(مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا معاذ بن هشام، قال: حدثني ابي، عن يحيى بن ابي كثير، قال: حدثني زيد، عن ابي سلام، عن ابي اسماء الرحبي، ان ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثه، قال: جاءت بنت هبيرة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفي يدها فتخ، فقال: كذا في كتاب ابي , اي: خواتيم ضخام، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يضرب يدها , فدخلت على فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم تشكو إليها الذي صنع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانتزعت فاطمة سلسلة في عنقها من ذهب، وقالت: هذه اهداها إلي ابو حسن فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم والسلسلة في يدها، فقال:" يا فاطمة , ايغرك ان يقول الناس ابنة رسول الله وفي يدها سلسلة من نار؟" , ثم خرج ولم يقعد فارسلت فاطمة بالسلسلة إلى السوق فباعتها , واشترت بثمنها غلاما، وقال: مرة عبدا وذكر كلمة معناها فاعتقته فحدث بذلك، فقال:" الحمد لله الذي انجى فاطمة من النار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِير، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدٌ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، أَنَّ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ، قَالَ: جَاءَتْ بِنْتُ هُبَيْرَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي يَدِهَا فَتَخٌ، فَقَالَ: كَذَا فِي كِتَابِ أَبِي , أَيْ: خَوَاتِيمُ ضِخَامٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْرِبُ يَدَهَا , فَدَخَلَتْ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْكُو إِلَيْهَا الَّذِي صَنَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتَزَعَتْ فَاطِمَةُ سِلْسِلَةً فِي عُنُقِهَا مِنْ ذَهَبٍ، وَقَالَتْ: هَذِهِ أَهْدَاهَا إِلَيَّ أَبُو حَسَنٍ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالسِّلْسِلَةُ فِي يَدِهَا، فَقَالَ:" يَا فَاطِمَةُ , أَيَغُرُّكِ أَنْ يَقُولَ النَّاسُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ وَفِي يَدِهَا سِلْسِلَةٌ مِنْ نَارٍ؟" , ثُمَّ خَرَجَ وَلَمْ يَقْعُدْ فَأَرْسَلَتْ فَاطِمَةُ بِالسِّلْسِلَةِ إِلَى السُّوقِ فَبَاعَتْهَا , وَاشْتَرَتْ بِثَمَنِهَا غُلَامًا، وَقَالَ: مَرَّةً عَبْدًا وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا فَأَعْتَقَتْهُ فَحُدِّثَ بِذَلِكَ، فَقَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْجَى فَاطِمَةَ مِنَ النَّارِ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنت ہبیرہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، ان کے ہاتھ میں بڑی بڑی انگوٹھیاں تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاتھ پر مارنے لگے، وہ آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئیں تاکہ ان سے اس برتاؤ کا گلہ شکوہ کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کیا تھا، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے گلے کا سونے کا ہار نکالا اور بولیں: یہ مجھے ابوالحسن (علی) نے تحفہ دیا تھا، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور ہار ان کے ہاتھ ہی میں تھا، آپ نے فرمایا: ”فاطمہ! تمہیں یہ بات پسند ہے کہ لوگ کہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور ہاتھ میں آگ کی زنجیر؟“، پھر آپ بیٹھے نہیں چلے گئے، پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ہار بازار بھیج کر اسے بیچ دیا اور اس کی قیمت سے ایک غلام (لڑکا) خریدا اور اسے آزاد کر دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”شکر ہے اللہ کا جس نے فاطمہ کو آگ سے نجات دی“۔
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہبیرہ کی صاحب زادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، ان کے ہاتھ میں سونے کی موٹی موٹی انگوٹھیاں تھیں، پھر آگے اسی طرح بیان کیا۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن شاهين الواسطي، قال: انبانا خالد، عن مطرف. ح وانبانا احمد بن حرب، قال: حدثنا اسباط، عن مطرف، عن ابي الجهم، عن ابي زيد، عن ابي هريرة، قال: كنت قاعدا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فاتته امراة، فقالت: يا رسول الله , سوارين من ذهب، قال:" سواران من نار"، قالت: يا رسول الله , طوق من ذهب , قال:" طوق من نار"، قالت: قرطين من ذهب , قال:" قرطين من نار"، قال: وكان عليهما سواران من ذهب، فرمت بهما، قالت: يا رسول الله , إن المراة إذا لم تتزين لزوجها صلفت عنده، قال:" ما يمنع إحداكن ان تصنع قرطين من فضة ثم تصفره بزعفران، او بعبير". اللفظ لابن حرب. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ شَاهِينَ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ:" سِوَارَانِ مِنْ نَارٍ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , طَوْقٌ مِنْ ذَهَبٍ , قَالَ:" طَوْقٌ مِنْ نَارٍ"، قَالَتْ: قُرْطَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ , قَالَ:" قُرْطَيْنِ مِنْ نَارٍ"، قَالَ: وَكَانَ عَلَيْهِمَا سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَرَمَتْ بِهِمَا، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا لَمْ تَتَزَيَّنْ لِزَوْجِهَا صَلِفَتْ عِنْدَهُ، قَالَ:" مَا يَمْنَعُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ تَصْنَعَ قُرْطَيْنِ مِنْ فِضَّةٍ ثُمَّ تُصَفِّرَهُ بِزَعْفَرَانٍ، أَوْ بِعَبِيرٍ". اللَّفْظُ لِابْنِ حَرْبٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے آپ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس سونے کے دو کنگن ہیں، آپ نے فرمایا: ”آگ کے دو کنگن ہیں“ وہ بولی: اللہ کے رسول! سونے کا ہار ہے، آپ نے فرمایا ”آگ کا ہار ہے“، وہ بولی: سونے کی دو بالیاں ہیں، آپ نے فرمایا: ”آگ کی دو بالیاں ہیں“، اس عورت کے پاس سونے کے دو کنگن تھے، اس نے انہیں اتار کر پھینک دئیے اور بولی: اگر عورت اپنے شوہر کے لیے بناؤ سنگار نہ کرے تو وہ اس کے لیے پھر کس کام کی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں چاندی کی بالیاں بنانے پھر اسے زعفران یا عبیر سے پیلا کرنے سے کون سی چیز مانع ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 14934)، مسند احمد (2/440) (ضعیف) (اس کے راوی ابو زید صاحب ابی ہریرہ مجہول ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، أبو زيد مجهول (تقريب: 8111) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 362
(مرفوع) اخبرني الربيع بن سليمان، قال: حدثنا إسحاق بن بكر، قال: حدثني ابي، عن عمرو بن الحارث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى عليها مسكتي ذهب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا اخبرك بما هو احسن من هذا؟ لو نزعت هذا وجعلت مسكتين من ورق ثم صفرتهما بزعفران كانتا حسنتين". قال ابو عبد الرحمن: هذا غير محفوظ والله اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَيْهَا مَسَكَتَيْ ذَهَبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا؟ لَوْ نَزَعْتِ هَذَا وَجَعَلْتِ مَسَكَتَيْنِ مِنْ وَرِقٍ ثُمَّ صَفَّرْتِهِمَا بِزَعْفَرَانٍ كَانَتَا حَسَنَتَيْنِ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کی پازیب پہنے دیکھا، تو فرمایا: ”میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاتا ہوں، تم اسے اتار دو اور چاندی کی پازیب بنا لو، پھر انہیں زعفران سے رنگ کر پیلا کر لو، یہ بہتر ہے“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث محفوظ نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم لے کر اسے اپنے دائیں ہاتھ میں رکھا، اور سونا لے کر اسے بائیں ہاتھ میں رکھا، پھر فرمایا: ”یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللباس 14 (4057)، سنن ابن ماجہ/اللباس 19 (3595)، (تحفة الأشراف: 10183)، مسند احمد (1/115)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 5148-4850) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ان دونوں کا استعمال مردوں کے لیے حرام ہے۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم لے کر اسے دائیں ہاتھ میں رکھا، سونا لے کر اسے بائیں ہاتھ میں رکھا پھر فرمایا: ”یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن حاتم، قال: حدثنا حبان، قال: انبانا عبد الله، عن ليث بن سعد، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب، عن ابن ابي الصعبة، عن رجل من همدان يقال له: افلح , عن ابن زرير، انه سمع عليا , يقول: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم اخذ حريرا فجعله في يمينه، واخذ ذهبا فجعله في شماله، ثم قال:" إن هذين حرام على ذكور امتي". قال ابو عبد الرحمن: وحديث ابن المبارك اولى بالصواب، إلا قوله: افلح فإن ابا افلح اشبه , والله تعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي الصَّعْبَةِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ هَمْدَانَ يُقَالُ لَهُ: أَفْلَحُ , عَنْ ابْنِ زُرَيْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا , يَقُولُ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ حَرِيرًا فَجَعَلَهُ فِي يَمِينِهِ، وَأَخَذَ ذَهَبًا فَجَعَلَهُ فِي شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَحَدِيثُ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَوْلَى بِالصَّوَابِ، إِلَّا قَوْلَهُ: أَفْلَحَ فَإِنَّ أَبَا أَفْلَحَ أَشْبَهُ , وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم لے کر اسے اپنے دائیں ہاتھ میں رکھا، اور سونا لے کر اسے اپنے بائیں ہاتھ میں رکھا، پھر فرمایا: ”یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ابن مبارک کی حدیث زیادہ قرین صواب ہے سوائے ان کے قول ”افلح“ کے، اس لیے کہ ”ابو افلح“ زیادہ صحیح ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5147 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مولف کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میں ”لیث بن سعد“ سے روایت کرنے والے پہلے ”عبداللہ بن مبارک“ کا ہونا بمقابلہ دوسروں کے زیادہ صواب ہے۔ (جیسا کہ اس سند میں ہے) مگر ابن مبارک سے ”ابو افلح“ کے بارے میں وہم ہو گیا ہے، صحیح ”ابوافلح“ ہے۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں سونا لیا اور بائیں ہاتھ میں ریشم، پھر فرمایا: ”یہ میری امت کے مردوں پر حرام ہے“۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/اللباس 1 (1720)، (تحفة الأشراف: 8998)، مسند احمد (4/394، 407) ویأتي عند المؤلف برقم: 5267 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا الحسن بن قزعة، عن سفيان بن حبيب، عن خالد، عن ابي قلابة، عن معاوية، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نهى عن لبس الحرير والذهب إلا مقطعا". خالفه عبد الوهاب رواه , عن خالد، عن ميمون، عن ابي قلابة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ إِلَّا مُقَطَّعًا". خَالَفَهُ عَبْدُ الْوَهَّابِ رَوَاهُ , عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ.
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم اور سونا پہننے سے منع فرمایا مگر جب «مقطع» یعنی تھوڑا اور معمولی ہو (یا ٹکڑے ٹکڑے ہو)۱؎۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) عبدالوہاب نے سفیان کے برخلاف اس حدیث کو خالد سے، خالد نے میمون سے اور میمون نے ابوقلابہ سے روایت کیا ہے، (یعنی: سند میں ایک راوی ”میمون“ کا اضافہ کیا ہے)
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الخاتم 8 (4239)، (تحفة الأشراف: 11421)، مسند احمد (4/92، 93) (صحیح) (متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”میمون“ لین الحدیث ہیں، اور ”ابو قلابہ‘‘ کا معاویہ رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: «مقطع» کی ایک تفسیر «یسیر»(یعنی کم) بھی ہے، جب یہ معنی ہو تو یہ رخصت و اجازت عورتوں کے لیے ہے، مردوں کے لیے سونا مطلقا حرام ہے چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ۔ عورتوں کے لیے جنس سونا حرام نہیں سونے کی اتنی مقدار جس میں زکاۃ واجب نہیں وہ اپنے استعمال میں لا سکتی ہیں، البتہ اس سے زائد مقدار ان کے لیے بھی مناسب نہیں کیونکہ بسا اوقات بخل کے سبب وہ زکاۃ نکالنے سے گریز کرنے لگتی ہیں جو ان کے گناہ اور حرج میں پڑ جانے کا سبب بن جاتا ہے، اور «مقطع» کا دوسرا معنی ”ریزہ ریزہ“ کا بھی ہے، اس کے لیے دیکھئیے حدیث نمبر ۵۱۳۹ کا حاشیہ۔