Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
اللہ تعالیٰ کو پکارنے کی وجہ
حدیث نمبر: 23
-" أدعو إلى الله وحده، الذي إن مسك ضر فدعوته كشف عنك، والذي إن ضللت بأرض قفر دعوته رد عليك، والذي إن أصابتك سنة فدعوته أنبت عليك".
ابو تمیمہ ہجیمی، بلھجیم کے ایک باشندے سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں، (وہ اللہ کہ) اگر تجھے تکلیف پہنچے اور تو اسے پکارے تو وہ تیری تکلیف دور کر دیتا ہے۔ اگر تو بے آب و گیاہ زمین میں (اپنی سواری) گم کر بیٹھتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ تجھے (تیری سواری) واپس کر دیتا ہے اور اگر تو قحط سالی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ (بارش نازل کر کے) زمین سے سبزہ اُگاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أخرجه أحمد: 64/5، 388» ‏‏‏‏

سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 23 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 23  
فوائد:
الله تعالی مذکورہ تین اور دوسری بے شمار صفات سے متصف ہونے کی وجہ سے اس لائق ہے کہ مصائب کے ٹلنے کے لیے اس کو ماورا الاسباب پکارا جائے۔
دعاؤں سے متعلقہ اللہ تعالی کا درج ذیل قانون ذہن نشین رکھنا چاہیے:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْرَهُ لَيْسَ فِيهَا إِثْم ولا قَطِيعَةُ رَحِم إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ بِهَا إحْدَى ثَلاثِ إِمَّا أَنْ يُعَجِلَ لَهُ دَعْوَتَهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَ لَهُ فِي الآخرة وإمَّا أَنْ يُصرف عنْهُ مِنَ السُّوْءِ مِثْلَهَا - قَالُوا: إِذَا نُكْثِرُ - قَالَ: اللَّهُ أَكْثَرُ» [مسند احمد]
یعنی: جو مسلمان دعا کرتا ہے اور اس کی دعا گناہ اور قطع رحمی سے متعلقہ نہیں ہوتی تو اللہ تعالی اسے (جواباََ) تین چیزوں میں سے ایک عطا کرتے ہیں:
➊ جلد ہی اسے (دنیا میں) اس کی دعا کا بدلہ دے دیتے ہیں، یا
➋ اس کے ثواب کو آخرت تک ذخیرہ کر لیتے ہیں، یا
➌ اس دعا کے بقدر کسی مکروہ چیز کو اس سے دور کر دیتے ہیں۔
صحابہ نے کہا: تو پھر تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا فضل اسے سے بھی زیادہ ہے۔
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 23