(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، والحسين بن محمد الحريري البلخي , قالا: حدثنا محمد بن كثير، عن جعفر بن سليمان الضبعي، عن عوف، عن ابي رجاء، عن عمران بن حصين، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " السلام عليكم، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " عشر "، ثم جاء آخر فقال: " السلام عليكم ورحمة الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " عشرون "، ثم جاء آخر فقال: " السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ثلاثون " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وفي الباب عن علي، وابي سعيد، وسهل بن حنيف.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحَرِيرِيُّ البلخي , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيِّ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَشْرٌ "، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عِشْرُونَ "، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثُونَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وفي الباب عن عَلِيٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: «السلام عليكم»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں“، پھر ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: «السلام عليكم ورحمة الله»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) بیس نیکیاں ہیں“، پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته»، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کے لیے) تیس نیکیاں ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوسعید اور سہل بن حنیف سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرمان الٰہی: «وإذا حييتم بتحية فحيوا بأحسن منها أو ردوها» یعنی ”جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو، یا انہی الفاظ کو لوٹا دو“(النساء: ۸۶) کے مطابق سلام کا جواب سلام کرنے والے سے اچھا دو اور اگر ایسا نہ کر سکو تو انہی الفاظ کو لوٹا دو، یا در ہے یہ حکم مسلمانوں کے لیے، یعنی خیر و برکت کی کثرت کی دعا کسی مسلمان کے حق میں ہی ہونی چاہیئے۔
رجلا جاء إلى النبي قال السلام عليكم قال النبي عشر ثم جاء آخر قال السلام عليكم ورحمة الله قال النبي عشرون ثم جاء آخر قال السلام عليكم ورحمة الله وبركاته قال النبي ثلاثون
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2689
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرمان الٰہی: ﴿وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا﴾ یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو، یا انہی الفاظ کو لوٹا دو (النساء: 86) کے مطابق سلام کا جواب سلام کرنے والے سے اچھا دو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو انہی الفاظ کو لوٹا دو، یا در ہے یہ حکم مسلمانوں کے لیے، یعنی خیر و برکت کی کثرت کی دعا کسی مسلمان کے حق میں ہی ہونی چاہیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2689