سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
1. باب مَا جَاءَ فِي مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
1. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے منقول اوقات نماز کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Prescribed Times for Salat From The Prophet
حدیث نمبر: 149
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، حدثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة، عن حكيم بن حكيم وهو ابن عباد بن حنيف , اخبرني نافع بن جبير بن مطعم، قال: اخبرني ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " امني جبريل عليه السلام عند البيت مرتين، فصلى الظهر في الاولى منهما حين كان الفيء مثل الشراك، ثم صلى العصر حين كان كل شيء مثل ظله، ثم صلى المغرب حين وجبت الشمس وافطر الصائم، ثم صلى العشاء حين غاب الشفق، ثم صلى الفجر حين برق الفجر، وحرم الطعام على الصائم، وصلى المرة الثانية الظهر حين كان ظل كل شيء مثله لوقت العصر بالامس، ثم صلى العصر حين كان ظل كل شيء مثليه، ثم صلى المغرب لوقته الاول، ثم صلى العشاء الآخرة حين ذهب ثلث الليل، ثم صلى الصبح حين اسفرت الارض، ثم التفت إلي جبريل، فقال: يا محمد هذا وقت الانبياء من قبلك والوقت فيما بين هذين الوقتين ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة , وبريدة , وابي موسى , وابي مسعود الانصاري , وابي سعيد , وجابر , وعمرو بن حزم , والبراء , وانس.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ وَهُوَ ابْنُ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ , أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الْأُولَى مِنْهُمَا حِينَ كَانَ الْفَيْءُ مِثْلَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْءٍ مِثْلَ ظِلِّهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ وَأَفْطَرَ الصَّائِمُ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ بَرَقَ الْفَجْرُ، وَحَرُمَ الطَّعَامُ عَلَى الصَّائِمِ، وَصَلَّى الْمَرَّةَ الثَّانِيَةَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَهُ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْءٍ مِثْلَيْهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ لِوَقْتِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَتِ الْأَرْضُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَذَا وَقْتُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَبُرَيْدَةَ , وَأَبِي مُوسَى , وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَجَابِرٍ , وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ , وَالْبَرَاءِ , وَأَنَسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دو بار امامت کی، پہلی بار انہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیا اور) سایہ جوتے کے تسمہ کے برابر ہو گیا، پھر عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا ۱؎، پھر مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اور روزے دار نے افطار کر لیا، پھر عشاء اس وقت پڑھی جب شفق ۲؎ غائب ہو گئی، پھر نماز فجر اس وقت پڑھی جب فجر روشن ہو گئی اور روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو گیا، دوسری بار ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہو گیا، پھر عصر اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا، پھر مغرب اس کے اول وقت ہی میں پڑھی (جیسے پہلی بار میں پڑھی تھی) پھر عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزر گئی، پھر فجر اس وقت پڑھی جب اجالا ہو گیا، پھر جبرائیل نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا: اے محمد! یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقات نماز تھے، آپ کی نمازوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابوہریرہ، بریدہ، ابوموسیٰ، ابومسعود انصاری، ابوسعید، جابر، عمرو بن حرم، براء اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 2 (393)، (تحفة الأشراف: 6519)، مسند احمد (1/333، 354) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے جمہور کا یہی مسلک ہے اور عصر کے وقت سے متعلق امام ابوحنیفہ کا مشہور قول دو مثل کا ہے لیکن یہ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ بلکہ بعض علمائے احناف نے صحیح احادیث میں ان کے اس قول کو رد کر دیا ہے (تفصیل کے لیے دیکھئیے: التعلیق الممجد علی موطا الإمام محمد، ص: ۴۱، ط/قدیمی کتب خانہ کراچی)۔
۲؎: اس سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے۔
۳؎: پہلے دن جبرائیل علیہ السلام نے ساری نمازیں اول وقت میں پڑھائیں اور دوسرے دن آخری وقت میں تاکہ ہر نماز کا اول اور آخر وقت معلوم ہو جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، المشكاة (583)، الإرواء (249)، صحيح أبي داود (416)
حدیث نمبر: 150
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرني احمد بن محمد بن موسى، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا حسين بن علي بن حسين، اخبرني وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " امني جبريل " فذكر نحو حديث ابن عباس بمعناه، ولم يذكر فيه لوقت العصر بالامس. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، وحديث ابن عباس حسن صحيح، وقال محمد: اصح شيء في المواقيت حديث جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: وحديث جابر في المواقيت قد رواه عطاء بن ابي رباح , وعمرو بن دينار , وابو الزبير، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث وهب بن كيسان، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَمَّنِي جِبْرِيلُ " فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمَعْنَاهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ مُحَمَّدٌ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي الْمَوَاقِيتِ حَدِيثُ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي الْمَوَاقِيتِ قَدْ رَوَاهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ , وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ , وَأَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل نے میری امامت کی، پھر انہوں نے ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ البتہ انہوں نے اس میں «لوقت العصر بالأمس» کا ٹکڑا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۱؎، اور ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اوقات نماز کے سلسلے میں سب سے صحیح جابر رضی الله عنہ والی حدیث ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/مواقیت الصلاة 17 (527)، (تحفة الأشراف: 3128)، مسند احمد (3/330، 331) (وذکرہ أبو داود تحت حدیث رقم: 394 تعلیقاً ومقتصرا علی وقت المغرب فقط) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: امام ترمذی یہ اصطلاح (حسن صحیح غریب) اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی حدیث کسی صحابی کی روایت سے معروف ہو اور اس کے مختلف طرق ہوں، یا ایک ہی طریق ہو پھر اسی صحابی سے کسی اور طریق سے روایت آئے اور اسے غریب جانا جائے، مطلب یہ ہے کہ لفظی طور پر غریب ہے اسنادی طور پر حسن صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (250)، صحيح أبي داود (418)
2. باب مِنْهُ
2. باب: اوقات نماز سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: Something else (about the timings of Salat)
حدیث نمبر: 151
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا محمد بن فضيل، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن للصلاة اولا وآخرا، وإن اول وقت صلاة الظهر حين تزول الشمس، وآخر وقتها حين يدخل وقت العصر، وإن اول وقت صلاة العصر حين يدخل وقتها، وإن آخر وقتها حين تصفر الشمس، وإن اول وقت المغرب حين تغرب الشمس، وإن آخر وقتها حين يغيب الافق، وإن اول وقت العشاء الآخرة حين يغيب الافق، وإن آخر وقتها حين ينتصف الليل، وإن اول وقت الفجر حين يطلع الفجر، وإن آخر وقتها حين تطلع الشمس ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: وسمعت محمدا يقول: حديث الاعمش، عن مجاهد في المواقيت اصح من حديث محمد بن فضيل، عن الاعمش، وحديث محمد بن فضيل خطا، اخطا فيه محمد بن فضيل، حدثنا هناد، حدثنا ابو اسامة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن الاعمش، عن مجاهد , قال: كان يقال: إن للصلاة اولا وآخرا، فذكر نحو حديث محمد بن فضيل، عن الاعمش نحوه بمعناه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الظُّهْرِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَآخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُهَا، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَنْتَصِفُ اللَّيْلُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي الْمَوَاقِيتِ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ , قَالَ: كَانَ يُقَالُ: إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخری وقت، ظہر کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب عصر کا وقت شروع ہو جائے، اور عصر کا اول وقت وہ ہے جب عصر کا وقت (ایک مثل سے) شروع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہو جائے، اور مغرب کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈوب جائے اور آخری وقت وہ ہے جب شفق ۱؎ غائب ہو جائے، اور عشاء کا اول وقت وہ ہے جب شفق غائب ہو جائے اور اس کا آخر وقت وہ ہے جب آدھی رات ہو جائے ۲؎، اور فجر کا اول وقت وہ ہے جب فجر (صادق) طلوع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج نکل جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت آئی ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ اوقات کے سلسلہ میں اعمش کی مجاہد سے روایت محمد بن فضیل کی اعمش سے روایت سے زیادہ صحیح ہے، محمد بن فضیل کی حدیث غلط ہے اس میں محمد بن فضیل سے چوک ہوئی ہے ۳؎، اس روایت کو ابواسحاق فزاری نے اعمش سے اور اعمش نے مجاہد سے روایت کیا ہے، مجاہد کہتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخر وقت ہے، پھر محمد بن فضیل والی سابقہ حدیث کی طرح اسی کے ہم معنی کی حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12461) وانظر: مسند احمد (2/232) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حدیث میں لفظ «افق» ہے جس سے مراد شفق ہے، یعنی سورج کی سرخی اندھیرے میں گم ہو جائے۔
۲؎: یہ وقت اختیاری ہے رہا، وقت جواز تو یہ صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے کیونکہ ابوقتادہ کی حدیث میں ہے «ليس في النوم تفريط إنما التفريط على من لم يصل الصلاة حتى يجيء وقت الصلاة الأخرى»
۳؎: کیونکہ محمد بن فضیل نے یوں روایت کی ہے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة» جبکہ صحیح یوں ہے: «عن الأعمش عن مجاهد قوله» یعنی: اس روایت کا مجاہد کا قول ہونا زیادہ صحیح ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مرفوع قول ہونے سے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1696)
3. باب مِنْهُ
3. باب: اوقات نماز سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: Something else
حدیث نمبر: 152
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , والحسن بن الصباح البزار , واحمد بن محمد بن موسى , المعنى واحد , قالوا: حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن سفيان الثوري، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فساله عن مواقيت الصلاة، فقال: " اقم معنا إن شاء الله " , فامر بلالا، فاقام حين طلع الفجر، ثم امره فاقام حين زالت الشمس، فصلى الظهر، ثم امره، فاقام فصلى العصر والشمس بيضاء مرتفعة، ثم امره بالمغرب حين وقع حاجب الشمس، ثم امره بالعشاء فاقام حين غاب الشفق، ثم امره من الغد فنور بالفجر، ثم امره بالظهر فابرد وانعم ان يبرد، ثم امره بالعصر فاقام والشمس آخر وقتها فوق ما كانت، ثم امره فاخر المغرب إلى قبيل ان يغيب الشفق، ثم امره بالعشاء فاقام حين ذهب ثلث الليل، ثم قال: " اين السائل عن مواقيت الصلاة " , فقال الرجل: انا , فقال: " مواقيت الصلاة كما بين هذين ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب صحيح. قال: وقد رواه شعبة، عن علقمة بن مرثد ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , وَالْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ , وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى , الْمَعْنَى وَاحِدٌ , قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: " أَقِمْ مَعَنَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ " , فَأَمَرَ بِلَالًا، فَأَقَامَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَقَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعِشَاءِ فَأَقَامَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ مِنَ الْغَدِ فَنَوَّرَ بِالْفَجْرِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالظُّهْرِ فَأَبْرَدَ وَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعَصْرِ فَأَقَامَ وَالشَّمْسُ آخِرَ وَقْتِهَا فَوْقَ مَا كَانَتْ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ إِلَى قُبَيْلِ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعِشَاءِ فَأَقَامَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ " , فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا , فَقَالَ: " مَوَاقِيتُ الصَّلَاةِ كَمَا بَيْنَ هَذَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ أَيْضًا.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اس نے آپ سے اوقات نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم ہمارے ساتھ قیام کرو (تمہیں نماز کے اوقات معلوم ہو جائیں گے) ان شاءاللہ، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی جب فجر (صادق) طلوع ہو گئی پھر آپ نے حکم دیا تو انہوں نے سورج ڈھلنے کے بعد اقامت کہی تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی آپ نے عصر پڑھی اس وقت سورج روشن اور بلند تھا، پھر جب سورج ڈوب گیا تو آپ نے انہیں مغرب کا حکم دیا، پھر جب شفق غائب ہو گئی تو آپ نے انہیں عشاء کا حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی، پھر دوسرے دن انہیں حکم دیا تو انہوں نے فجر کو خوب اجالا کر کے پڑھا، پھر آپ نے انہیں ظہر کا حکم دیا تو انہوں نے ٹھنڈا کیا، اور خوب ٹھنڈا کیا، پھر آپ نے انہیں عصر کا حکم دیا اور انہوں نے اقامت کہی تو اس وقت سورج اس کے آخر وقت میں اس سے زیادہ تھا جتنا پہلے دن تھا (یعنی دوسرے دن عصر میں تاخیر ہوئی)، پھر آپ نے انہیں مغرب میں دیر کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے مغرب کو شفق کے ڈوبنے سے کچھ پہلے تک مؤخر کیا، پھر آپ نے انہیں عشاء کا حکم دیا تو انہوں نے جب تہائی رات ختم ہو گئی تو اقامت کہی، پھر آپ نے فرمایا: نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟ تو اس آدمی نے عرض کیا: میں ہوں، آپ نے فرمایا: نماز کے اوقات انہیں دونوں کے بیچ میں ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن، غریب صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 31 (613)، سنن النسائی/المواقیت 12 (520)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 1 (667)، (تحفة الأشراف: 1931)، مسند احمد (5/349) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (667)
4. باب مَا جَاءَ فِي التَّغْلِيسِ بِالْفَجْرِ
4. باب: فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Praying Fajr In The Dark
حدیث نمبر: 153
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس، قال: وحدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة، قالت: " إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي الصبح فينصرف النساء ". قال الانصاري: فيمر النساء متلففات بمروطهن ما يعرفن من الغلس، وقال قتيبة: متلفعات. قال: وفي الباب عن ابن عمر , وانس , وقيلة بنت مخرمة. قال ابو عيسى: حديث عائشة حسن صحيح، وقد رواه الزهري، عن عروة، عن عائشة نحوه، وهو الذي اختاره غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر , وعمر ومن بعدهم من التابعين، وبه يقول الشافعي , واحمد , وإسحاق: يستحبون التغليس بصلاة الفجر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَ: وحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ ". قَالَ الْأَنْصَارِيُّ: فَيَمُرُّ النِّسَاءُ مُتَلَفِّفَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنَ الْغَلَسِ، وقَالَ قُتَيْبَةُ: مُتَلَفِّعَاتٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَأَنَسٍ , وَقَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَهُ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: يَسْتَحِبُّونَ التَّغْلِيسَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب فجر پڑھا لیتے تو پھر عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی لوٹتیں وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، انس، اور قیلہ بنت مخرمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور اسی کو صحابہ کرام جن میں ابوبکر و عمر رضی الله عنہما بھی شامل ہیں اور ان کے بعد کے تابعین میں سے بہت سے اہل علم نے پسند کیا ہے، اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ فجر «غلس» (اندھیرے) میں پڑھنا مستحب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 13 (372)، والمواقیت 27 (578)، والأذان 163 (867)، و165 (872)، صحیح مسلم/المساجد 40 (645)، سنن ابی داود/ الصلاة 8 (423)، سنن النسائی/المواقیت 25 (547، 546)، والسہو 101 (1363)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 2 (669)، (تحفة الأشراف: 3582)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (4)، مسند احمد (6/33، 36، 179، 248، 259) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (669)
5. باب مَا جَاءَ فِي الإِسْفَارِ بِالْفَجْرِ
5. باب: فجر اجالا ہو جانے پر پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Al-Isfar In Fajr
حدیث نمبر: 154
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة هو ابن سليمان، عن محمد بن إسحاق، عن عاصم بن عمر بن قتادة، عن محمود بن لبيد، عن رافع بن خديج، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اسفروا بالفجر، فإنه اعظم للاجر ". قال: وقد روى شعبة , والثوري هذا الحديث، عن محمد بن إسحاق، قال: ورواه محمد بن عجلان ايضا، عن عاصم بن عمر بن قتادة، قال: وفي الباب عن ابي برزة الاسلمي , وجابر , وبلال. قال ابو عيسى: حديث رافع بن خديج حسن صحيح، وقد راى غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين الإسفار بصلاة الفجر، وبه يقول سفيان الثوري، وقال الشافعي , واحمد , وإسحاق معنى الإسفار: ان يضح الفجر فلا يشك فيه، ولم يروا ان معنى الإسفار تاخير الصلاة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ، فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ ". قَالَ: وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ , وَالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَيْضًا، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ , وَجَابِرٍ , وَبِلَالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ الْإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق مَعْنَى الْإِسْفَارِ: أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلَا يُشَكَّ فِيهِ، وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَى الْإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: فجر خوب اجالا کر کے پڑھو، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبرزہ اسلمی، جابر اور بلال رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کی رائے نماز فجر اجالا ہونے پر پڑھنے کی ہے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔ اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ «اسفار» اجالا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فجر واضح ہو جائے اور اس کے طلوع میں کوئی شک نہ رہے، «اسفار» کا یہ مطلب نہیں کہ نماز تاخیر (دیر) سے ادا کی جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 8 (424)، سنن النسائی/المواقیت 27 (549)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 2 (672)، (تحفة الأشراف: 3582)، مسند احمد (3/460) و (4/140)، سنن الدارمی/الصلاة 21 (1253) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نیز صحابہ و تابعین و سلف صالحین کے تعامل کو دیکھتے ہوئے اس حدیث کا یہی صحیح مطلب ہے۔ باب ہذا اور گزشتہ باب کی احادیث میں علمائے حدیث نے جو بہترین تطبیق دی وہ یوں ہے کہ فجر کی نماز منہ اندھیرے اول وقت میں شروع کرو، اور تطویل قرأت کے ساتھ اجالا کر لو، دونوں طرح کی احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الأحوذی جلد اول ص ۱۴۵، طبع المکتبۃ الفاروقیۃ /ملتان، پاکستان)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (672)
6. باب مَا جَاءَ فِي التَّعْجِيلِ بِالظُّهْرِ
6. باب: ظہر جلدی پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Hastening Zuhr
حدیث نمبر: 155
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن حكيم بن جبير، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: " ما رايت احدا كان اشد تعجيلا للظهر من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا من ابي بكر , ولا من عمر ". قال: وفي الباب عن جابر بن عبد الله , وخباب , وابي برزة , وابن مسعود , وزيد بن ثابت , وانس , وجابر بن سمرة. قال ابو عيسى: حديث عائشة حسن، وهو الذي اختاره اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، قال علي بن المديني: قال يحيى بن سعيد: وقد تكلم شعبة في حكيم بن جبير من اجل حديثه الذي روى، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " من سال الناس وله ما يغنيه " , قال يحيى: وروى له سفيان , وزائدة، ولم ير يحيى بحديثه باسا، قال محمد: وقد روي عن حكيم بن جبير، عن سعيد بن جبير، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم في تعجيل الظهر.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ تَعْجِيلًا لِلظُّهْرِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا مِنْ أَبِي بَكْرٍ , وَلَا مِنْ عُمَرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , وَخَبَّابٍ , وَأَبِي بَرْزَةَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَأَنَسٍ , وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ مِنْ أَجْلِ حَدِيثِهِ الَّذِي رَوَى، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ " , قَالَ يَحْيَى: وَرَوَى لَهُ سُفْيَانُ , وَزَائِدَةُ، وَلَمْ يَرَ يَحْيَى بِحَدِيثِهِ بَأْسًا، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ الظُّهْرِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ظہر کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر جلدی کرنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا، اور نہ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما سے بڑھ کر جلدی کرنے والا کسی کو دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں جابر بن عبداللہ، خباب، ابوبرزہ، ابن مسعود، زید بن ثابت، انس اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں اور عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے،
۲- اور اسی کو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں اہل علم نے اختیار کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر: مسند احمد (6/135، 216)، (تحفة الأشراف: 15934) (ضعیف الإسناد) (سند کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس کے راوی ”حکیم بن جبیر“ ضعیف ہیں، لیکن دوسری احادیث جیسا کہ مولف نے ذکر کیا ہے سے یہ حدیث ثابت ہے۔)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
حكيم بن جبير (د 1626) ضعیف والحديث والأتي (الأصل: 161) يغني عنه .
حدیث نمبر: 156
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الحلواني، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، قال: اخبرني انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " صلى الظهر حين زالت الشمس ". قال ابو عيسى: هذا صحيح، وهو احسن حديث في هذا الباب، وفي الباب عن جابر.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا صَحِيحٌ، وَهُوَ أَحْسَنُ حَدِيثٍ فِي هَذَا الْبَابِ، وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نماز ظہر اس وقت پڑھی جس وقت سورج ڈھل گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے اور یہ اس باب میں سب سے اچھی حدیث ہے،
۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 1548) وانظر: مسند احمد (3/129، 169) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
7. باب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ
7. باب: سخت گرمی میں ظہر دیر سے پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Delaying Zuhr In Severe Heat
حدیث نمبر: 157
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب , وابى سلمة , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اشتد الحر فابردوا عن الصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم ". قال: وفي الباب عن ابي سعيد , وابي ذر , وابن عمر , والمغيرة , والقاسم بن صفوان، عن ابيه وابي موسى , وابن عباس , وانس، قال: وروي عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم في هذا ولا يصح. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حسن صحيح، وقد اختار قوم من اهل العلم تاخير صلاة الظهر في شدة الحر، وهو قول ابن المبارك , واحمد , وإسحاق، قال الشافعي: إنما الإبراد بصلاة الظهر إذا كان مسجدا ينتاب اهله من البعد، فاما المصلي وحده والذي يصلي في مسجد قومه، فالذي احب له ان لا يؤخر الصلاة في شدة الحر. قال ابو عيسى: ومعنى من ذهب إلى تاخير الظهر في شدة الحر هو اولى واشبه بالاتباع، واما ما ذهب إليه الشافعي، ان الرخصة لمن ينتاب من البعد والمشقة على الناس، فإن في حديث ابي ذر ما يدل على خلاف ما قال الشافعي , قال ابو ذر: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فاذن بلال بصلاة الظهر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " يا بلال ابرد " , ثم ابرد، فلو كان الامر على ما ذهب إليه الشافعي لم يكن للإبراد في ذلك الوقت معنى لاجتماعهم في السفر، وكانوا لا يحتاجون ان ينتابوا من البعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , وَأَبِى سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَأَبِي ذَرٍّ , وَابْنِ عُمَرَ , وَالْمُغِيرَةِ , وَالْقَاسِمِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ أَبِيهِ وَأَبِي مُوسَى , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَنَسٍ، قَالَ: وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا وَلَا يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَأْخِيرَ صَلَاةِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق، قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا الْإِبْرَادُ بِصَلَاةِ الظُّهْرِ إِذَا كَانَ مَسْجِدًا يَنْتَابُ أَهْلُهُ مِنَ الْبُعْدِ، فَأَمَّا الْمُصَلِّي وَحْدَهُ وَالَّذِي يُصَلِّي فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ، فَالَّذِي أُحِبُّ لَهُ أَنْ لَا يُؤَخِّرَ الصَّلَاةَ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَعْنَى مَنْ ذَهَبَ إِلَى تَأْخِيرِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ هُوَ أَوْلَى وَأَشْبَهُ بِالِاتِّبَاعِ، وَأَمَّا مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ الشَّافِعِيُّ، أَنَّ الرُّخْصَةَ لِمَنْ يَنْتَابُ مِنَ الْبُعْدِ وَالْمَشَقَّةِ عَلَى النَّاسِ، فَإِنَّ فِي حَدِيثِ أَبِي ذَرٍّ مَا يَدُلُّ عَلَى خِلَافِ مَا قَالَ الشَّافِعِيُّ , قَالَ أَبُو ذَرٍّ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَذَّنَ بِلَالٌ بِصَلَاةِ الظُّهْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا بِلَالُ أَبْرِدْ " , ثُمَّ أَبْرِدْ، فَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ الشَّافِعِيُّ لَمْ يَكُنْ لِلْإِبْرَادِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ مَعْنًى لِاجْتِمَاعِهِمْ فِي السَّفَرِ، وَكَانُوا لَا يَحْتَاجُونَ أَنْ يَنْتَابُوا مِنَ الْبُعْدِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈا ہونے پر پڑھو ۱؎ کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوسعید، ابوذر، ابن عمر، مغیرہ، اور قاسم بن صفوان کے باپ ابوموسیٰ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اس سلسلے میں عمر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں،
۴- اہل علم میں کچھ لوگوں نے سخت گرمی میں ظہر تاخیر سے پڑھنے کو پسند کیا ہے۔ یہی ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: ظہر ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی بات اس وقت کی ہے جب مسجد والے دور سے آتے ہوں، رہا اکیلے نماز پڑھنے والا اور وہ شخص جو اپنے ہی لوگوں کی مسجد میں نماز پڑھتا ہو تو میں اس کے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ وہ سخت گرمی میں بھی نماز کو دیر سے نہ پڑھے،
۵- جو لوگ گرمی کی شدت میں ظہر کو دیر سے پڑھنے کی طرف گئے ہیں ان کا مذہب زیادہ بہتر اور اتباع کے زیادہ لائق ہے، رہی وہ بات جس کی طرف شافعی کا رجحان ہے کہ یہ رخصت اس کے لیے ہے جو دور سے آتا ہوتا کہ لوگوں کو پریشانی نہ ہو تو ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس چیز پر دلالت کرتی ہیں جو امام شافعی کے قول کے خلاف ہیں۔ ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے، بلال رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر کے لیے اذان دی، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! ٹھنڈا ہو جانے دو، ٹھنڈا ہو جانے دو (یہ حدیث آگے آ رہی ہے)، اب اگر بات ایسی ہوتی جس کی طرف شافعی گئے ہیں، تو اس وقت ٹھنڈا کرنے کا کوئی مطلب نہ ہوتا، اس لیے کہ سفر میں سب لوگ اکٹھا تھے، انہیں دور سے آنے کی ضرورت نہ تھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 9 (538)، صحیح مسلم/المساجد 32 (615)، سنن ابی داود/ الصلاة 4 (402)، سنن النسائی/المواقیت 5 (501)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 4 (677)، (تحفة الأشراف: 13226، 1237)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 7 (98)، مسند احمد (2/229، 238، 256، 266، 348، 377، 393، 40، 411، 462)، سنن الدارمی/الصلاة 14 (1243)، والرقاق 119 (2887) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی کچھ انتظار کر لو ٹھنڈا ہو جائے تب پڑھو، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں ظہر قدرے تاخیر کر کے پڑھنی چاہیئے اس تاخیر کی حد کے بارے میں ابوداؤد اور نسائی میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم موسم گرما میں ظہر میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک ہو جاتا، مگر علامہ خطابی نے کہا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول البلد اور عرض البلد کے اعتبار سے اس کا حساب بھی مختلف ہو گا، بہرحال موسم گرما میں نماز ظہر قدرے تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے، یہی جمہور کی رائے ہے۔
۲؎: اسے حقیقی اور ظاہری معنی پر محمول کرنا زیادہ صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ جہنم کی آگ نے رب عزوجل سے شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء گرمی کی شدت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں تو رب عزوجل نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں اور ایک گرمی میں، جاڑے میں سانس اندر کی طرف لیتی ہے اور گرمی میں باہر نکالتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (678)
حدیث نمبر: 158
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الطيالسي، قال: انبانا شعبة، عن مهاجر ابي الحسن، عن زيد بن وهب، عن ابي ذر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في سفر ومعه بلال، فاراد بلال ان يقيم، فقال: " ابرد " , ثم اراد ان يقيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابرد في الظهر " , قال: حتى راينا فيء التلول، ثم اقام فصلى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن شدة الحر من فيح جهنم، فابردوا عن الصلاة ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَأَرَادَ بِلالٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ: " أَبْرِدْ " , ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْرِدْ فِي الظُّهْرِ " , قَالَ: حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک سفر میں تھے، ساتھ میں بلال رضی الله عنہ بھی تھے۔ بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ٹھنڈا ہو جانے دو۔ انہوں نے پھر اقامت کہنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھ۔ وہ کہتے ہیں (ظہر تاخیر سے پڑھی گئی) یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا تب انہوں نے اقامت کہی پھر آپ نے نماز پڑھی، پھر فرمایا: گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے۔ لہٰذا نماز ٹھنڈے میں پڑھا کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 9 (535)، صحیح مسلم/المساجد 32 (616)، سنن ابی داود/ الصلاة 4 (401)، (تحفة الأشراف: 11914)، مسند احمد (5/155، 162، 176) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (429)

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.