-" اما ابوك فلو كان اقر بالتوحيد، فصمت وتصدقت عنه نفعه ذلك".-" أما أبوك فلو كان أقر بالتوحيد، فصمت وتصدقت عنه نفعه ذلك".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عاص بن وائل نے دور جاہلیت میں نظر مانی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا (لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے مر گیا)، اس کے بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کر دئیے تھے اور دوسرے بیٹے سیدنا عمرو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرے باپ نے توحید کا اقرار کیا ہوتا اور تو اس کی طرف سے روزہ رکھتا یا صدقہ کرتا تو اسے فائدہ ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه الإمام أحمد: 2/ 182»
-" لا، إنه كان يعطي للدنيا وذكرها وحمدها، ولم يقل يوما قط: رب اغفر لي خطيئتي يوم الدين".-" لا، إنه كان يعطي للدنيا وذكرها وحمدها، ولم يقل يوما قط: رب اغفر لي خطيئتي يوم الدين".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا: ہشام بن مغیرہ صلح رحمی کرتا تھا، مہمانوں کی میزبانی کرتا تھا، غلاموں کو آزاد کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا اور اگر وہ اسلام کا دور پاتا تو مسلمان بھی ہو جاتا، آیا یہ اعمال اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ تو دنیوی غرض و غایت، صیت و شہرت اور خوشامد و چاپلوسی کے لیے دیتا تھا، اس نے ایک دن بھی نہیں کہا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو معاف کر دینا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو يعلي فى ”مسنده“: 6965، والطبراني فى ”المعجم الكبير“: 606/279/23، 923/391»
-" ادعو إلى الله وحده، الذي إن مسك ضر فدعوته كشف عنك، والذي إن ضللت بارض قفر دعوته رد عليك، والذي إن اصابتك سنة فدعوته انبت عليك".-" أدعو إلى الله وحده، الذي إن مسك ضر فدعوته كشف عنك، والذي إن ضللت بأرض قفر دعوته رد عليك، والذي إن أصابتك سنة فدعوته أنبت عليك".
ابو تمیمہ ہجیمی، بلھجیم کے ایک باشندے سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں، (وہ اللہ کہ) اگر تجھے تکلیف پہنچے اور تو اسے پکارے تو وہ تیری تکلیف دور کر دیتا ہے۔ اگر تو بے آب و گیاہ زمین میں (اپنی سواری) گم کر بیٹھتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ تجھے (تیری سواری) واپس کر دیتا ہے اور اگر تو قحط سالی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ (بارش نازل کر کے) زمین سے سبزہ اُگاتا ہے۔“
-" قال الله عز وجل: انا عند ظن عبدي، وانا معه إذا دعاني".-" قال الله عز وجل: أنا عند ظن عبدي، وأنا معه إذا دعاني".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جو وہ مجھ سے گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى ”الأدب المفرد“: 616، و أخرجه احمد: 480/2، بزيادة فى مننه بلفظ: عَبْدِي عِندَ ظَنّه بي، وَأَنَا مَعَهُ إِذا دَعَانِي، فَإِنَّ ذكرني فى نفسه ذكرته فى نفسي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي ملا ذكرته فِي مَلَاءِ خَيْر مِنْهُمْ وَأَطيبُ، وَإِنْ تَقَرَّبَ مِن شَيْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَإِن تقرب منى ذراعا، تَقَرَبْتُ مِنْهُ بِغَا، إِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً... وانا معه اذ ذكرني...»
-" إن احدكم ياتيه الشيطان فيقول: من خلقك؟ فيقول: الله، فيقول: فمن خلق الله؟! فإذا وجد ذلك احدكم فليقرا: آمنت بالله ورسله، فإن ذلك يذهب عنه".-" إن أحدكم يأتيه الشيطان فيقول: من خلقك؟ فيقول: الله، فيقول: فمن خلق الله؟! فإذا وجد ذلك أحدكم فليقرأ: آمنت بالله ورسله، فإن ذلك يذهب عنه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس شیطان آ کر یہ کہتا ہے: تجھے کس نے پیدا کیا؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے۔ وہ دوبارہ کہے گا: اچھا تو پھر اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اگر ایسا وسوسہ پیدا ہو جائے تو یہ دعا پڑھنی ہے: «آمنت بالله ورسوله»”میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا“، یہ عمل اس وسوسہ کو ختم کر دے گا۔“
-" لا يزال الناس يسالون يقولون: ما كذا ما كذا حتى يقولوا: الله خالق الناس فمن خلق الله؟ فعند ذلك يضلون".-" لا يزال الناس يسألون يقولون: ما كذا ما كذا حتى يقولوا: الله خالق الناس فمن خلق الله؟ فعند ذلك يضلون".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟، یہ کیا ہے؟ لوگ اس قسم کے سوال کرتے رہیں گے، حتی کہ وہ یہ سوال بھی کر دیں گے: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، بھلا اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ اس وقت وہ گمراہ ہو جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «رواه ابن أبى عاصم فى ”السنة“: 1/59، و اخرجه مسلم: 58/1، وكذا أبو عوانة: 1/ 82، دون قوله: فعند ذالك يضلون.»
-" ياتي شيطان احدكم فيقول: من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ حتى يقول: من خلق ربك؟! فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته".-" يأتي شيطان أحدكم فيقول: من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ حتى يقول: من خلق ربك؟! فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی کے پاس شیطان آ کر کہتا ہے: اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟، کہتے کہتے بات کو یہاں تک پہنچا دیتا ہے کہ: تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب وہ یہاں تک پہنچا دے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے اور (ایسی سوچ کو) ختم کر دے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 321/2، ومسلم، وابن السني»
-" يوشك الناس يتساءلون بينهم حتى يقول قائلهم: هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله عز وجل؟ فإذا قالوا ذلك، فقولوا: * (الله احد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا احد) * ثم ليتفل احدكم عن يساره ثلاثا، وليستعذ من الشيطان".-" يوشك الناس يتساءلون بينهم حتى يقول قائلهم: هذا الله خلق الخلق فمن خلق الله عز وجل؟ فإذا قالوا ذلك، فقولوا: * (الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد) * ثم ليتفل أحدكم عن يساره ثلاثا، وليستعذ من الشيطان".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قریب ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرنا شروع کر دیں، (وہ سوال کرتے رہیں)، حتی کہ کہنے والا کہے: مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب لوگ یہاں تک پہنچ جائیں تو کہنا: «الله أحد، الله الصمد، لم يلد، ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد»”اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔“ پھر بائیں طرف تین دفعہ تھوکے اور شیطان سے (اللہ تعالیٰ کی پناہ) طلب کرے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو داود: 4732، وابن السني: 621»
-" اخرج فناد في الناس: من شهد ان لا إله إلا الله وجبت له الجنة".-" اخرج فناد في الناس: من شهد أن لا إله إلا الله وجبت له الجنة".
سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکل جا اور لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔“ وہ کہتے ہیں: میں اعلان کرنے کے لیے نکلا، آگے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ٹاکرا ہوا، انہوں نے کہا: ابوبکر کہاں اور کیسے؟ میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (یہ اعلان کیے بغیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے خطرہ ہے کہ لوگ اس (بشارت) پر توکل کر کے عمل کرنا ترک کر دیں گے۔ میں لوٹ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”واپس کیوں آ گئے ہو؟“ میں نے آپ کو سیدنا عمر والی بات بتلائی۔ آپ نے فرمایا: ”عمر نے سچ کہا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو يعلي فى ”مسنده“ صـ 35 - مصورة المكتب الأسلامي، ورواه مسلم: 44/1، لكن وقع القصة فيه لابي هريرة مع عمر رضي الله عنهما»
- ابشروا وبشروا من وراءكم انه من شهد ان لا إله إلا الله صادقا دخل الجنة".- أبشروا وبشروا من وراءكم أنه من شهد أن لا إله إلا الله صادقا دخل الجنة".
ابوبکر بن ابوموسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں اپنی قوم کے کچھ افراد کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور پچھلوں کو بھی خوشخبری سنا دو کہ جس نے صدق دل سے گواہی دی کہ اللہ ہی معبود برحق ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ ہم لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے، ہمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے اور (جب ان کو صورتحال کا علم ہوا تو) ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہیں کس نے واپس کر دیا؟“ ہم نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”عمر! تم نے ان کو کیوں لوٹا دیا؟“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اگر لوگوں کو ایسی خوشخبریاں سنائی جائیں تو وہ توکل کر بیٹھیں گے (اور مزید عمل کرنا ترک کر دیں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہو گئے۔