ابوعبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے دونوں موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! (یہ) سنت ہے۔ وہ کہتے ہیں اور میں نے عمامہ پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: بالوں کو چھوؤ۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن سالم بن ابي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، عن خالته ميمونة، قالت: " وضعت للنبي صلى الله عليه وسلم غسلا، فاغتسل من الجنابة، فاكفا الإناء بشماله على يمينه، فغسل كفيه ثم ادخل يده في الإناء فافاض على فرجه، ثم دلك بيده الحائط او الارض، ثم مضمض واستنشق وغسل وجهه وذراعيه، ثم افاض على راسه ثلاثا، ثم افاض على سائر جسده، ثم تنحى فغسل رجليه ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وفي الباب عن ام سلمة، وجابر , وابي سعيد , وجبير بن مطعم , وابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: " وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا، فَاغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ فَأَفَاضَ عَلَى فَرْجِهِ، ثُمَّ دَلَكَ بِيَدِهِ الْحَائِطَ أَوِ الْأَرْضَ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَجَابِرٍ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے نہانے کا پانی رکھا، آپ نے غسل جنابت کیا، تو برتن کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر جھکایا اور اپنے پہونچے دھوئے، پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور شرمگاہ پر پانی بہایا، پھر اپنا ہاتھ دیوار یا زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر تین مرتبہ سر پر پانی بہایا، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر وہاں سے پرے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ، جابر، ابوسعید جبیر بن مطعم اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يغتسل من الجنابة بدا فغسل يديه قبل ان يدخلهما الإناء، ثم غسل فرجه ويتوضا وضوءه للصلاة، ثم يشرب شعره الماء، ثم يحثي على راسه ثلاث حثيات ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو الذي اختاره اهل العلم في الغسل من الجنابة، انه يتوضا وضوءه للصلاة، ثم يفرغ على راسه ثلاث مرات، ثم يفيض الماء على سائر جسده، ثم يغسل قدميه , والعمل على هذا عند اهل العلم، وقالوا: إن انغمس الجنب في الماء ولم يتوضا اجزاه، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَغْتَسِلَ مِنَ الْجَنَابَةِ بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا الْإِنَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُشَرِّبُ شَعْرَهُ الْمَاءَ، ثُمَّ يَحْثِي عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، أَنَّهُ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُفْرِغُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: إِنِ انْغَمَسَ الْجُنُبُ فِي الْمَاءِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ أَجْزَأَهُ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے، پھر شرمگاہ دھوتے، اور اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر بال پانی سے بھگوتے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی کو اہل علم نے غسل جنابت میں اختیار کیا ہے کہ وہ نماز کے وضو کی طرح وضو کرے، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالے، پھر اپنے پورے بدن پر پانی بہائے، پھر اپنے پاؤں دھوئے، اہل علم کا اسی پر عمل ہے، نیز ان لوگوں نے کہا کہ اگر جنبی پانی میں غوطہٰ مارے اور وضو نہ کرے تو یہ اسے کافی ہو گا۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ايوب بن موسى، عن سعيد المقبري، عن عبد الله بن رافع، عن ام سلمة، قالت: قلت: يا رسول الله إني امراة اشد ضفر راسي افانقضه لغسل الجنابة؟ قال: " لا إنما يكفيك ان تحثين على راسك ثلاث حثيات من ماء، ثم تفيضين على سائر جسدك الماء فتطهرين " او قال: " فإذا انت قد تطهرت ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم: ان المراة إذا اغتسلت من الجنابة فلم تنقض شعرها، ان ذلك يجزئها بعد ان تفيض الماء على راسها.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي أَفَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟ قَالَ: " لَا إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِينَ عَلَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ مِنْ مَاءٍ، ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِينَ " أَوْ قَالَ: " فَإِذَا أَنْتِ قَدْ تَطَهَّرْتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا اغْتَسَلَتْ مِنَ الْجَنَابَةِ فَلَمْ تَنْقُضْ شَعْرَهَا، أَنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُهَا بَعْدَ أَنْ تُفِيضَ الْمَاءَ عَلَى رَأْسِهَا.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں اپنے سر کی چوٹی مضبوطی سے باندھنے والی عورت ہوں۔ کیا غسل جنابت کے لیے اسے کھولا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”تمہاری سر پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے۔ پھر پورے بدن پر پانی بہا دو تو پاک ہو گئی، یا فرمایا: جب تم ایسا کر لے تو پاک ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اہل علم کا اسی پر عمل پر ہے کہ عورت جب جنابت کا غسل کرے، اور اپنے بال نہ کھولے تو یہ اس کے لیے اس کے بعد کہ وہ اپنے سر پر پانی بہا لے کافی ہو جائے گا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہی جمہور کا مذہب ہے کہ عورت خواہ جنابت کا غسل کر رہی ہو یا حیض سے پاکی کا: کسی میں بھی اس کے لیے بال کھولنا ضروری نہیں لیکن حسن بصری اور طاؤس نے ان دونوں میں تفریق کی ہے، یہ کہتے ہیں کہ جنابت کے غسل میں تو ضروری نہیں لیکن حیض کے غسل میں ضروری ہے، اور عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کو جس میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے «انقضى رأسك وامتشطي» فرمایا ہے جمہور نے استحباب پر محمول کیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي، حدثنا الحارث بن وجيه، قال: حدثنا مالك بن دينار، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " تحت كل شعرة جنابة فاغسلوا الشعر وانقوا البشر ". وفي الباب عن علي , وانس. قال ابو عيسى: حديث الحارث بن وجيه غريب، لا نعرفه إلا من حديثه، وهو شيخ ليس بذاك، وقد روى عنه غير واحد من الائمة، وقد تفرد بهذا الحديث، عن مالك بن دينار، ويقال: الحارث بن وجيه، ويقال: ابن وجبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ وَجِيهٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَحْتَ كُلِّ شَعْرَةٍ جَنَابَةٌ فَاغْسِلُوا الشَّعْرَ وَأَنْقُوا الْبَشَرَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ وَجِيهٍ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَهُوَ شَيْخٌ لَيْسَ بِذَاكَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ، وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ، وَيُقَالُ: الْحَارِثُ بْنُ وَجِيهٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ وَجْبَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتا ہے، اس لیے بالوں کو اچھی طرح دھویا کرو اور کھال کو اچھی طرح مل کر صاف کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- حارث بن وجیہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قوی نہیں ہیں ۱؎، وہ اس حدیث کو مالک بن دینار سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس لفظ ”قوی نہیں ہیں“ کا تعلق جرح کے مراتب کے پہلے مرتبہ سے ہے، ایسے راوی کی روایت قابل اعتبار یعنی تقویت کے قابل ہے اور اس کی تقویت کے لیے مزید روایات تلاش کی جا سکتی ہیں، ایسا نہیں کہ اس کی روایت سرے سے درخوراعتناء ہی نہ ہو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (597)، // ضعيف سنن ابن ماجة (132)، ضعيف أبي داود (46 / 248)، المشكاة (443)، الروض النضير (704)، ضعيف الجامع الصغير - بترتيبي - رقم (1847) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 248، جه 597
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى، حدثنا شريك، عن ابي إسحاق، عن الاسود، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " لا يتوضا بعد الغسل ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح. قال ابو عيسى: وهذا قول غير واحد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ان لا يتوضا بعد الغسل.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " لَا يَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ أَنْ لَا يَتَوَضَّأَ بَعْدَ الْغُسْلِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا قول ہے کہ غسل کے بعد وضو نہ کرے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب مرد کے ختنہ کا مقام (عضو تناسل) عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہو گیا ۱؎، میں نے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ہم نے غسل کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور رافع بن خدیج رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 111 (208)، (تحفة الأشراف: 17499)، وراجع أیضا: صحیح مسلم/الحیض 22 (349)، وط/الطہارة 18 (73)، و مسند احمد (6/47، 97، 112، 227، 239، 265) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گرچہ انزال نہ ہو تب بھی غسل واجب ہو گیا، پہلے یہ مسئلہ تھا کہ جب انزال ہو تب غسل واجب ہو گا، جو بعد میں اس حدیث سے منسوخ ہو گیا، دیکھئیے اگلی حدیث۔
(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا وكيع، عن سفيان، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن عائشة، قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا جاوز الختان الختان وجب الغسل ". قال ابو عيسى: حديث عائشة حسن صحيح، قال: وقد روي هذا الحديث عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه، إذا جاوز الختان الختان فقد وجب الغسل، وهو قول اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وعائشة، والفقهاء من التابعين ومن بعدهم، مثل: سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق، قالوا: إذا التقى الختانان وجب الغسل.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ وَجَبَ الْغُسْلُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَعَائِشَةُ، وَالْفُقَهَاءِ مِنَ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، مِثْلِ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ وَجَبَ الْغُسْلُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مرد کے ختنے کا مقام عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہو گیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- کئی سندوں سے عائشہ رضی الله عنہا کی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مرفوع حدیث مروی ہے کہ ”جب ختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے“ صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، ان میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور عائشہ رضی الله عنہم بھی شامل ہیں، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بھی اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ جب دونوں ختنوں کے مقام آپس میں چھو جائیں تو غسل واجب ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 16119) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح (بما قبله)، الإرواء (1 / 121)