(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن عطاء بن السائب، عن ابي البختري " ان جيشا من جيوش المسلمين كان اميرهم سلمان الفارسي حاصروا قصرا من قصور فارس، فقالوا: يا ابا عبد الله، الا ننهد إليهم؟ قال: دعوني ادعهم كما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوهم، فاتاهم سلمان، فقال لهم: إنما انا رجل منكم فارسي، ترون العرب يطيعونني، فإن اسلمتم، فلكم مثل الذي لنا وعليكم مثل الذي علينا، وإن ابيتم إلا دينكم، تركناكم عليه، واعطونا الجزية عن يد وانتم صاغرون، قال: ورطن إليهم بالفارسية: وانتم غير محمودين، وإن ابيتم، نابذناكم على سواء، قالوا: ما نحن بالذي نعطي الجزية، ولكنا نقاتلكم، فقالوا: يا ابا عبد الله، الا ننهد إليهم؟ قال: لا، فدعاهم ثلاثة ايام إلى مثل هذا، ثم قال: انهدوا إليهم، قال: فنهدنا إليهم، ففتحنا ذلك القصر، قال: وفي الباب، عن بريدة، والنعمان بن مقرن، وابن عمر، وابن عباس، وحديث سلمان، حديث حسن لا نعرفه إلا من حديث عطاء بن السائب، وسمعت محمدا، يقول: ابو البختري لم يدرك سلمان، لانه لم يدرك عليا، وسلمان مات قبل علي، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا، وراوا ان يدعوا قبل القتال، وهو قول إسحاق بن إبراهيم، قال: إن تقدم إليهم في الدعوة فحسن، يكون ذلك اهيب، وقال بعض اهل العلم: لا دعوة اليوم، وقال احمد: لا اعرف اليوم احدا يدعى، وقال الشافعي: لا يقاتل العدو حتى يدعوا، إلا ان يعجلوا عن ذلك، فإن لم يفعل، فقد بلغتهم الدعوة.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ " أَنَّ جَيْشًا مِنْ جُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ كَانَ أَمِيرَهُمْ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ حَاصَرُوا قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، أَلَا نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ: دَعُونِي أَدْعُهُمْ كَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوهُمْ، فَأَتَاهُمْ سَلْمَانُ، فَقَالَ لَهُمْ: إِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنْكُمْ فَارِسِيٌّ، تَرَوْنَ الْعَرَبَ يُطِيعُونَنِي، فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ، فَلَكُمْ مِثْلُ الَّذِي لَنَا وَعَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْنَا، وَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا دِينَكُمْ، تَرَكْنَاكُمْ عَلَيْهِ، وَأَعْطُونَا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ، قَالَ: وَرَطَنَ إِلَيْهِمْ بِالْفَارِسِيَّةِ: وَأَنْتُمْ غَيْرُ مَحْمُودِينَ، وَإِنْ أَبَيْتُمْ، نَابَذْنَاكُمْ عَلَى سَوَاءٍ، قَالُوا: مَا نَحْنُ بِالَّذِي نُعْطِي الْجِزْيَةَ، وَلَكِنَّا نُقَاتِلُكُمْ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، أَلَا نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ: لَا، فَدَعَاهُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَى مِثْلِ هَذَا، ثُمَّ قَالَ: انْهَدُوا إِلَيْهِمْ، قَالَ: فَنَهَدْنَا إِلَيْهِمْ، فَفَتَحْنَا ذَلِكَ الْقَصْرَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ بُرَيْدَةَ، وَالنُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَدِيثُ سَلْمَانَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: أَبُو الْبَخْتَرِيِّ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ، لِأَنَّهُ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيًّا، وَسَلْمَانُ مَاتَ قَبْلَ عَلِيٍّ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، وَرَأَوْا أَنْ يُدْعَوْا قَبْلَ الْقِتَالِ، وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَاق بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: إِنْ تُقُدِّمَ إِلَيْهِمْ فِي الدَّعْوَةِ فَحَسَنٌ، يَكُونُ ذَلِكَ أَهْيَبَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا دَعْوَةَ الْيَوْمَ، وقَالَ أَحْمَدُ: لَا أَعْرِفُ الْيَوْمَ أَحَدًا يُدْعَى، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا يُقَاتَلُ الْعَدُوُّ حَتَّى يُدْعَوْا، إِلَّا أَنْ يَعْجَلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ، فَقَدْ بَلَغَتْهُمُ الدَّعْوَةُ.
ابوالبختری سعید بن فیروز سے روایت ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکر نے جس کے امیر سلمان فارسی تھے، فارس کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا، لوگوں نے کہا: ابوعبداللہ! کیا ہم ان پر حملہ نہ کر دیں؟، انہوں نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں ان کافروں کو اسلام کی دعوت اسی طرح دوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں دعوت دیتے ہوئے سنا ہے ۱؎، چنانچہ سلمان فارسی رضی الله عنہ ان کے پاس گئے، اور کافروں سے کہا: میں تمہاری ہی قوم فارس کا رہنے والا ایک آدمی ہوں، تم دیکھ رہے ہو عرب میری اطاعت کرتے ہیں، اگر تم اسلام قبول کرو گے تو تمہارے لیے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے لیے ہیں، اور تمہارے اوپر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو ہمارے اوپر ہیں، اور اگر تم اپنے دین ہی پر قائم رہنا چاہتے ہو تو ہم اسی پر تم کو چھوڑ دیں گے، اور تم ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کرو ۲؎، سلمان فارسی رضی الله عنہ نے اس بات کو فارسی زبان میں بھی بیان کیا، اور یہ بھی کہا: تم قابل تعریف لوگ نہیں ہو، اور اگر تم نے انکار کیا تو ہم تم سے (حق پر) جنگ کریں گے، ان لوگوں نے جواب دیا: ہم وہ نہیں ہیں کہ جزیہ دیں، بلکہ تم سے جنگ کریں گے، مسلمانوں نے کہا: ابوعبداللہ! کیا ہم ان پر حملہ نہ کر دیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے تین دن تک اسی طرح ان کو اسلام کی دعوت دی، پھر مسلمانوں سے کہا: ان پر حملہ کرو، ہم لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور اس قلعہ کو فتح کر لیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلمان فارسی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ہم اس کو صرف عطاء بن سائب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل (امام بخاری) کو کہتے ہوئے سنا: ابوالبختری نے سلمان کو نہیں پایا ہے، اس لیے کہ انہوں نے علی کو نہیں پایا ہے، اور سلمان کی وفات علی سے پہلے ہوئی ہے، ۲- اس باب میں بریدہ، نعمان بن مقرن، ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ قتال سے پہلے کافروں کو دعوت دی جائے گی، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر ان کو پہلے اسلام کی دعوت دے دی جائے تو بہتر ہے، یہ ان کے لیے خوف کا باعث ہو گا، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس دور میں دعوت کی ضرورت نہیں ہے، امام احمد کہتے ہیں: میں اس زمانے میں کسی کو دعوت دئیے جانے کے لائق نہیں سمجھتا، ۵- امام شافعی کہتے ہیں: دعوت سے پہلے دشمنوں سے جنگ نہ شروع کی جائے، ہاں اگر کفار خود جنگ میں پہل کر بیٹھیں تو اس صورت میں اگر دعوت نہ دی گئی تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4490) (ضعیف) (سند میں ابوالبختری کا لقاء ”سلمان فارسی رضی الله عنہ سے نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے، نیز ”عطاء بن السائب“ اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے، لیکن قتال سے پہلے کفار کو مذکورہ تین باتوں کی پیشکش بریدہ رضی الله عنہ کی حدیث سے ثابت ہے دیکھئے: الإرواء رقم 1247)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کافروں کو پہلے اسلام کی دعوت دی جائے اگر انہیں یہ منظور نہ ہو تو ان سے جزیہ دینے کو کہا جائے اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر حملہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
۲؎: جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں، اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (5 / 87) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (1247) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1548) إسناده ضعيف / السند منقطع
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى العدني المكي ويكنى بابي عبد الله الرجل الصالح هو ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عبد الملك بن نوفل بن مساحق، عن ابن عصام المزني، عن ابيه، وكانت له صحبة، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث جيشا او سرية يقول لهم: " إذا رايتم مسجدا، او سمعتم مؤذنا، فلا تقتلوا احدا "، هذا حديث حسن غريب، وهو حديث ابن عيينة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَدَنِيُّ الْمَكِّيُّ وَيُكْنَى بِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ هُوَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ مُسَاحِقٍ، عَنْ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ جَيْشًا أَوْ سَرِيَّةً يَقُولُ لَهُمْ: " إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا، أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا، فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
عصام مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی لشکر یا سریہ بھیجتے تو ان سے فرماتے: ”جب تم کوئی مسجد دیکھو یا مؤذن کی آواز سنو تو کسی کو نہ مارو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ ابن عیینہ سے آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 100 (2635)، (تحفة الأشراف: 9901) (ضعیف) (سند میں ”عبد الملک بن نوفل“ لین الحدیث، اور ”ابن عصام“ مجہول راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جب اسلام کی کوئی علامت اور نشانی نظر آ جائے تو اس وقت تک حملہ نہ کیا جائے جب تک مومن اور کافر کے درمیان فرق واضح نہ ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (454) // عندنا برقم (565 / 2635) //
قال الشيخ زبير على زئي: (1549) إسناده ضعيف / د 263
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثني مالك بن انس، عن حميد، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج إلى خيبر، اتاها ليلا، وكان إذا جاء قوما بليل، لم يغر عليهم حتى يصبح، فلما اصبح، خرجت يهود بمساحيهم ومكاتلهم، فلما راوه، قالوا: محمد وافق والله محمد الخميس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم، فساء صباح المنذرين ".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ، أَتَاهَا لَيْلًا، وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَيْلٍ، لَمْ يُغِرْ عَلَيْهِمْ حَتَّى يُصْبِحَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، خَرَجَتْ يَهُودُ بِمَسَاحِيهِمْ وَمَكَاتِلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْهُ، قَالُوا: مُحَمَّدٌ وَافَقَ وَاللَّهِ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ، فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر روانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے، اور آپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ۱؎، پھر جب صبح ہو گئی تو یہود اپنے پھاوڑے اور ٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا: محمد ہیں، اللہ کی قسم، محمد لشکر کے ہمراہ آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اکبر! خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔
وضاحت: ۱؎: آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں، چنانچہ اگر اذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، ومحمد بن بشار، قالا: حدثنا معاذ بن معاذ، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن انس، عن ابي طلحة، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان إذا ظهر على قوم، اقام بعرصتهم ثلاثا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وحديث حميد، عن انس، حديث حسن صحيح، وقد رخص قوم من اهل العلم في الغارة بالليل وان يبيتوا، وكرهه بعضهم، وقال احمد، وإسحاق: لا باس ان يبيت العدو ليلا، ومعنى قوله وافق محمد الخميس، يعني به: الجيش.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ، أَقَامَ بِعَرْصَتِهِمْ ثَلَاثًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْغَارَةِ بِاللَّيْلِ وَأَنْ يُبَيِّتُوا، وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: لَا بَأْسَ أَنْ يُبَيَّتَ الْعَدُوُّ لَيْلًا، وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَافَقَ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ، يَعْنِي بِهِ: الْجَيْشَ.
ابوطلحہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم پر غالب آتے تو ان کے میدان میں تین دن تک قیام کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حمید کی حدیث جو انس رضی الله عنہ سے آئی ہے حسن صحیح ہے، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے رات میں حملہ کرنے اور چھاپہ مارنے کی اجازت دی ہے، ۴- بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، ۵- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ۶- «وافق محمد الخميس» میں «الخميس» سے مراد لشکر ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حرق نخل بني النضير وقطع، وهي البويرة، فانزل الله: ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين سورة الحشر آية 5 "، وفي الباب، عن ابن عباس، وهذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب قوم من اهل العلم إلى هذا، ولم يروا باسا بقطع الاشجار وتخريب الحصون، وكره بعضهم ذلك، وهو قول الاوزاعي، قال الاوزاعي: ونهى ابو بكر الصديق ان يقطع شجرا مثمرا، او يخرب عامرا، وعمل بذلك المسلمون بعده، وقال الشافعي: لا باس بالتحريق في ارض العدو وقطع الاشجار والثمار، وقال احمد: وقد تكون في مواضع لا يجدون منه بدا، فاما بالعبث، فلا تحرق، وقال إسحاق: التحريق سنة إذا كان انكى فيهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ، وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5 "، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَلَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَتَخْرِيبِ الْحُصُونِ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: وَنَهَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَنْ يَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا، أَوْ يُخَرِّبَ عَامِرًا، وَعَمِلَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَهُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ بِالتَّحْرِيقِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ وَقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَالثِّمَارِ، وقَالَ أَحْمَدُ: وَقَدْ تَكُونُ فِي مَوَاضِعَ لَا يَجِدُونَ مِنْهُ بُدًّا، فَأَمَّا بِالْعَبَثِ، فَلَا تُحَرَّقْ، وقَالَ إِسْحَاق: التَّحْرِيقُ سُنَّةٌ إِذَا كَانَ أَنْكَى فِيهِمْ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين»”(مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے“(الحشر: ۵)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، وہ درخت کاٹنے اور قلعے ویران کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، ۴- بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، اوزاعی کا یہی قول ہے، ۵- اوزاعی کہتے ہیں: ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے یزید کو پھل دار درخت کاٹنے اور مکان ویران کرنے سے منع کیا، ان کے بعد مسلمانوں نے اسی پر عمل کیا، ۶- شافعی کہتے ہیں: دشمن کے ملک میں آگ لگانے، درخت اور پھل کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۲؎۔ ۷- احمد کہتے ہیں: اسلامی لشکر کبھی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، لیکن بلا ضرورت آگ نہ لگائی جائے، ۸- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: آگ لگانا سنت ہے، جب یہ کافروں کی ہار و رسوائی کا باعث ہو۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے، لیکن بلا ضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہیئے۔
۲؎: یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد المحاربي الكوفي، حدثنا اسباط بن محمد، عن سليمان التيمي، عن سيار، عن ابي امامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله فضلني على الانبياء، او قال: امتي على الامم، واحل لي الغنائم "، وفي الباب، عن علي، وابي ذر، وعبد الله بن عمرو، وابي موسى، وابن عباس، قال ابو عيسى: حديث ابي امامة حديث حسن صحيح، وسيار هذا يقال له: سيار مولى بني معاوية، وروى عنه سليمان التيمي، وعبد الله بن بحير، وغير واحد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ فَضَّلَنِي عَلَى الْأَنْبِيَاءِ، أَوْ قَالَ: أُمَّتِي عَلَى الْأُمَمِ، وَأَحَلَّ لِيَ الْغَنَائِمَ "، وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَيَّارٌ هَذَا يُقَالُ لَهُ: سَيَّارٌ مَوْلَى بَنِي مُعَاوِيَةَ، وَرَوَى عَنْهُ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے انبیاء و رسل پر فضیلت بخشی ہے“(یا آپ نے یہ فرمایا: ”میری امت کو دوسری امتوں پر فضیلت بخشی ہے، اور ہمارے لیے مال غنیمت کو حلال کیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوامامہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوذر، عبداللہ بن عمرو، ابوموسیٰ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " فضلت على الانبياء بست: اعطيت جوامع الكلم، ونصرت بالرعب، واحلت لي الغنائم، وجعلت لي الارض مسجدا وطهورا، وارسلت إلى الخلق كافة، وختم بي النبيون "، هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے انبیاء و رسل پر چھ چیزوں (خصلتوں) کے ذریعہ فضیلت بخشی گئی ہے، مجھے «جوامع الكلم»(جامع کلمات) عطا کئے گئے ہیں ۱؎، رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ۲؎، میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے، میرے لیے تمام روئے زمین مسجد اور پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے ۳؎، میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میرے ذریعہ انبیاء و رسل کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 1 (523)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 90 (567)، (قولہ ”جُعِلت لي الأرض مسجدا وطہورا“ فحسب) (تحفة الأشراف: 13977)، و مسند احمد (2/412) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی قرآن و حدیث جن کے الفاظ مختصر لیکن معانی بہت ہیں۔
۲؎: یعنی عام حالات میں میرا رعب میرے دشمنوں پر ایک مہینہ کی مسافت کی دوری ہی سے طاری رہتا ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں شامل ہے۔
۳؎: یعنی عبادت کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں ہے، بلکہ وقت ہونے کے ساتھ کسی بھی پاکیزہ جگہ عبادت کی جا سکتی ہے، اسی طرح زمین (مٹی) سے ہر مسلمان طہارت کر سکتا ہے، یعنی وہ میرے لیے پاک کرنے والی بنائی گئی ہے۔
۴؎: یعنی میری رسالت دنیا کی ساری مخلوق کے لیے عام ہے اور میں نبوت کے سلسلہ کی آخری کڑی ہوں، میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آنے والا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4001 / التحقيق الثاني)، الإرواء (152 - 285)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت کی تقسیم میں گھوڑے کو دو حصے اور آدمی (سوار) کو ایک حصہ دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی گھوڑ سوار کو تین حصے دئے گئے، ایک حصہ اس کا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے، گھوڑے کا حصہ اس لیے زیادہ رکھا گیا کہ اس کی خوراک اور اس کی دیکھ بھال پر کافی خرچ ہوتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سليم بن اخضر، نحوه، وفي الباب، عن مجمع بن جارية، وابن عباس، وابن عباس، عن ابيه، وهذا حديث ابن عمر، حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان الثوري، والاوزاعي، ومالك بن انس، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: للفارس ثلاثة اسهم، سهم له، وسهمان لفرسه، وللراجل سهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ أَخْضَرَ، نَحْوَهُ، وَفِي الْبَاب، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: لِلْفَارِسِ ثَلَاثَةُ أَسْهُمٍ، سَهْمٌ لَهُ، وَسَهْمَانِ لِفَرَسِهِ، وَلِلرَّاجِلِ سَهْمٌ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں مجمع بن جاریہ، ابن عباس اور ابی عمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، اوزاعی، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ سوار کو تین حصے ملیں گے، ایک حصہ اس کا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے اور پیدل چلنے والے کو ایک حصہ ملے گا۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بہترین ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو، اور سب سے بہتر سریہ وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور سب سے بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو اور بارہ ہزار اسلامی فوج قلت تعداد کے باعث مغلوب نہیں ہو گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- جریر بن حازم کے سوا کسی بڑے محدث سے یہ حدیث مسنداً مروی نہیں، زہری نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے، ۴- اس حدیث کو حبان بن علی عنزی بسند «عقيل عن الزهري عن عبيد الله بن عبد الله عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، نیز اسے لیث بن سعد نے بسند «عقيل عن الزهري عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 89 (2611)، سنن ابن ماجہ/السرایا (2728)، (تحفة الأشراف: 4848)، وسنن الدارمی/السیر 4 (2482) (ضعیف) (اس حدیث کا ”عن الزہري عن النبي ﷺ“ مرسل ہو نا ہی صحیح ہے، نیز یہ آیت ربانی وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ (الأنفال: 66) کے بھی مخالف ہے، دیکھئے: الصحیحة رقم 986، تراجع الالبانی 152)»
وضاحت: ۱؎: «سرایا» جمع ہے سریہ کی، «سریہ» اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طور پر شریک نہ رہے ہوں، یہ بڑے لشکر کا ایک حصہ ہوتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ چار سو فوجی ہوتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (986)
قال الشيخ زبير على زئي: (1555) إسناده ضعيف / د 2611