Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
11. باب مِنْهُ
باب: لایعنی بات کے برے انجام کا بیان۔
حدیث نمبر: 2317
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اس حدیث کو ابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 12 (3976) (تحفة الأشراف: 15234) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی جو باتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اور نہ ہی جن سے دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ان کی ٹوہ میں نہ لگا رہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3976)

قال الشيخ زبير على زئي: (2317) إسناده ضعيف / جه 3976
قرة ضعيف (د 4840) ضعفه الجمهور و الزهري عنعن إن صح السند إليه

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2317 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2317  
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی جو باتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اورنہ ہی جن سے دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ان کی ٹوہ میں نہ لگا رہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2317   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1273  
آدمی کے اسلام کی خوبی بےمقصد چیزوں کو چھوڑ دینا ہے
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه ‏‏‏‏ رواه الترمذي وقال: حسن» ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے اسلام کی خوبی میں سے اس کا اس چیز کو چھوڑ دینا ہے جو اس کے مقصد کی نہیں۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حسن ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1273]
تخریج:
«حسن»
[ترمذي 2317]
ترمذی نے اسے حسن کہا ہے یہ حدیث علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے مرسل بھی آئی ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا حدیث صحیح [مشكوة حديث 4839] اور دیکھئے: [تحفته الاشراف 381/9، 313/11]

مفردات:
«عَنَاهُ الْاَمْرُ يَعْنُوْهُ وَيَعْنِيْهِ اَهَمَّهُ» جب کوئی کام آدمی کو فکر میں ڈالے، وہ اس کا خاص اہتمام کرے اور وہ اس کا مطلوب اور مقصد بن جائے۔

فوائد:
➊ یہ حدیث جوامع الکلم سے ہے۔ الفاظ کم ہیں، مگر معانی بہت وسیع ہیں۔
➋ اس حدیث میں بےمقصد اور بےفائدہ اقوال کا ترک بھی شامل ہے اور بےفائدہ اعمال و عقائد کا ترک بھی۔ اگر آدمی ہر بات اور ہر کام سے پہلے یہ سوچے کہ مجھے اس کام کا دنیا یا آخرت میں کیا فائدہ ہے تو بے شمار باتیں اور بے شمار کام خود بخود اس سے چھوٹ جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كان يومن بالله واليوم الاخر فليقل خيرا او ليصمت» [صحيح بخاري، باب حفظ اللسان 6475، مسلم]
جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔
زیر بحث حدیث سے معلوم ہوا کہ بے فائدہ باتیں ہی نہیں بے فائدہ کام بھی چھوڑے گا تو یہ اس کے اسلام کی خوبصورتی کا ایک حصہ ہے جس کے بغیر اس کا اسلام خوبصورت نہیں ہو سکتا۔
➌ جب بےمقصد باتیں، بےمقصد کام اور بےمقصد نظریات ترک کر دیئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ اقوال عقائد اور اعمال تو بدرجہ اولیٰ ترک ہو جائیں گے جو حرام یا مکروہ یا مشتبہ ہیں۔
➍ یہ مرتبہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب انسان ہر وقت اسی طرح رہے گویا کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اگروہ اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اس دھیان سے اس میں اللہ تعالیٰ سے حیاء پیدا ہو گی اور وہ کوئی لا یعنی، بے مقصد اور بے فائدہ کام نہیں کرے گا۔ اسی مرتبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان قرار دیا اور اس حدیث میں اسے آدمی کے اسلام کا حسن قرار دیا۔
➎ بعض فقہاء مختلف احکام میں ایسے فرضی سوالات بنا بنا کر ان کے جوابات کا تکلف کرتے ہیں جو ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کے پیدا ہونے کا امکان ہی نہیں اور اسے علم کا کمال سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بے فائدہ اور بے مقصد کام ہے اور سراسر تکلف ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ» [38-ص:86]
کہہ دے میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا اور میں تکلف کرنے والوں سے نہیں ہوں۔
اس تکلف کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قوم کی امامت وہ شخص کرائے جو ان میں سے قرآن کا زیادہ قاری ہے اگر وہ قرأت میں برابر ہوں تو جو ان میں سے سنت کا زیادہ علم رکھتا ہے اور اگر وہ سنت کے علم میں برابر ہوں تو جس کی ہجرت قدیم ہے اور اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو جس کی عمر زیادہ ہے۔ [مسلم، عن ابي مسعود انصاري 673]
اگر اس سے زیادہ ضرورت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان فرما دیتے اب بعض حضرات نے اس پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے مزید صورتیں پیدا کیں اور ان کا جواب اپنے پاس سے دیا جبکہ انہیں شریعت بنانے کا حق اللہ تعالیٰ نے ہرگز نہیں دیا تھا۔
➏ اس حدیث کی رو سے بے فائدہ دیکھنا، سننا، پڑھنا، بولنا، کھیلنا، سونا اور دوسرے تمام بے فائدہ کام آدمی کے اسلام کی خوبی کے خلاف ہیں۔ مثلا ناول، افسانے، گیت، اخبارات کا بیشتر حصہ بے فائدہ کتابیں، اکثر کھیل، تاش وغیرہ، ضرورت سے زیادہ وقت سونے میں صرف کر دینا بے مقصد اور لایعنی کام ہیں۔ ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 119   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1273  
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا بے مقصد چیزوں کو چھوڑ دینا اس کے اسلام کے اچھا ہونے کی دلیل ہے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1273»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الزهد، باب 11، حديث:2317، قُرّة ضعّفه الجمهور.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن اور صحیح قرار دیا ہے۔
علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں شرح السنہ کی روایت کا حوالہ دیا ہے اور اسے سنداً صحیح قرار دیا ہے‘ نیز وہاں پر امام نووی رحمہ اللہ کی تحسین کو بھی نوٹ کیا ہے اور اس کے شواہد کا بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محقق کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند إلامام أحمد:۳ /۲۵۶‘ وصحیح سنن ابن ماجہ‘ رقم:۳۲۲۶‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض) 2. اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں جوامع الکلم کی حیثیت حاصل ہے جس کا تعلق اقوال اور افعال دونوں سے ہے۔
3. دنیا میں انسان کا مقصدِ حیات اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔
ایک مومن صادق کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ بے مقصد اور بے فائدہ کام سرانجام ہی نہ دے۔
وہ یہاں وقت کاٹنے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی عبادت اور رضا مندی حاصل کرنے کے لیے آیا ہے‘ اس لیے جو اعمال مقصد حیات کے منافی اور اصلاح دین کے مخالف ہیں وہ سب بے کار اور لایعنی ہیں۔
مالک کا سچا غلام ان کاموں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا جو مالک کو ناپسند اور اس کی رضا کے منافی ہوں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1273   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3976  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جس بات کا تعلق اس سے نہ ہو اسے وہ چھوڑ دے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3976]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ الموسوعۃالحدیثیہ مسندالامام احمد کے محققین اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر حسن درجے کی ہے۔
اور محقق عصر شیخ البانی نے اسےصحیح قرار دیا ہے۔
علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی شرح السنہ کی روایت کو سنداً صحیح قرار دیا ہے اور امام نووی کی تحسین کو بھی نوٹ کیا ہے نیز اس کے مزید شواہد کا بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:  (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 3/ 256 وصحيح سنن ابن ماجة، رقم3226 طبع مكتبة المعارف، الرياض)

(2)
غیر متعلقہ امور میں بے جا مداخلت غلط نتائج پیدا کرتی ہے۔

(3)
برے کام سے منع کرنا بے جا مداخلت میں شامل نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3976