ہونا، وہ جانتے ہیں جس چیز سے ہم نے ان کو بنایا۔“(سورہ معارج: ۳۶-۳۹) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوکا اور فرمایا: ”اللہ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو مجھے کیسے عاجز کرے گا؟ میں نے تجھے اس قسم کے پانی سے پیدا کیا، حتی کہ جب میں نے ٹھیک طور سے (تیرے سب اعضاء درست کیے) اور خوبصورتی کے ساتھ بنایا یہاں تک کہ جب تو دو دھاری دھار چادروں میں چلنے لگ گیا اور تجھے زمین میں وقار ملا تو تو نے مال جمع کرنا اور (بخیلی کرتے ہوئے) اسے روک کر رکھنا شروع کر دیا، اور جب (موت کے وقت) جان ہنسلیوں میں آ گئی تو تو نے کہنا شروع کر دیا: (اب) میں صدقہ کرتا ہوں۔ لیکن اب کہاں ہے صدقے کا وقت؟!“