سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
Chapters On Zuhd
حدیث نمبر: 2313
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو حفص عمرو بن علي الفلاس، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا، ولبكيتم كثيرا "، هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میں جانتا ہوں اگر تم لوگ جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15049)، وانظر مسند احمد (2/257، 313) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح فقه السيرة (479)
10. باب فِيمَنْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُضْحِكُ بِهَا النَّاسَ
10. باب: غیر شرعی طور پر ہنسنے ہنسانے کی بات کرنے والے پر وارد وعید کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2314
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، عن محمد بن إسحاق، حدثني محمد بن إبراهيم، عن عيسى بن طلحة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الرجل ليتكلم بالكلمة لا يرى بها باسا يهوي بها سبعين خريفا في النار "، قال: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا سَبْعِينَ خَرِيفًا فِي النَّارِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 23 (6477، 6478)، صحیح مسلم/الزہد 6 (2988) (تحفة الأشراف: 14283)، و مسند احمد (2/236، 355، 379) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایک شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان کی دلچسپی کی خاطر اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے یا بناوٹی اور جھوٹی بات کہتا ہے، اور کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ باعث گناہ اور لائق سزا ہے حالانکہ وہ اپنی اس بات کے سبب جہنم کی سزا کا مستحق ہوتا ہے، معلوم ہوا کہ دوسروں کو ہنسانے اور انہیں خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی ہنسی کی بات نہیں کرنی چاہیئے جو گناہ کی بات ہو اور باعث عذاب ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (3970)
حدیث نمبر: 2315
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا بهز بن حكيم، حدثني ابي، عن جدي، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " ويل للذي يحدث بالحديث ليضحك به القوم فيكذب، ويل له ويل له "، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، قال: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتا ہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 88 (4990) (تحفة الأشراف: 11381)، و مسند احمد (5/3)، وسنن الدارمی/الاستئذان 66 (2744) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ ہنسی کی وہ بات جو جھوٹی ہے قابل مذمت ہے، لیکن بات اگر سچی ہے تو اس کے ذریعہ کبھی کبھار ہنسی کی فضا ہموار کرنا اس میں کوئی مضائقہ نہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض مواقع پر ہنسی کی بات کرنا ثابت ہے، جیسے ایک بار آپ نے ایک بڑھیا سے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی، اسی طرح عمر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ہنسے پر مجبور کر دیا جب آپ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض تھے۔

قال الشيخ الألباني: حسن غاية المرام (376)، المشكاة (4838 / التحقيق الثانى)
11. باب مِنْهُ
11. باب: لایعنی بات کے برے انجام کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2316
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سليمان بن عبد الجبار البغدادي، حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، عن الاعمش، عن انس بن مالك، قال: توفي رجل من اصحابه، فقال يعني رجلا: ابشر بالجنة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اولا تدري فلعله تكلم فيما لا يعنيه، او بخل بما لا ينقصه "، قال: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ يَعْنِي رَجُلًا: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوَلَا تَدْرِي فَلَعَلَّهُ تَكَلَّمَ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ، أَوْ بَخِلَ بِمَا لَا يَنْقُصُهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہو گئی، ایک آدمی نے کہا: تجھے جنت کی بشارت ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بےفائدہ ہو، یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 893) (صحیح) (امام ترمذی نے حدیث پر غریب ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ایسے ہی تحفة الأشراف میں ہے، نیز ترمذی نے لکھا ہے کہ أعمش کا سماع انس سے نہیں ہے (تحفة الأشراف) لیکن منذری کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا: حديث حسن صحیح اور خود منذری نے کہا کہ سند کے رواة ثقات ہیں، دوسرے طرق اور شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب 2882، 2883، وتراجع الألبانی 511)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 11)

قال الشيخ زبير على زئي: (2316) إسناده ضعيف
الأعمش عنعن (تقدم: 169) ولم يسمع من أنس رضي الله عنه
حدیث نمبر: 2317
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن نصر النيسابوري، وغير واحد، قالوا: حدثنا ابو مسهر، عن إسماعيل بن عبد الله بن سماعة، عن الاوزاعي، عن قرة، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه "، قال: هذا حديث غريب، لا نعرفه من حديث ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اس حدیث کو ابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3976) (تحفة الأشراف: 15234) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جو باتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اور نہ ہی جن سے دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ان کی ٹوہ میں نہ لگا رہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3976)

قال الشيخ زبير على زئي: (2317) إسناده ضعيف / جه 3976
قرة ضعيف (د 4840) ضعفه الجمهور و الزهري عنعن إن صح السند إليه
حدیث نمبر: 2318
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا مالك بن انس، عن الزهري، عن علي بن حسين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه "، قال ابو عيسى: وهكذا روى غير واحد من اصحاب الزهري، عن الزهري، عن علي بن حسين، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث مالك مرسلا، وهذا عندنا اصح من حديث ابي سلمة، عن ابي هريرة، وعلي بن حسين لم يدرك علي بن ابي طالب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لَا يَعْنِيهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ مُرْسَلًا، وَهَذَا عِنْدَنَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
علی بن حسین (زین العابدین) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑ دے جو اس سے غیر متعلق ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زہری کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے اسی طرح «عن الزهري عن علي بن حسين عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مالک کی حدیث کی طرح مرسلا روایت کی ہے،
۲- ہمارے نزدیک یہ حدیث ابوسلمہ کی ابوہریرہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،
۳- علی بن حسین (زین العابدین) کی ملاقات علی رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (19134) (صحیح) (علی بن حسین زین العابدین تابعی ہیں اس لیے یہ حدیث مرسل ہے، مگر سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: اصل حدیث ثابت ہے، اس کی بحث «زهد وكيع» رقم ۳۶۴ میں دیکھئیے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (2317)

قال الشيخ زبير على زئي: (2318) إسناده ضعيف
الزهري عنعن (تقدم: 440) والحديث مرسل
12. باب فِي قِلَّةِ الْكَلاَمِ
12. باب: کم بولنے کی خوبی کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2319
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن محمد بن عمرو، حدثني ابي، عن جدي، قال: سمعت بلال بن الحارث المزني صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن احدكم ليتكلم بالكلمة من رضوان الله ما يظن ان تبلغ ما بلغت فيكتب الله له بها رضوانه إلى يوم يلقاه، وإن احدكم ليتكلم بالكلمة من سخط الله ما يظن ان تبلغ ما بلغت فيكتب الله عليه بها سخطه إلى يوم يلقاه "، قال: وفي الباب عن ام حبيبة، قال: هذا حديث حسن صحيح، وهكذا رواه غير واحد، عن محمد بن عمرو نحو هذا، قالوا: عن محمد بن عمرو، عن ابيه، عن جده، عن بلال بن الحارث، وروى هذا الحديث مالك، عن محمد بن عمرو، عن ابيه، عن بلال بن الحارث، ولم يذكر فيه عن جده.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَال: سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللَّهُ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَ هَذَا، قَالُوا: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ جَدِّهِ.
صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کوئی اللہ کی رضا مندی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے اس کا مرتبہ کہاں تک پہنچے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا، اور تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے اس کا وبال کہاں تک پہنچے گا جب کہ اللہ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے ہے جس دن وہ اس سے ملے گا اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسے اسی طرح سے کئی لوگوں نے محمد بن عمرو سے اسی کے مثل روایت کیا ہے یعنی «عن محمد بن عمرو عن أبيه عن جده عن بلال بن الحارث» کی سند سے،
۳- اس حدیث کو مالک نے «عن محمد بن عمرو عن أبيه عن بلال بن الحارث» کی سند سے روایت کیا ہے لیکن اس میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں ہے،
۴- اس باب میں ام حبیبہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3969) (تحفة الأشراف: 2028) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فضول باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے، اور کوشش کرنی چاہیئے کہ حسب ضرورت مفید اور سچ بات زبان سے نکلے، بات کرتے وقت رضائے الٰہی پیش نظر رہے، کیونکہ وہ بات جو جھوٹ اور فضول ہو گی وہ اللہ کی ناراضگی کا باعث ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3969)
13. باب مَا جَاءَ فِي هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
13. باب: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقارت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2320
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الحميد بن سليمان، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كانت الدنيا تعدل عند الله جناح بعوضة ما سقى كافرا منها شربة ماء "، وفي الباب عن ابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4110) (تحفة الأشراف: 4699) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ یہ حقیر سے حقیر چیز ہے، اس کی حقارت کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہوتی تو اسے صرف اپنے محبوب بندوں کو نوازتا، جب کہ حال یہ ہے کہ اسے اپنے دشمنوں یعنی کفار و مشرکین کو دیتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دینے والا اپنے دشمن کو وہ چیز دے جو اس کے نزدیک قدر و قیمت والی ہو، کافروں کو جنت کی ایک ادنی نعمت سے اسی لیے محروم رکھا گیا ہے کیونکہ جنت اللہ کے محبوب بندوں کے لیے ہے، نہ کہ اس کے دشمنوں کے لیے، معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک دنیا اور اس کے مال و اسباب کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے، لہٰذا اہل ایمان کے نزدیک بھی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اسے آخرت کی زندگی سنوارنے کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (940)

قال الشيخ زبير على زئي: (2320) إسناده ضعيف / جه 4110
عبدالحميد بن سليمان: ضعيف (تقدم: 1084) وله شاهد ضعيف فى مسند الشهاب للقضاعي (1439) فيه أبو نصر أحمد بن الحسن بن محمد الشاهي ولم أجد من وثقه، لا الخطيب ولا غيره
حدیث نمبر: 2321
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن مجالد، عن قيس بن ابي حازم، عن المستورد بن شداد، قال: كنت مع الركب الذين وقفوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السخلة الميتة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اترون هذه هانت على اهلها حين القوها "، قالوا: من هوانها القوها يا رسول الله، قال: " فالدنيا اهون على الله من هذه على اهلها "، وفي الباب عن جابر وابن عمر، قال ابو عيسى: حديث المستورد حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الرَّكْبِ الَّذِينَ وَقَفُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّخْلَةِ الْمَيِّتَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا حِينَ أَلْقَوْهَا "، قَالُوا: مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَالدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا "، وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُسْتَوْرِدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
مستورد بن شداد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی ان سواروں کے ساتھ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس کھڑے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیر اور بے قیمت ہو گیا تو انہوں نے اسے پھینک دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی بے قیمت ہونے کی بنیاد ہی پر لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے، آپ نے فرمایا: دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور بے وقعت ہے جتنا یہ اپنے لوگوں کے نزدیک حقیر اور بے وقعت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- مستورد رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4111) (تحفة الأشراف: 11258) وانظر مسند احمد (4/229، 230) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4111)

قال الشيخ زبير على زئي: (2321) إسناده ضعيف / جه 4111
مجالد ضعيف (تقدم:653)
14. باب مِنْهُ
14. باب: دنیا کے ملعون اور حقیر ہونے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2322
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حاتم المكتب، حدثنا علي بن ثابت، حدثنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان، قال: سمعت عطاء بن قرة، قال، سمعت عبد الله بن ضمرة، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الا إن الدنيا ملعونة، ملعون ما فيها إلا ذكر الله وما والاه وعالم او متعلم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، قَال: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ قُرَّةَ، قَال، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ضَمْرَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ، مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرُ اللَّهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنے والے) کے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 3 (4112) (تحفة الأشراف: 13572) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یاد سے غافل کر دینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکر الٰہی سے غافل کر دینے والی ہوں، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اور لذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے، بصورت دیگر یہی مال برا اور لعنت کے قابل ہے، وہ علم بھی اچھا ہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کر دے بصورت دیگر یہ بھی برا ہے، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (4112)

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.