سنن ترمذي
كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
5. باب مَا جَاءَ فِي تَبْلِيغِ السَّلاَمِ
باب: سلام بھیجنے اور اسے پہنچانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2693
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: " إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ "، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ , وَفِي الْبَابِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي نُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ أَيْضًا، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
”جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں بنی نمیر کے ایک شخص سے بھی روایت ہے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں،
۳- زہری نے بھی یہ حدیث ابوسلمہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (2217)، وفضائل الصحابة 30 (3768)، والأدب 111 (6201)، والاستئذان 16 (6249)، و19 (6253)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2447)، سنن ابی داود/ الأدب 166 (5232)، سنن النسائی/عشرة النساء 3 (9363)، سنن ابن ماجہ/الأدب 12 (3695) (تحفة الأشراف: 17727)، و مسند احمد (6/146، 150، 208، 224)، وسنن الدارمی/الاستئذان 10 (2690) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غائبانہ سلام کسی شخص کے واسطہ سے پہنچے یا کسی خط میں لکھ کر آئے تو اس کا جواب فوری طور پر دینا چاہیئے۔ اور اسی طرح دینا چاہیئے جیسے اوپر ذکر ہوا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2693 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2693
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غائبانہ سلام کسی شخص کے واسطہ سے پہنچے یا کسی خط میں لکھ کر آئے تو اس کا جواب فوری طورپر دینا چاہیے۔
اوراسی طرح دینا چاہئے جیسے اُوپر ذکر ہوا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2693
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3405
´ایک کے مقابلے دوسری بیوی سے زیادہ محبت ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جبرائیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں“، انہوں نے کہا: «وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ» (جبرائیل کو عائشہ نے سلام کا جواب دیا اور کہا:) آپ تو وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھتے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3405]
اردو حاشہ:
(1) ”ہم نہیں دیکھتے“ مراد جبریل علیہ السلام ہیں جو رسول اللہﷺ کو نظر آرہے تھے مگر عائشہؓ کو نظر نہیں آرہے تھے۔ وحی کی کیفیت میں بھی ایسے ہی ہوتا تھا کہ آپ کو فرشہ نظر آرہا ہوتا تھا اور باقی لوگ نہیں دیکھ سکتے تھے۔
(2) اجنبی مرد اجنبی صالحہ عورت کو سلام بھیج سکتا ہے جبکہ کسی مفسدے کا اندیشہ نہ ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھ کر اس مسئلے کو ثابت کیا ہے: [بَابُ تَسْلِیمِ الرِّجَالِ عَلیَ النِّسَاء وَالنِّسَاء عَلیٰ الرِّجَالِ ] حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ ہم عورتوں کے پاس سے گزرے تو ہمیں سلام کیا۔ (سنن أبي داود‘ الأدب‘ حدیث: 5204) اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آئی۔ آپ اس وقت غسل فرما رہے تھے۔ میں نے آپ کو سلام کہا۔ (صحیح البخاري‘ الصلاة‘ حدیث:357)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3405
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3406
´ایک کے مقابلے دوسری بیوی سے زیادہ محبت ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! یہ جبرائیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ اور آگے ویسے ہی ہے جیسے اوپر گزرا۔“ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ روایت ٹھیک ہے، پہلی والی غلط ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3406]
اردو حاشہ:
وضاحت: یعنی یہ روایت ابوسلمہ عن عائشہ درست ہے اور عروہ عن عائشہ خطا ہے۔ زہری کے شاگرد معمر نے اس راویت کو بواسطہ عروہ بیان کیا ہے۔ باقی شاگردوں: شعیب بن ابی حمزہ‘ یونس بن یزید ایلی اور عبدالرحمن بن خالد بن مسافر نے ابوسلمہ بیان کیا ہے۔ اور یہی محفوظ ہے۔ یہ روایت زہری کے طریق کے بغیر (شعبی کے طریق سے) بھی مروی ہے‘ اس میں بھی ابوسلمہ کا ذکر ہے‘ لہٰذا یہی محفوظ ہے۔ اور معمر کی روایت غیر محفوظ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: 28/ 211)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3406
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5232
´آدمی کا یہ کہنا کہ فلاں تمہیں سلام کہہ رہا ہے تو جواب میں کیا کہے؟`
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جبرائیل تجھے سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: «وعليه السلام ورحمة الله» ”ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔“ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5232]
فوائد ومسائل:
1۔
کسی غائب کو سلام بھیجنا مستحب ہے۔
2: اور اس کا جواب بھی دیناچاہیے۔
پہلے سلام لانے والے اور پھر بھیجنے والے کو دعا دے۔
یعنی یوں کہے (علیك و علیه السلام ورحمة اللہ) یا صر ف (وعلیه السلام ورحمة اللہ) پر بھی کفایت کرے تو جائز ہے۔
(صحیح البخاري، الاستئذان‘حدیث:6253)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5232
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3696
´سلام کے جواب کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں“ (یہ سن کر) انہوں نے جواب میں کہا: «وعليه السلام ورحمة الله» (اور ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3696]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین سیدہ عا ئشہ صدیقہ ؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ انہیں جبرئیل علیہ السلام نے سلام کہا۔
یہ شرف دوسرے صحابہ ؓ کو حاصل نہیں ہوا۔
(2)
ام المومنین ؓ فرشتوں کو نہیں دیکھتی تھیں، نہ ان کی آواز سنتی تھیں، اس لیے جواب میں (وعليك السلام)
کی بجائے (وعليه السلام)
فرمایا۔
(3)
جب کسی کو کسی کا سلام پہنچایا جائے تو اس کا جواب اسی انداز سے دینا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3696
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3881
´ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! یہ جبرائیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے عرض کیا: اور انہیں بھی میری طرف سے سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں، آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ پاتے“ (جیسے جبرائیل کو) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3881]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں عائشہ کے لیے انتہائی شرف کی بات ہے،
(رضی اللہ عنہا) اس حدیث سے بعض لوگوں نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ خدیجہ ؓ،
عائشہ ؓ سے افضل ہیں،
کیونکہ خدیجہ ؓ آپﷺ کو جبرئیل اللہ کی طرف سے سلام کر رہے ہیں،
جبکہ عائشہ ؓ کے لیے جبرئیل ؑ نے اپنی طرف سے سلام پہنچایا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3881
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3768
3768. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا: ”اے عائشه ؓ!یہ حضرت جبریل ؑ ہیں جو آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔“ میں نے جواب دیا: ان پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکات نازل ہوں۔ یقیناً آپ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو مراد لے رہی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3768]
حدیث حاشیہ:
آپ کی مراد نبی کریم ﷺ سےتھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3768
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6249
6249. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! ”یہ جبرئیل ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔“ میں نے کہا: ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے امام زہری سے یہ حدیث بیان کرنے میں شعیب نے معمر کی متابعت کی ہے۔ امام زہری سے بیان کردہ یونس اور نعمان کی روایتوں میں ''وبرکاته'' کے الفاظ بھی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6249]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دحیہ کلبی کی صورت میں آیا کرتے تھے اور دحیہ مرد تھے تو ان کا حکم بھی مرد کا ہوا اور حدیث سے مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کوسلام کرنا ثابت ہوا خواہ وہ اجنبی ہی کیو ں نہ ہوں مگر پردہ ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6249
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6253
6253. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”حضرت جبرئیل ؑ سلام کہتے ہیں۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے جواب میں کہا: ورحمة اللہ یعنی ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6253]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے جواب سے ہے۔
اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔
جس کو حضرت جبریل علیہ السلام بھی سلام پیش کرتے ہیں۔
اللہ پاک ایسی پاک خاتون پر ہماری طرف سے بھی بہت سے سلام پہنچائے اور حشر میں ان کی دعائیں ہم کو نصیب کرے آمین۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے 63سال کی عمر طویل پائی اور 17رمضان 57ھ میں مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا۔
رضي اللہ عنها و أرضاہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6253
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6201
6201. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائش! یہ جبرئیل ؑ تمہیں سلام کہتے ہیں۔“ میں نے کہا: ان پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔ سیدہ عائشہ ؓ نے مزید کہا: آپ ﷺ وہ چیزیں دیکھتے تھے جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6201]
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت عائشہ کا نام تخفیف کے ساتھ صرف عائش مذکور ہوا ہے۔
یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6201
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3217
3217. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ”اے عائشہ ؓ! یہ حضرت جبرئیل ؑ ہیں اور تمھیں سلام کہتے ہیں۔“ حضرت عائشہ ؓنے جواب میں کہا: و عليه السلام ورحمة اللہ وبرکاته۔ آپ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ اس سے ان (حضرت عائشہ ؓ) کی مراد نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3217]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت جبریل ؑ نے حضرت مریم ؑ سے خطاب کیا تھا جبکہ سلام کہتے وقت حضرت عائشہ ؓ کو براہ راست خطاب نہیں کیا کیونکہ حضرت مریم ؑ کا شوہر نہیں تھا، اس لیے ان سے براہ راست خطاب کیا، لیکن رسول اللہ ﷺ کے باعث حضرت جبریل ؑ نے حضرت عائشہ ؓ کا احترام کیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے جنت میں حضرت عمر ؓ کا محل دیکھ کرحضرت عمر ؓ کا احترام کیا تاکہ انھیں غیرت نہ آئے۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اجنبی عورت کو سلام کہنا جائز ہے بشرط یہ کہ فتنے میں پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔
اس پر فتن دور میں اس سے بچنا ہی چاہیے۔
3۔
اس حدیث میں حضرت جبرئیل ؑ کے سلام کہنے کا ذکر ہے، اسی سے امام بخاری ؒ نے قائم کردہ عنوان ثابت کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3217
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3768
3768. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا: ”اے عائشه ؓ!یہ حضرت جبریل ؑ ہیں جو آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔“ میں نے جواب دیا: ان پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکات نازل ہوں۔ یقیناً آپ وہ کچھ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو مراد لے رہی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3768]
حدیث حاشیہ:
حضرت جبریل ؑ نے اپنی طرف سے انھیں سلام کہا جب کہ حضرت خدیجہ ؓ کے متعلق ہے کہ حضرت جبریل ؑ نے اپنے رب کی طرف سے سلام پہنچایا اور اپنی طرف سے بھی سلام کہا۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3820)
اس سے بعض حضرات نے حضرت عائشہ ؓ پرحضرت خدیجہ ؓ کی فضیلت کو ثابت کیاہے۔
اس کے متعلق ہم آئندہ بحث کریں گے۔
بہرحال اس حدیث سے سیدہ عائشہ ؓ کی فضیلت اور منقبت کا پتہ چلتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3768
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6249
6249. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! ”یہ جبرئیل ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔“ میں نے کہا: ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے امام زہری سے یہ حدیث بیان کرنے میں شعیب نے معمر کی متابعت کی ہے۔ امام زہری سے بیان کردہ یونس اور نعمان کی روایتوں میں ''وبرکاته'' کے الفاظ بھی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6249]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت جبریل علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں آیا کرتے تھے، اس اعتبار سے ان کا حکم مردوں کا ہے۔
معلوم ہوا کہ مرد،عورت کو اور عورت، مرد کو سلام کر سکتی ہے، خواہ وہ اجنبی ہی کیوں نہ ہو لیکن پردے کے احکام اپنی جگہ پر ہیں جن کا بجالانا ضروری ہے۔
(2)
بہرحال جب عورتوں سے بوقت ضرورت گفتگو جائز ہے تو سلام کہنے میں کیا حرج ہے جبکہ سلام کہنا تو ایک شرعی حق ہے۔
مزعومہ فتنے کی بنیاد پر اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر مجلس میں مرد اور عورتیں دونوں ہوں تو بالا تفاق سلام کہنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 43/11)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6249
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6253
6253. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”حضرت جبرئیل ؑ سلام کہتے ہیں۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے جواب میں کہا: ورحمة اللہ یعنی ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6253]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غائبانہ سلام متعلقہ آدمی تک پہنچانا چاہیے اور جسے سلام پہنچایا جائے وہ اس کا فوراً جواب دے، پھر غائبانہ سلام کا جواب دو طرح سے دیا جا سکتا ہے:
٭صرف سلام کہنے والے کو دعا میں شامل کیا جائے جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے سلامتی کی دعا میں صرف حضرت جبریل علیہ السلام ہی کو شامل کیا ہے۔
٭سلام کہنے والے کے ساتھ پہنچانے والے کو بھی شامل کیا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہما کو حضرت جبریل علیہ السلام کا سلام پہنچایا تو انھوں نے جواب دیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی سلامتی کی دعامیں شامل کیا۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 23/15)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6253