عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت کی تقسیم میں گھوڑے کو دو حصے اور آدمی (سوار) کو ایک حصہ دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی گھوڑ سوار کو تین حصے دئے گئے، ایک حصہ اس کا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے، گھوڑے کا حصہ اس لیے زیادہ رکھا گیا کہ اس کی خوراک اور اس کی دیکھ بھال پر کافی خرچ ہوتا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1554
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی گھوڑ سوار کو تین حصے دئے گئے، ایک حصہ اس کا اور دوحصے اس کے گھوڑے کے، گھوڑے کا حصہ اس لیے زیادہ رکھا گیا کہ اس کی خوراک اور اس کی دیکھ بھال پرکافی خرچ ہوتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1554
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1110
´(جہاد کے متعلق احادیث)` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز گھڑ سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حصہ دیا (بخاری ومسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل مرد مجاہد کے لئے ایک حصہ اور گھڑ سوار کے لئے تین حصے، دو حصے اس کے گھوڑے کے اور ایک حصہ اس کا اپنا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1110»
تخریج: «أخرجه البخاري، المغازي، باب غزوة خبير، حديث:4228، ومسلم، الجهاد والسير، باب كيفية قسمة الغنيمة بين الحاضرين، حديث:1762، وحديث: "أسهم لرجل..." أخرجه أبوداود، الجهاد، حديث:2733 وسنده صحيح.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال غنیمت کی تقسیم میں گھوڑ سوار کے لیے تین حصے ہیں (دو اس کے گھوڑے کے اور ایک اس کا اپنا) جبکہ پیدل کے لیے صرف ایک حصہ ہے۔ 2. گھوڑے کا حصہ اس لیے زیادہ رکھا گیا کہ اس کی خوراک اور دیکھ بھال پر کافی اخراجات آتے ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1110
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2733
´گھوڑے کے حصے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی اور اس کے گھوڑے کو تین حصہ دیا: ایک حصہ اس کا اور دو حصہ اس کے گھوڑے کا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2733]
فوائد ومسائل: جہاد میں پیدل جہاد کرنے والے کے مقابلے میں گھوڑ سوار کی کارگردگی عموما بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے غنیمت میں گھوڑے کا بھی حصہ رکھا گیا ہے۔ فی زمانہ ٹینکوں لڑاکا طیاروں اور دیگر سواریوں کا بھی یہی حکم ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2733
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2854
´مال غنیمت کی تقسیم کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر میں گھوڑ سوار کے لیے تین حصے متعین فرمائے، دو حصے گھوڑے کے، اور ایک حصہ آدمی کا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2854]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) جہاد کے لیے گھوڑے پالنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے پر کافی سرمایہ خرچ ہوتا ہے اس لیے مال غنیمت میں گھوڑے کا بھی حصہ رکھا گیا ہے۔ ورنہ ممکن تھا کہ مجاہد کا حصہ گھوڑے کی خدمت ہی پر خرچ ہوجاتا اور وہ خود مال غنیمت میں سے اپنی ذاتی ضروریات کے لیے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
(2) گھوڑے کا حصہ آدمی کے حصے سے دگنا ہے۔ اس لیے گھوڑے والے مجاہد کو تین حصے ملتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2854
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2863
2863. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں سے گھوڑے کے لیے دو حصے اور اس کے مالک کا ایک حصہ مقرر کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2863]
حدیث حاشیہ: تو اللہ تعالیٰ نے عربی گھوڑے کی تخصیص نہیں کی۔ عربی اور ترکی سب گھوڑوں کو برابر حصہ ملے گا یعنی سوار کو تین حصے ملیں گے‘ پیدل کو ایک حصہ۔ اکثر اماموں اور اہلحدیث کا یہی قول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2863
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2863
2863. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت میں سے گھوڑے کے لیے دو حصے اور اس کے مالک کا ایک حصہ مقرر کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2863]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ مال غنیمت سے گھوڑے کے لیے دو حصے اور اس کے مالک کے لیے ایک حصہ ہے یعنی گھوڑے پر سوار مجاہد کو غنیمت مال سے تین حصے اور پیدل مجاہد کو صرف ایک حصہ دیا جائے گا۔ امام مالک ؒ، امام شافعی ؒ،امام ابو یوسف ؒاور امام محمد ؒ کا یہی مذہب ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒنے اس موقف کی تائید میں حدیث پیش کی ہے جبکہ امام ابو حنیفہ ؒ کا موقف ہے کہ سوار کو دو حصے دیے جائیں۔ لیکن یہ موقف احادیث کے خلاف ہے اور اسے ان کے شاگردوں نے بھی تسلیم نہیں کیا نیز جس گھوڑے پر مجاہد سوار ہے اسے صرف اس گھوڑے کا حصہ دی جائے کیونکہ وہ اس کے کام آرہا ہے اور جس پر سواری نہیں ہوئی اس کا حصہ نہیں نکالا جائے گا۔ دو گھوڑوں پرتو بیک وقت سوار نہیں ہوا جا سکتا کہ اسے دو گھوڑوں کا حصہ دیا جائے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2863
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4228
4228. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھوڑے کے دو حصے اور پیادے کے لیے ایک حصہ تقسیم کیا۔ (راوی حدیث) حضرت نافع نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: جس آدمی کے ساتھ گھوڑا ہوتا تو اس کو تین حصے ملتے اور اگر اس کے پاس گھوڑا نہ ہوتا تو اسے ایک حصہ ملتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4228]
حدیث حاشیہ: فرس سے مراد گھوڑا ہے یا گھڑسوار؟کچھ حضرات کا خیال ہے کہ مراد فارس، یعنی گھڑ سوار ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں پیادے (پیدل) کا حصہ بیان ہواہے۔ ان کے نزدیک گھڑسوار کے دوحصے ہیں: ایک حصہ اس کی ذات کے لیے اوردوسرا اس کے گھوڑے کے لیے، جبکہ پیادے کا صرف ایک حصہ ہے، لیکن محدثین کے نزدیک اسے گھوڑے کی وجہ سے دیے جاتے۔ حضرت نافع ؒ کی تفسیر سے محدثین کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے اور یہی قرین قیاس ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4228
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سليم بن اخضر، نحوه، وفي الباب، عن مجمع بن جارية، وابن عباس، وابن عباس، عن ابيه، وهذا حديث ابن عمر، حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان الثوري، والاوزاعي، ومالك بن انس، وابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: للفارس ثلاثة اسهم، سهم له، وسهمان لفرسه، وللراجل سهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ أَخْضَرَ، نَحْوَهُ، وَفِي الْبَاب، عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: لِلْفَارِسِ ثَلَاثَةُ أَسْهُمٍ، سَهْمٌ لَهُ، وَسَهْمَانِ لِفَرَسِهِ، وَلِلرَّاجِلِ سَهْمٌ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں مجمع بن جاریہ، ابن عباس اور ابی عمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، اوزاعی، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ سوار کو تین حصے ملیں گے، ایک حصہ اس کا اور دو حصے اس کے گھوڑے کے اور پیدل چلنے والے کو ایک حصہ ملے گا۔