ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، چنانچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج و گرم مزاج، بد باطن و پاک طینت لوگ پیدا ہوئے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 17 (4693) (تحفة الأشراف: 9025)، و مسند احمد (4/400، 406) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث سورۃ البقرہ کی آیت: «إني جاعل في الأرض خليفة»(البقرة: 30) کی تفسیر میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (100)، الصحيحة (1630)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في قوله: " ادخلوا الباب سجدا سورة النساء آية 154، قال: دخلوا متزحفين على اوراكهم "، اي منحرفين.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: " ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا سورة النساء آية 154، قَالَ: دَخَلُوا مُتَزَحِّفِينَ عَلَى أَوْرَاكِهِمْ "، أَيْ مُنْحَرِفِينَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «ادخلوا الباب سجدا»”اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا“(البقرہ: ۵۸) کے بارے میں فرمایا: ”بنی اسرائیل چوتڑ کے بل کھسکتے ہوئے داخل ہوئے“۔
(مرفوع) وبهذا الإسناد، عن النبي صلى الله عليه وسلم " فبدل الذين ظلموا قولا غير الذي قيل لهم سورة البقرة آية 59، قال: قالوا: حبة في شعرة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ سورة البقرة آية 59، قَالَ: قَالُوا: حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اور اسی سند کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (آیت) «فبدل الذين ظلموا قولا غير الذي قيل لهم»”پھر ان ظالموں نے اس بات کو جوان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی“۔ (البقرہ: ۵۹) کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل نے «حبة في شعرة»۱؎ کہا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بنی اسرائیل نے «حطۃ»(ہمارے گناہ معاف فرما دے) کہنے کے بجائے «حبۃ فی شعرۃ»(یعنی بالی میں گندم) کہا۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا اشعث السمان، عن عاصم بن عبيد الله، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن ابيه، قال: " كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفره في ليلة مظلمة، فلم ندر اين القبلة فصلى كل رجل منا على حياله، فلما اصبحنا ذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت: فاينما تولوا فثم وجه الله سورة البقرة آية 115 "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث اشعث السمان ابي الربيع، عن عاصم بن عبيد الله، واشعث يضعف في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ السَّمَّانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرِهِ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ فَصَلَّى كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَى حِيَالِهِ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ: فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَأَشْعَثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انتہائی اندھیری رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، کوئی نہ جان سکا کہ قبلہ کدھر ہے۔ چنانچہ جو جس رخ پر تھا اس نے اسی رخ پر نماز پڑھ لی، جب صبح ہوئی تو ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو (اس وقت) یہ آیت «فأينما تولوا فثم وجه الله»”تم جدھر بھی منہ کروا ادھر اللہ کا منہ ہے“(البقرہ: ۱۱۵) نازل ہوئی۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا عبد الملك بن ابي سليمان، قال: سمعت سعيد بن جبير يحدث، عن ابن عمر، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " يصلي على راحلته تطوعا اينما توجهت به، وهو جاء من مكة إلى المدينة، ثم قرا ابن عمر هذه الآية ولله المشرق والمغرب سورة البقرة آية 115، فقال ابن عمر: ففي هذا انزلت هذه الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ تَطَوُّعًا أَيْنَمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ، وَهُوَ جَاءٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عُمَرَ هَذِهِ الْآيَةَ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ سورة البقرة آية 115، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَفِي هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ آتے ہوئے نفل نماز اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ اونٹنی جدھر بھی چاہتی منہ پھیرتی ۱؎، ابن عمر نے پھر یہ آیت «ولله المشرق والمغرب»”اللہ ہی کے لیے مغرب و مشرق ہیں“(البقرہ: ۱۱۵) پڑھی۔ ابن عمر کہتے ہیں: یہ آیت اسی تعلق سے نازل ہوئی ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- قتادہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: آیت: «ولله المشرق والمغرب فأينما تولوا فثم وجه الله»(البقرة: ۱۱۵) منسوخ ہے، اور اسے منسوخ کرنے والی آیت «فول وجهك شطر المسجد الحرام»”آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں“(البقرہ: ۱۴۴) ہے۔
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ مسافر اپنی سواری پر نفلی نماز پڑھ سکتا ہے، اس سواری کا رخ کسی بھی سمت ہو، شرط یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے اس کے بعد جہت قبلہ سے ہٹ جانے میں کوئی حرج نہیں۔
۲؎: عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں کئی واقعات منقول ہوتے ہیں، دراصل ان سب پروہ آیت صادق آتی ہے، یا متعدد واقعات پر وہ آیت دوبارہ نازل ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة
قال الشيخ زبير على زئي: (2958) إسناده ضعيف قول قتاده: ”هي منسوخة“ سنده ضعيف، سعيد بن أبى عروبة عنعن وهو مدلس (تقدم: 30)
(مرفوع) ويروى عن قتادة، انه قال: في هذه الآية ولله المشرق والمغرب فاينما تولوا فثم وجه الله سورة البقرة آية 115 قال قتادة: هي منسوخة نسخها قوله: فول وجهك شطر المسجد الحرام سورة البقرة آية 144 " اي تلقاءه، حدثنا بذلك محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، عن سعيد، عن قتادة.(مرفوع) وَيُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 قَالَ قَتَادَةُ: هِيَ مَنْسُوخَةٌ نَسَخَهَا قَوْلُهُ: فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 144 " أَيْ تِلْقَاءَهُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ.
بیان کیا اسے مجھ سے محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا یزید بن زریع نے اور یزید بن زریع نے سعید کے واسطہ سے قتادہ سے روایت کی۔
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہم مقام (مقام ابراہیم) کے پیچھے نماز پڑھتے، تو آیت: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى»”تم مقام ابراہیم کو جائے صلاۃ مقرر کر لو“(البقرہ: ۱۲۵) نازل ہوئی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اور یہ حکم طواف کے بعد کی دو رکعتوں کے سلسلے میں ہے، لیکن طواف میں اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو تو حرم میں جہاں بھی جگہ ملے یہ دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں، کوئی حرج نہیں ہے۔
۲؎: مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا حميد الطويل، عن انس، قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلى، فنزلت " واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب، عن ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوِ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى، فَنَزَلَتْ " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اگر آپ مقام ابراہیم کو مصلی (نماز پڑھنے کی جگہ) بنا لیتے (تو کیا ہی اچھی بات ہوتی) تو آیت «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله: " وكذلك جعلناكم امة وسطا سورة البقرة آية 143، قال: عدلا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: " وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا سورة البقرة آية 143، قَالَ: عَدْلًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا»”ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے“(البقرہ: ۱۴۳) کے سلسلے میں فرمایا: ” «وسط» سے مراد عدل ہے“(یعنی انصاف پسند)۔