(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والذي نفسي بيده لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا، الا ادلكم على امر إذا انتم فعلتموه تحاببتم؟ افشوا السلام بينكم " , وفي الباب عن عبد الله بن سلام، وشريح بن هانئ، عن ابيه، وعبد الله بن عمرو، والبراء، وانس، وابن عمر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَمْرٍ إِذَا أَنْتُمْ فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ " , وفي الباب عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَشُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْبَرَاءِ، وَأنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم (صحیح معنوں میں) مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے (سچی) محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگو تو تم میں باہمی محبت پیدا ہو جائے (وہ یہ کہ) آپس میں سلام کو عام کرو (پھیلاؤ)“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن سلام، شریح بن ہانی عن ابیہ، عبداللہ بن عمرو، براء، انس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت میں داخل ہونے کے لیے بنیادی چیز ایمان ہے، اور ایمان کی تکمیل کے لیے آپسی محبت اور بھائی چارہ کا ہونا ضروری ہے، اور انہیں اگر باقی رکھنا ہے تو سلام کو عام کرو اور اسے خوب پھیلاؤ۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، والحسين بن محمد الحريري البلخي , قالا: حدثنا محمد بن كثير، عن جعفر بن سليمان الضبعي، عن عوف، عن ابي رجاء، عن عمران بن حصين، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " السلام عليكم، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " عشر "، ثم جاء آخر فقال: " السلام عليكم ورحمة الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " عشرون "، ثم جاء آخر فقال: " السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ثلاثون " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وفي الباب عن علي، وابي سعيد، وسهل بن حنيف.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحَرِيرِيُّ البلخي , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيِّ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَشْرٌ "، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عِشْرُونَ "، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثُونَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وفي الباب عن عَلِيٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: «السلام عليكم»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں“، پھر ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: «السلام عليكم ورحمة الله»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) بیس نیکیاں ہیں“، پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) تیس نیکیاں ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوسعید اور سہل بن حنیف سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرمان الٰہی: «وإذا حييتم بتحية فحيوا بأحسن منها أو ردوها» یعنی ”جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو، یا انہی الفاظ کو لوٹا دو“(النساء: ۸۶) کے مطابق سلام کا جواب سلام کرنے والے سے اچھا دو اور اگر ایسا نہ کر سکو تو انہی الفاظ کو لوٹا دو، یا در ہے یہ حکم مسلمانوں کے لیے، یعنی خیر و برکت کی کثرت کی دعا کسی مسلمان کے حق میں ہی ہونی چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (3 / 268)
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: استاذن ابو موسى على عمر، فقال: السلام عليكم، اادخل؟ قال عمر: واحدة ثم سكت ساعة، ثم قال: السلام عليكم، اادخل؟ قال عمر: ثنتان ثم سكت ساعة، فقال: السلام عليكم، اادخل؟ فقال عمر: ثلاث، ثم رجع فقال عمر للبواب: ما صنع؟ قال: رجع، قال علي به، فلما جاءه قال: ما هذا الذي صنعت؟ قال: السنة، قال السنة؟ , والله لتاتيني على هذا ببرهان او ببينة او لافعلن بك، قال: فاتانا ونحن رفقة من الانصار، فقال: يا معشر الانصار، الستم اعلم الناس رسول لله صلى الله عليه وسلم؟ الم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الاستئذان ثلاث فإن اذن لك، وإلا فارجع " فجعل القوم يمازحونه، قال ابو سعيد: ثم رفعت راسي إليه فقلت: فما اصابك في هذا من العقوبة فانا شريكك، قال: فاتى عمر فاخبره بذلك، فقال عمر: ما كنت علمت بهذا , وفي الباب عن علي، وام طارق مولاة سعد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والجريري اسمه: سعيد بن إياس يكنى: ابا مسعود، وقد روى هذا غيره ايضا عن ابي نضرة، وابو نضرة العبدي اسمه: المنذر بن مالك بن قطعة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ قَالَ عُمَرُ: وَاحِدَةٌ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، ثُمّ قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ قَالَ عُمَرُ: ثِنْتَانِ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ فَقَالَ عُمَرُ: ثَلَاثٌ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ عُمَرُ لِلْبَوَّابِ: مَا صَنَعَ؟ قَالَ: رَجَعَ، قَالَ عَلَيَّ بِهِ، فَلَمَّا جَاءَهُ قَالَ: مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتَ؟ قَالَ: السُّنَّةُ، قَالَ السُّنَّةُ؟ , وَاللَّهِ لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبُرْهَانٍ أَوْ بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ بِكَ، قَالَ: فَأَتَانَا وَنَحْنُ رُفْقَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ رَسُولِ للَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِنْ أُذِنَ لَكَ، وَإِلَّا فَارْجِعْ " فَجَعَلَ الْقَوْمُ يُمَازِحُونَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ: فَمَا أَصَابَكَ فِي هَذَا مِنَ الْعُقُوبَةِ فَأَنَا شَرِيكُكَ، قَالَ: فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: مَا كُنْتُ عَلِمْتُ بِهَذَا , وفي الباب عن عَلِيٍّ، وَأُمِّ طَارِقٍ مَوْلَاةِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْجُرَيْرِيُّ اسْمُهُ: سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ يُكْنَى: أَبَا مَسْعُودٍ، وَقَدْ رَوَى هَذَا غَيْرُهُ أَيْضًا عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، وَأَبُو نَضْرَةَ الْعَبْدِيُّ اسْمُهُ: الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو دو ہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا: «السلام عليكم» کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں کہا) تین بار اجازت طلب کر چکے، پھر ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ واپس ہو لیے، عمر رضی الله عنہ نے دربان سے کہا: ابوموسیٰ نے کیا کیا؟ اس نے کہا: لوٹ گئے۔ عمر رضی الله عنہ نے کہا انہیں بلا کر میرے پاس لاؤ، پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے سنت پر عمل کیا ہے، عمر رضی الله عنہ نے کہا سنت پر؟ قسم اللہ کی! تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل و ثبوت پیش کرنا ہو گا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: پھر وہ ہمارے پاس آئے، اس وقت ہم انصار کی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے کہا: اے انصار کی جماعت! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: «الاستئذان ثلاث»(اجازت طلبی) تین بار ہے۔ اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لوٹ جاؤ؟ (یہ سن کر) لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے، ابو سعید خدری کہتے ہیں: میں نے اپنا سر ابوموسیٰ اشعری کی طرف اونچا کر کے کہا: اس سلسلے میں جو بھی سزا آپ کو ملے گی میں اس میں حصہ دار ہوں گا، راوی کہتے ہیں: پھر وہ (ابوسعید) عمر رضی الله عنہ کے پاس آئے، اور ان کو اس حدیث کی خبر دی، عمر نے کہا: مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور جریری کا نام سعید بن ایاس ہے اور ان کی کنیت ابومسعود ہے۔ یہ حدیث ان کے سوا اور لوگوں نے بھی ابونضرہ سے روایت کی ہے، اور ابونضرہ عبدی کا نام منذر بن مالک بن قطعہ ہے، ۲- اس باب میں علی اور سعد کی آزاد کردہ لونڈی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات ایک ادنی شخص کو علم دین کی وہ بات معلوم ہو سکتی ہے جو کسی بڑے صاحب علم کو معلوم نہیں، چنانچہ عمر رضی الله عنہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تین بار اجازت طلب کرنے پر اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیئے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثني ابو زميل، حدثني ابن عباس، حدثني عمر بن الخطاب، قال: " استاذنت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا فاذن لي " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وابو زميل اسمه: سماك الحنفي، وإنما انكر عمر , عندنا , على ابي موسى حيث روى عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " الاستئذان ثلاث، فإذا اذن لك وإلا فارجع " وقد كان عمر استاذن على النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا فاذن له، ولم يكن علم هذا الذي رواه ابو موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " فإن اذن لك وإلا فارجع ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: " اسْتَأْذَنْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا فَأَذِنَ لِي " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُهُ: سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ، وَإِنَّمَا أَنْكَرَ عُمَرُ , عِنْدَنَا , عَلَى أَبِي مُوسَى حَيْثُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ، فَإِذَا أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ " وَقَدْ كَانَ عُمَرُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا فَأَذِنَ لَهُ، وَلَمْ يَكُنْ عَلِمَ هَذَا الَّذِي رَوَاهُ أَبُو مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ ".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے پاس آنے کی تین بار اجازت مانگی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوزمیل کا نام سماک الحنفی ہے، ۳- میرے نزدیک عمر کو ابوموسیٰ کی اس بات پر اعتراض اور انکار اس وجہ سے تھا کہ ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجازت تین بار طلب کی جائے، اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ور نہ لوٹ جاؤ“۔ (رہ گیا عمر رضی الله عنہ کا اپنا معاملہ) تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار اجازت طلب کی تھی تو انہیں اجازت مل گئی تھی، اس حدیث کی خبر انہیں نہیں تھی جسے ابوموسیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: ”پھر اگر اندر جانے کی اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10499) (ضعیف الإسناد منکر المتن) (اس کے راوی ”عکرمہ بن عمار“ روایت میں غلطی کر جاتے تھے، اور فی الحقیقت یہ روایت پچھلی صحیح روایت کے برخلاف ہے)»
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الله بن نمير، حدثنا عبيد الله بن عمر، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: دخل رجل المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس في ناحية المسجد فصلى، ثم جاء فسلم عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وعليك، ارجع فصل فإنك لم تصل "، فذكر الحديث بطوله , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وروى يحيى بن سعيد القطان هذا عن عبيد الله بن عمر، عن سعيد المقبري فقال: عن ابيه، عن ابي هريرة، ولم يذكر فيه " فسلم عليه " , وقال: " وعليك "، قال: وحديث يحيى بن سعيد اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَعَلَيْكَ، ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ "، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ هَذَا عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ " فَسَلَّمَ عَلَيْهِ " , وَقَالَ: " وَعَلَيْكَ "، قَالَ: وَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَصَحُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں آیا (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس نے نماز پڑھی پھر آ کر آپ کو سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «وعليك»”تم پر بھی سلام ہو، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی“، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث عبیداللہ بن عمر سے اور عبیداللہ بن عمر نے سعید مقبری سے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «عن أبيه عن أبي هريرة» کہا ہے، اس میں «فسلم عليه وقال وعليك»”اس نے آپ کو سلام کیا اور آپ نے کہا تم پر بھی سلام ہو“ کا ذکر نہیں کیا، ۳- یحییٰ بن سعید کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں بنی نمیر کے ایک شخص سے بھی روایت ہے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں، ۳- زہری نے بھی یہ حدیث ابوسلمہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غائبانہ سلام کسی شخص کے واسطہ سے پہنچے یا کسی خط میں لکھ کر آئے تو اس کا جواب فوری طور پر دینا چاہیئے۔ اور اسی طرح دینا چاہیئے جیسے اوپر ذکر ہوا ہے۔
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! جب دو آدمی آپس میں ملیں تو سلام کرنے میں پہل کون کرے؟ آپ نے فرمایا: ”ان دونوں میں سے جو اللہ کے زیادہ قریب ہے“۱؎۔ (وہ پہل کرے گا)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابوفروہ رہاوی مقارب الحدیث ہیں، مگر ان کے بیٹے محمد بن یزید ان سے منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ سے جس کا زیادہ لگاؤ اور تعلق ہو گا اس میں تواضع اور خاکساری بھی زیادہ پائی جائے گی، اس لیے وہ سلام کرنے میں بھی پہل کرے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4646)، تخريج الكلم الطيب (198)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ليس منا من تشبه بغيرنا، لا تشبهوا باليهود , ولا بالنصارى، فإن تسليم اليهود الإشارة بالاصابع، وتسليم النصارى الإشارة بالاكف " , قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده ضعيف , وروى ابن المبارك هذا الحديث، عن ابن لهيعة فلم يرفعه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ , وَلَا بِالنَّصَارَى، فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ , وَرَوَى ابْنُ الْمُبَارَكِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ فَلَمْ يَرْفَعْهُ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں سے مشابہت اختیار کرے، نہ یہود کی مشابہت کرو اور نہ نصاریٰ کی، یہودیوں کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں کا اشارہ ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ۲- ابن مبارک نے یہ حدیث ابن لھیعہ سے روایت کی ہے، اور اسے انہوں نے مرفوع نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8734) (حسن) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”ابن لہیعہ“ ضعیف ہیں، اور عبد اللہ بن مبارک کی ان سے جو روایت ہے وہ موقوف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحة رقم: 2194)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہود و نصاری اور کفار کی کسی بھی فعل میں مشابہت نہ کرو، خصوصا سلام کی ان دو خصلتوں میں ممکن ہے یہ لوگ «السلام عليكم» اور «وعليكم السلام» کہنے کے بجائے صرف اشارہ پر اکتفا کرتے رہے ہوں، زبان سے سلام ادا کرنا انبیاء کی سنت ہے، اس لیے اس سنت کو اپناتے ہوئے عذر کی جگہوں میں اشارہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے کسی بہرے کو سلام کرنا وغیرہ، اسی طرح بعض مخصوص حالات میں صرف اشارہ پر اکتفا کرنا بھی صحیح ہے، جیسے گونگے کا سلام کرنا اور حالت نماز میں اشارہ سے جواب دینا وغیرہ۔
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (2194)
قال الشيخ زبير على زئي: (2695) إسناده ضعيف ابن لهيعة مدلس و عنعن (تقدم: 10) وللحديث شواهد ضعيفة عند الطبراني فى الأوسط (7376) والنسائي فى الكبري (10172) وغيرهما
(مرفوع) حدثنا ابو الخطاب زياد بن يحيى البصري، حدثنا ابو عتاب سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن سيار، قال: كنت امشي مع ثابت البناني فمر على صبيان فسلم عليهم، فقال ثابت: كنت مع انس فمر على صبيان فسلم عليهم، وقال انس: " كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فمر على صبيان فسلم عليهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، رواه غير واحد , عن ثابت، وروي من غير وجه , عن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَيَّارٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ فَمَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ ثَابِتٌ: كُنْتُ مَعَ أَنَسٍ فَمَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، وَقَالَ أَنَسٌ: " كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ , عَنْ ثَابِتٍ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ أَنَسٍ.
سیار کہتے ہیں کہ میں ثابت بنانی کے ساتھ جا رہا تھا، وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا، ثابت نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا: میں انس رضی الله عنہ کے ساتھ (جا رہا) تھا وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے سلام کیا، پھر انس نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسے کئی لوگوں نے ثابت سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث متعدد سندوں سے انس رضی الله عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: بچوں سے سلام کرنے میں کئی فائدے ہیں: (۱) سلام کرنے والے میں تواضع کا اظہار ہوتا ہے، (۲) بچوں کو اسلامی آداب سے آگاہی ہوتی ہے، (۳) سلام سے ان کی دلجوئی بھی ہوتی ہے، (۴) ان کے سامنے سلام کی اہمیت واضح ہوتی ہے، (۵) وہ اس سے باخبر ہوتے ہیں کہ یہ سنت رسول ہے جس پر عمل کرنا بہت اہم ہے۔